تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     07-01-2024

انتخابات کا التوا کون چاہتا ہے؟

اللہ اللہ کرکے انتخابات کی تاریخ 8 فروری کو مقرر ہوئی جس کے بعد یہ کہا جارہا تھا کہ انتخابات پر جو شکوک و شبہات کے بادل تھے وہ اب ختم ہوجائیں گے‘لیکن اس کے برعکس ہورہا ہے۔انتخابات پر قیاس آرائیاں پہلے سے زیادہ بڑھ رہی ہیں۔پہلے مولانا فضل الرحمان نے خراب موسم کو بنیاد بنا کر انتخابات ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا۔اب یہ مطالبہ سینیٹ کی جانب سے بھی سامنے آگیا ہے۔ معاملہ تب شروع ہوا جب سینیٹ میں انتخابات ملتوی کروانے کی قرار داد اچانک پیش کر دی گئی‘ جس کو آزاد سینیٹر دلاور خان نے پیش کیا۔دلاور خان نے اپنی قرار داد میں مؤقف اختیار کیا کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سکیورٹی فورسز پر حملے ہوئے ہیں۔ قرار داد میں خراب موسم کو بھی جواز بناکر کہا گیا کہ اکثر علاقوں میں سخت سردی ہے‘ اس وجہ سے ان علاقوں کی الیکشن کے عمل میں شرکت مشکل ہے۔ قرار داد میں یہ بھی کہا گیا کہ جے یو آئی ایف کے ارکان اور محسن داوڑ پر حملہ ہوا‘ الیکشن کی ریلی کے دوران انٹیلی جنس ایجنسیوں کے تھریٹ الرٹ ہیں۔غرض یہ کہ قرار دادمیں 8 فروری کے الیکشن شیڈول کو ملتوی کرنے کامطالبہ کیا گیا۔اب سینیٹ میں اچانک سے اس قرار داد کو کیسے پیش کیا گیا اور منظور بھی کرلیا گیا جبکہ ایوان کا کورم بھی پورا نہیں تھا‘ صرف 14 سینیٹرز موجود تھے۔اس کی کہانی سینئرتجزیہ کار حامد میر کچھ یوں بتاتے ہیں کہ جس وقت یہ قرار دادپیش کی گئی وہ اُس وقت چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے آفس میں موجود تھے۔چیئرمین سینیٹ کے آفس میں کئی سینیٹرزموجود تھے اور خوش گپیاں چل رہی تھی۔صادق سنجرانی سینیٹرز کو یہ بتا رہے تھے کہ 35 کے قریب صوبائی اسمبلی کی جو نشستیں بلوچستان میں ہیں ان پر بلوچستان عو امی پارٹی اپنے امیدوار کھڑے کر رہی ہے اور صوبے میں وہ اگلی حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ حامد میر کے بقول صادق سنجرانی پر ماضی قریب میں یہ دباؤ بھی تھا کہ وہ مسلم لیگ (ن) جوائن کریں پھر اُن پر زور ڈالا گیا کہ پیپلزپارٹی جوائن کرلیںلیکن انہوں نے نہ صرف یہ دباؤ برداشت کیا بلکہ دباؤ ڈالنے والوں کو بھی یادکروایا کہ ہماری جماعت چھوٹی ہی سہی لیکن ہم نے یہ پارٹی بنائی ہے تو اس کو چھوڑیں گے نہیں۔حامد میر بتاتے ہیں کہ صادق سنجرانی کے آفس میں اچانک ایک شخص نمودار ہوا اور اس شخص نے صادق سنجرانی صاحب کے کان میں کوئی بات کی جس کے بعد چیئرمین سینیٹ وہاں سے فوراًاُٹھے اور نیچے تشریف لے گئے۔کسی کو نہیں پتہ تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔بقول حامد میر‘ جو سینیٹرز وہاں بیٹھے تھے وہ بھی چیئرمین سینیٹ کے کچھ دیر بعد نیچے آنے لگے۔ جب حامد میر صاحب نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ کہاں جارہے ہیں تو سینیٹرز کہنے لگے کہ نیچے اجلاس شروع ہونے والا ہے۔ جب حامد میر نیچے گئے توانہوں نے دیکھا کہ اس وقت 12 کے قریب سینیٹرز موجود تھے‘ دوسینیٹرز بعد میں آئے اور جو سینیٹرز وہاں موجود تھے ان کی اکثریت BAP پارٹی سے تھی‘یعنی سینیٹ میں موجود لوگوں کا تعلق یا تو صادق سنجرانی کی جماعت سے تھا یا وہ آزاد تھے۔پھر اچانک دلاورصاحب کی جانب سے یہ قرار داد پیش کر دی گئی اور ایک دم سے وہ منظور بھی کرلی گئی۔اس پر پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر بہرہ مند تنگی جو یہ کہہ رہے تھے کہ انہوں نے قرار داد سے اختلاف کیا‘لیکن بقول حامد میر صاحب کے انہوں نے وہاں بالکل بھی اختلاف نہیں کیا بلکہ خاموش رہے اور اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ پیپلزپارٹی نے انہیں پارٹی پالیسی کے خلاف جانے پر شوکاز نوٹس جاری کردیا ہے۔ممکن ہے پیپلزپارٹی وکٹوں کے دونوں جانب کھیل رہی ہو کیونکہ وہ ماضی میں بھی ایسے کھیلتی رہی ہے البتہ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر افنان اللہ نے نہ صرف اس قرار داد کی مخالفت کی بلکہ اس پر احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔ اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر گردیپ سنگھ نے افنان اللہ کو سپورٹ کیا۔
اب سوال یہ ہے کہ چیئرمین سینیٹ کو کس کا پیغام آیا اور کس کے کہنے پر اچانک قرار داد کوپیش اور منظور کرلیا گیا ؟ اس حوالے سے حامد میر کہتے ہیں کہ انہوں نے نومبر میں اپنے ایک پروگرام میں بھی کہا تھا اور حالیہ دنوں بھی کہا ہے کہ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نہیں چاہتے کہ انتخابات ہوں‘یعنی وہ اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے ہیں‘اس لیے وہ الیکشن کا التوا چاہتے ہیں۔اب ساری کہانی کے نچوڑ سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ ایک تو صادق سنجرانی کو یہ یقین دلایا گیا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کو آئندہ الیکشن جب بھی ہوں صوبے میں آئندہ حکومت دی جائے گی اور ممکن ہے ان کوکوئی بڑا عہدہ بھی دے دیا جائے‘ بڑے عہدے سے مراد وزیر اعلیٰ بلوچستان بھی ہوسکتا ہے۔دوسری بات اس وقت نگران وزیر اعظم پہلے ہی تنازعات کا شکار ہیں‘ ان کی نیت پر تحریک انصاف پہلے ہی سوال اٹھا چکی ہے کہ یہ انتخابات میں نہ صرف رکاوٹ بن رہے ہیں بلکہ اس کوشش میں بھی ہیں کہ انتخابات ہو بھی جاتے ہیں تو تحریک انصاف دیوار سے لگ جائے۔
حامد میر کی کہانی درست ہے تواس اعتبار سے نگران وزیراعظم کی یہ کوشش ہوگی کہ انتخابات التواکا شکار رہیں تاکہ وہ اہم سیٹ پر براجمان رہیں‘لیکن سینیٹ میں الیکشن التو اکی قرار داد میں بھی ان کا ہاتھ ہے‘ یہ چہ مہ گوئیاں صحافتی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے ہورہی ہیں۔گو کہ مرتضیٰ سولنگی نے اس قرار داد کو رد کیا ہے اور تیسری اہم بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی (ن) لیگ کو الیکشن سے بھاگنے کے طعنے دیتی رہی ہے حالانکہ اس کا اپنا کردار یہ تھا کہ اس نے مردم شماری پر ( ن) لیگ کاساتھ دیا بعد میں اس کو (ن) لیگ کی جانب سے انتخابات سے راہ ِفرار کا الزام لگا کر خود کو بری الذمہ کرنے کی کوشش کی‘ لیکن وہ پہلے بھی اپنے دہرے معیار کی وجہ سے ایکسپوز ہوئی ‘ اب ایک بارپھر اس قرار داد کی وجہ سے بے نقاب ہوئی جب اس کے سینیٹر نے خاموشی خاموشی میں قرار داد کی حمایت کی‘جبکہ پیپلزپارٹی کامؤقف ہے کہ ان کے سینیٹر نے اپنی طرف سے قرار داد کی مخالفت کی۔ممکن ہے پیپلزپارٹی درست ہولیکن اگر پیپلزپارٹی انتخابات سے بھاگنا چاہتی ہے تو اس کی وجوہات بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ظاہرہے پیپلزپارٹی کو پتہ ہے کہ پنجاب میں اس کی دال گلنے والی نہیں۔بلاول بھٹو زرداری لاہور سے الیکشن ضرور لڑ رہے ہیں لیکن پنجاب میں پیپلزپارٹی کاصفایا ہوچکا ہے اور پنجاب کے بغیر وفاق میں حکومت ملنا مشکل ہے۔ اہم نقطہ یہ ہے کہ اب تو سندھ بھی اُس کے ہاتھ سے پھسل سکتا ہے کیونکہ وہاں (ن) لیگ ایم کیو ایم سمیت دیگر سندھی جماعتوں کے اتحاد سے پیپلزپارٹی کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں۔ اسی لیے پیپلزپارٹی الیکشن التوا کے بہانے ڈھونڈے‘ یہ سمجھ میں آتا ہے۔
بہرحال ا س قرار داد سے وہ چہرے بے نقاب ہوچکے ہیں جو جمہوریت کاراگ الاپتے ہیں۔ آپ دیکھئے وہ( ن) لیگ جس پر الیکشن التوا کی کوشش کا الزام لگ رہا تھا اسی کے سینیٹر نے قرارداد کو مسترد کیا‘ جس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ( ن) لیگ الیکشن کے میدان میں اترنے کیلئے تیار ہے۔ اس قرار دادکی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت تو نہیں لیکن سینیٹ اراکین کے ارادے ضرور ظاہر ہوگئے ہیں جو الیکشن کے حوالے سے بالکل بھی نیک نہیں۔ ویسے بھی الیکشن کمیشن اس قرار داد کے منظور کیے جانے کے بعد کہہ چکا ہے کہ انتخابات 8 فروری ہی کو ہوں گے۔ اب سینیٹرمشتاق احمد نے بروقت انتخابات کے حق میں قرار داد سینیٹ میں پیش کی ہے۔انتخابات کو وقت پر ہی ہونا چاہیے۔ملک میں سیاسی استحکام کیلئے صاف اور شفاف انتخابات ناگزیر ہیں۔وقتی طور پر فائدے کیلئے الیکشن کا التوا چاہنے والے ملک میں جمہوریت کے بڑے دشمن ہیں‘ جنہیں صرف اپنا مفاد نظر آرہا ہے۔کہیں ایسا نہ ہو اس مفاد پرست ٹولے کو عوام آئندہ انتخابات میں مسترد نہ کردیں۔اگر ایسا ہوگیا تو عوام کے ریڈار پر نگران وزیر اعظم‘چیئرمین سینیٹ اور ان کی جماعت اور پیپلزپارٹی بھی آسکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved