بہت زمانے کی بات ہے بلکہ کہنا چاہیے الگ دنیا اور الگ زمانے کی بات ہے جب میں اردو ادب کے نامور نقاد جناب محمد حسن عسکری کے بے تکلفانہ خطوط ہندوستان کے ایک عالم کے نام پڑھا کرتا تھا ۔پہلی بار شمس الرحمان فاروقی کا نام انہی دو طرفہ خطوط کے ذریعے میرے حافظے میں محفوظ ہوا تھا۔ یہ خطوط علم اور ادب کی ایک نئی دنیا تھی جس کے در مجھ پر کھل رہے تھے۔ میر‘ مصحفی ‘ قائم چاند پوری سے لے کر جدید ترین شعراء کے اسالیب پر اس میں بات ہوتی تھی ۔ جدید ترین اور قدیم ترین فلسفے کے نظریات اس میں موجود تھے۔ تہذیب ‘تاریخ‘تمدن ‘ ثقافت کے خلاصے اس میں زیر بحث تھے۔ آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت ‘ ہائزن برگ اور کوانٹم میکانکس کے اصول پر یہاں گفتگو ہوتی تھی ۔ یورپی نشاۃ ثانیہ اور یورپ کی ثقافت اور ادب پر اس کے اثرات کے بارے میں یہاں کلام ہوتا تھا ۔مذاہب خاص طور پر اسلام ‘ علما‘ صوفیا اور تصوف پر یہاں بات ہوتی تھی ۔ اس گفتگو کا جو بنیادی طو رپر ادب اور تنقید سے متعلق تھی ‘ کوئی اور چھور تھا ہی نہیں ۔ یہاں سب علوم ‘ سب فنون آپس میں پیوست اور یک جان تھے۔ یہ لوگ جو باتیں کرتے تھے‘ ان میں بہت کچھ پلے نہیں پڑتا تھا۔کچھ باتیں سمجھ میں آجاتی تھیں ‘کچھ سر کے اوپر سے گزرتی تھیں ۔لیکن جس طرح مزے سے یہ لوگ باتیں کرتے تھے‘ اس میں بہت چاشنی تھی ۔اس میں بہت تخلیقیت تھی ۔ بہت کاٹ اور بہت طاقت تھی ۔ جن منفرد شعروں کو یہ سراہتے تھے ان میں کچھ دل میں اُتر جاتے تھے‘کچھ پر سر کھجانا پڑتا تھا۔کچھ شعروں پر ان صاحبانِ علم کے ذوق پر شک ہونے لگتا تھا۔ میں ان دنوں حسن عسکری کے دیگر مضامین اور کتابیں بھی پڑھ رہا تھا۔وہاں بھی یہی صورتحال تھی جو اوپر بیان کی۔ بعد میں آگے چل کر کچھ باتیں مزید سمجھ آنے لگیں ۔ اور یہی سوچا کہ شاید زندگی میں کسی وقت بہت سی دیگر چیزیں بھی سمجھ آہی جائیں گی ۔ اور یہ توقع بدستور چلی جارہی ہے ۔
بات شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کی ہورہی تھی ۔ اندازہ ہوا کہ ان صاحب نے عربی‘ اردو‘ فارسی ‘انگریزی‘ قدیم ‘ جدید ادب تو گھول کر پی ہی رکھا ہے ‘ نہ جانے اورکتنے علوم و فنون کے شناور بھی ہیں ۔معلوم ہوا کہ فاروقی صاحب انگریزی ادب کے استاد ہیں اور ادبی دنیا میں تنقید‘عروض‘نثر‘شاعری کی جملہ اصناف وغیرہ پر ان سے بڑے بڑے لوگ استفادہ کرتے ہیں۔تحقیق کے مردِ میدان ہیں اوربلا جھجک بڑے بڑوں سے اختلاف کرتے ہیں ۔ وہ دور ہندوستان میں بڑے صاحب علم نقادان فن کا دور تھا۔رشید حسن خان ‘ شمس الرحمن فاروقی ‘ گوپی چند نارنگ ان میں سے تین نام تھے۔عسکری صاحب کی تو بات الگ تھی لیکن ادھر پاکستان میں اتنے جامع نقادانِ فن اور اس کینڈے کے لوگ نہیں تھے جبکہ دوسری طرف کسی خال خال نام کے سوا ہندوستان اعلیٰ شاعروں اور ادیبوں کے قحط کا شکار تھا۔ پھر عسکری صاحب رخصت ہوگئے ۔زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ دوستوں کے ہاتھوں میں چارجلدوں پر مشتمل کتاب'' شعر شور انگیز ‘‘نظر آنے لگی ۔کتاب دیکھتے ہی میر کا شعر یاد آنے لگاجو اس کتاب کی بھی بنیاد تھا
جہاں سے دیکھیے اک شعر ِ شور انگیز نکلے ہے
قیامت کا سا ہنگامہ ہے ہر جا میرے دیواں میں
مصنف کا نام تھا شمس الرحمٰن فاروقی اور میر تقی میر کے اشعار کی تفہیم اور انتخاب کے لیے یہ بے مثال کتاب خراجِ تحسین وصول کرتی آئی ہے ۔سچ یہی ہے کہ میر فہمی میں اس کتاب سے بے نیاز نہیں ہوا جاسکتا۔یہ بات بھی پہلی باراسی کتاب سے میرے علم میں آئی تھی کہ میر کے بارے میں جو یہ مشہور جملہ شیفتہ سے منسوب ہے کہ' ' پستش بغایت پست و بلندش بسیار بلند‘ ‘ (ان کا پست بہت پست اور بلند بہت بلند ہے )درست نہیں ہے ۔ اصل جملہ یوں ہے کہ' ' پستش اگرچہ اندک پست است اما بلندش بسیار بلنداست‘‘(ان کا پست اگرچہ کم پست ہے لیکن بلند بہت بلند ہے )
یہ کافی سال بعد کی بات ہے کہ فاروقی صاحب کو پہلی بار دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ وہ پاکستان کسی کانفرنس میں آئے تھے ۔میں نے دیکھنے کا لفظ جان بوجھ کر استعمال کیا ہے کیوں کہ ا سے ملنا نہیں کہا جاسکتا۔ پھرایک بار دوحہ میں جہاں میں کسی مشاعرے کے سلسلے میں موجود تھا‘ فاروقی صاحب کو ہال کے باہر ایک چھوٹی سی منڈلی میں چائے کی میز پر بیٹھے دیکھا۔ سلام اور مصافحے سے زیاد ہ کوئی تعارف نہ ہوسکا۔ یہ بھی معلوم تھا کہ گوپی چند نارنگ سے ان کی نہ صرف یہ کہ بنتی نہیں ہے بلکہ بہت بگڑی ہوئی ہے ۔ آخری بار جب وہ لمز یونیورسٹی لاہو رکی دعوت پر لیکچر کے لیے تشریف لائے تب بھی اپنی جھجک کی وجہ سے یہ تک نہ کہہ سکا کہ فاروقی صاحب ! آپ جتنا اور جیسا اب تک لکھ چکے اور کہہ چکے ویسا تو پڑھنا اور سننا بھی عام نقادوں کے بس کا نہیں ۔ وہ الگ ہی طبقے کے عالم تھے۔
فاروقی صاحب بڑے لوگوں کی تربیت اور صحبت اٹھائے ہوئے بڑے آدمی تھے ۔ ایک ایسے صاحبِ علم جو ایک عمر میں کئی عمریں گزار دیتے ہیں ۔ انہوں نے علم و ادب کے لیے زندگی وقف کی تھی ۔اور یہ کسی مجبوری کے تحت نہیں ‘اپنی خوشی اور اپنی آسودگی کے لیے تھی۔ان کا معرکتہ الآرا ناول ''کئی چاند تھے سر آسماں ‘‘وہ تخلیقی کام ہے جس کے شاہکار ہونے میں مجھے کوئی شبہ نہیں ۔میں اس ناول کو کئی بار پڑھ چکا لیکن یہ ہر بار اپنی تخلیقی طاقت اور لفظی ثروت مندی سے مجھے حیران کردیتا ہے ۔یہاں شمس الرحمٰٰن فاروقی اپنے کمال پر ہیں ۔ اس ناول میں کئی جگہوں پر تنقیدی گرفت بھی کی جاسکتی ہے لیکن ان کے باوجود اردو ادب میں ایسے ناول کی کوئی مثال اور نظیر موجود نہیں ہے ۔مغلیہ دور کے آخری ماہ و سال کے اطراف پھیلا ہوا یہ ناول اس دور کی ثقافت اور معاشرت کا کیا رنگ نمایاں نہیں کرتا۔ہر طبقہ زیست یعنی ‘ مزدور پیشہ طبقے سے لے کر قلعہ معلی تک کے مکینوں کے رہن سہن ‘ لباس اور اطوار۔ناول کیا ہے ایک مرقع ہے ۔ جو شکل نظر آئی ‘تصویر نظر آئی ۔ ایک خاص بات یہ کہ داغ دہلوی کی والدہ ‘جن کا کردار اور پس منظر پر بہت سی انگلیاں اٹھتی تھیں‘اس ناول کا مرکزی کردار ہیں ۔ظاہر ہے یہ ایک حقیقی کردار ہے اور جس طرح کی زندگی ان کی گزری اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے داغ دہلوی پر کوئی چھینٹا نہ پڑنے دینا مصنف ہی کا کمال ہے ۔ اور یہ تو محض ان کے ناول کی بات ہے۔ گنج سوختہ ‘سبز اندر سبز ‘چار سمت کا دریا‘آسماں محراب (شعری مجموعہ )اردو غزل کے اہم موڑ ‘لغاتِ روز مرہ اور کئی چاند تھے سر آسماں ان کی چالیس سے زیادہ تصانیف میں چند نام ہیں ۔
دیکھئے‘ بات تو مجھے اس کتاب کی کرنی تھی جو میرے ہاتھوں میں ہے۔ ''ایک فکشن نگار کا سفر‘‘۔لیکن بات فاروقی صاحب جیسے عالم کی ہو تو تمہید طولانی ہو ہی جاتی ہے ۔ یہ کتاب دراصل فاروقی صاحب اور ادین واجپئی کے درمیان ہونے والی گفتگو ہے جو اصلاً ہندی میں تھی لیکن اس کا ترجمہ ہمارے بھوپالی دوست اور نوجوان تخلیق کار رضوان الدین فاروقی نے اردو میں کیا ہے اور بڑی بات یہ ہے کہ لاہور‘ پاکستان میں بھی چھپ کر دستیاب ہے ۔یہ گفتگو شمس الرحمن فاروقی کے انتقال یعنی دسمبر 2020 ء سے دو سال پہلے ریکارڈ کی گئی تھی ۔ رضوان الدین فاروقی نے اتنا عمدہ ترجمہ کیا ہے کہ کہیں کہیں تو شمس الرحمٰن فاروقی کا لہجہ بھی سنائی دینے لگتا ہے ۔ اصل بات وہی رہتی ہے اور گفتگو سے تحریر اور پھر ترجمے کے مراحل میں بگڑتی نہیں ہے ۔ اس گفتگو میں فاروقی صاحب نے نہ صرف اپنے تخلیقی سفر اور فکشن نگاری پر بات کی ہے بلکہ بہت سے ایسے موضوعات بھی زیر بحث آئے ہیں جو ادب اور متعلقہ مضامین کے اساتذہ اور طالب علموں کے لیے نہایت اہم ہیں ۔کتابوں اور مصنفین پر فاروقی کے جملے دراصل ان کی زندگی کے خلاصے ہیں۔ خدا کرے کہ کچھ ایسا وقت میسر آئے جس میں اس گفتگو پر مجھ جیسا عام آدمی بھی گفتگو کرسکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved