ایک دنیا ہے کہ بحالی کی راہ پر گامزن ہے اور کسی نہ کسی طور پیش رفت ممکن بنا ہی رہی ہے اور ایک ہم ہیں کہ جہاں تھے وہاں بھی کھڑے رہنے کو تیار نہیں۔ ہم پسپا ہونے اور ہوتے رہنے پر بضد ہیں۔ بار بار ایک ہی بات ذہن کے پردے پر اُبھرتی ہے ‘ یہ کہ یہ سب کیوں ہے اور کب تک رہے گا؟ آخر کیا سبب ہے کہ ہمارا احساس مکمل طور پر بیدار ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا؟ وہ کون سے عوامل ہیں جو قدم قدم پر ہماری راہ روک لیتے ہیں؟ کورونا کی وبا کے کم و بیش دو سال بہت بُرے گزرے۔ بہت کوشش کرنے پر بھی بہتری کی کوئی صورت دکھائی نہ دی۔ کیسے دکھائی دیتی؟ صرف ہم بُرے حال میں نہ تھے‘ ایک دنیا تھی کہ اُلجھی ہوئی تھی اور ''ڈور کو سلجھا رہا ہوں اور سِرا ملتا نہیں‘‘ والا معاملہ درپیش تھا۔ زندگی کا دامن خالی ہو چلا تھا۔ کون تھا جو پریشان نہ تھا؟ کس کیلئے اُلجھن کا سامان نہ تھا۔ کیا امیر‘ کیا غریب سبھی افراد اور سبھی ملک عجیب سی کیفیت کا شکار تھے۔ ذہن تھے کہ کام نہ کرتے تھے‘ حوصلہ تھا مگر بیٹھ گیا تھا‘ ارادے تھے مگر پختہ ہونے کا نام نہ لیتے تھے‘ وسائل تھے مگر اُنہیں ڈھنگ سے بروئے کار لانے کی نہ سُوجھتی تھی۔ مسائل سب کیلئے تھے مگر ''چھوٹوں‘‘ نے اُنہیں سر پر سوار کر لیا۔ نتیجہ؟ بیماری تو کب کی جا چکی مگر سکت ہے کہ بحال ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ٹھیک ہے‘ بیماری کے بعد سکت اچانک بحال نہیں ہوتی مگر یہ کیا کہ انسان بحالی کا سوچنے سے بھی گریز کرے؟ ہمارا تو یہی حال ہے۔ ہم نے سوچ رکھا ہے کہ جو کچھ بھی بگڑا ہے اُسے خود ہی سُدھرنے‘ سنورنے کا موقع دیتے رہیں گے۔ معاملات خود بخود درست ہو جائیں تو ٹھیک وگرنہ ہم تو شعوری سطح پر ایسا کچھ نہ کریں گے جو اصلاحِ احوال کے زمرے میں ہو۔
عمومی تصور یا خیال یہ تھا کہ کورونا کی وبا کے ہاتھوں معیشت و معاشرت کا جو حال ہوا اُس کے پیشِ نظر ہوش کے ناخن لینے کا سلسلہ شروع ہو گا‘ ملک و قوم کو بحالی کی راہ پر گامزن کرنے کی سوچ پیدا ہو گی مگر افسوس کہ یاروں نے بظاہر طے کر رکھا ہے کہ ہوش میں آنا ہی نہیں ہے‘ جاگنا ہی نہیں ہے۔ ایک منتخب حکومت کو اُس وقت ختم ہوئی جب ایسا ہونے کا بظاہر کوئی حقیقی اور اخلاقی جواز نہیں تھا۔ کورونا کی وبا کے دوران حکومت کی کارکردگی مجموعی طور پر بہت اچھی رہی تھی۔ اس وبا نے ایک دنیا کو شدید اُلجھن سے دوچار کیا۔ بدحواسی تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایسی چھائی کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔ معاملہ پڑوس میں بھی ایسا تھا کہ دیکھ کر دل لرز جانے چاہیے تھے مگر اللہ کا خاص کرم رہا کہ ہم ایسے بدحواس نہ ہوئے۔ دل و دماغ کو قابو میں رکھا اور یوں ہم اس امتحان میں بہت حد تک کامیاب رہے۔ مگر یہ کیا؟ بحالی کا سفر ہے کہ شروع ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ معاشی زبوں حالی دم توڑنے کا نام نہیں لے رہی۔ سیاست کروٹ بدلنے سے بھی گریزاں ہے۔ وہی توڑ جوڑ ہے‘ وہی تِگڑم بازی ہے‘ وہی نام نہاد گٹھ جوڑ ہیں۔ ایک نظر ڈال کر منہ پھیر لیجیے تو ٹھیک۔ ذرا سا سوچیے تو دل کانپنے لگتا ہے۔ ذہن کی عجیب ہی کیفیت ہو جاتی ہے۔ کوئی یہ سب کچھ کب تک دیکھ سکتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر‘ کب تک جھیل سکتا ہے؟
سیاسی بے چینی اور بے یقینی برقرار ہے۔ انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے۔ نظام الاوقات بھی آچکا ہے۔ انتخابی مہم جاری ہے۔ سیاسی جماعتیں قدرے غیریقینی کیفیت کے برقرار رہنے پر بھی انتخابی اکھاڑے میں اُتری ہوئی ہیں اور نام نہاد مقابلے کیلئے خود کو تیار کر رہی ہیں۔ ادھر قوم اب تک ذہنی خلفشار سے نبرد آزما ہے جو کم ہونے کے بجائے صرف بڑھ رہا ہے۔ ہم ذہنی اُلجھنوں‘ بلکہ بے ذہنی کے عادی ہونے کی راہ پر گامزن رہے ہیں۔ اسلئے اب کوئی مشکل فی الواقع مشکل نہیں لگتی۔ دنیا بحرانوں سے لڑتی ہے‘ انہیں پچھاڑنے کی کوشش کرتی ہے مگر ہم ایسا کچھ بھی نہیں کرنا چاہتے۔ ہم نے طے کر رکھا ہے کہ کسی بھی بحرانی کیفیت کو گھاس نہیں ڈالیں گے‘ اسے عزت دیں گے ہی نہیں۔ بلند ہو یا پست‘ کسی بھی سطح پر کوئی سوچنے کو تیار نہیں۔ سب نے بظاہر طے کر رکھا ہے کہ جو کچھ بھی چلتا آیا ہے وہی چلنے دیا جائے گا اور ایسی کوئی کوشش نہیں کی جائے گی جس سے واقعی کوئی بڑی اور مثبت تبدیلی واقع اور رُونما ہو سکتی ہو۔
جمود ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ مسائل کو حل کرنے کی نیم دلانہ کوششیں بھی نہیں کی جا رہیں۔ سیاسی معاملات اور اقتدار کے ذریعے ملنے والے اختیارات کا معاملہ تو یہ ہے کہ ''جو ذرّہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے‘‘۔ اختیارات کی لڑائی ختم ہونے میں نہیں آرہی۔ یہی کیفیت سرکاری مشینری اور باقی معاشرے کے درمیان بھی ہے۔ پوری قوم کی دولت سمیٹ کر سرکاری مشینری پر لُٹائی جا رہی ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران ملک بھر میں کاروباری اداروں کا حال بُرا رہا۔ بیسیوں اداروں نے لاک ڈاؤن کے باعث جس خسارے کا سامنا کیا اُس کے شدید منفی اثرات سے کسی نہ کسی طور نپٹنے کیلئے ڈاؤن سائزنگ بھی کی اور پیکیجز کو ریشفل بھی کیا۔ تنخواہوں میں 10سے 20فیصد تک کمی کی گئی۔ بہت سی مراعات ختم کر دی گئیں۔ ملازمین کو مستقل کرنے کا سلسلہ تو بہت پہلے ختم کیا جا چکا ہے۔ دوسری طرف سرکاری مشینری کو نہ صرف یہ کہ پیکیج میں کمی کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ ہر سال تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ ہی دکھائی دیتا آیا ہے۔ عام آدمی سوچنے پر مجبور ہے کہ آخر اُس سے ایسا کون سا قصور سرزد ہوا ہے کہ معاشی خرابیوں کا سارا بوجھ اُسی کے کاندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔
ملک کو جب معاشی بحالی کی اشد ضرورت تھی تب سیاسی بحران کی راہ ہموار ہوئی۔ فروری 2022ء میں جب باقی دنیا کورونا کی وبا سے کسی نہ کسی طور نپٹنے کی راہ پر گامزن تھی اور معاملات کو سلجھانے کی اپنی سی تگ و دَو کر رہی تھی‘ یہاں حکومت تبدیل ہو رہی تھی۔ 2018ء کے الیکشن کے نتیجے میں بننے والی حکومت اپنی خرابیوں اور کوتاہیوں کے باوجود اس قابل نہ تھی‘ وہ ایسے وقت گری جب ملک کو حقیقی سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی استحکام کی ضرورت تھی اور ایسے کسی بھی تجربے کی گنجائش نہ تھی۔ اب ملک وہاں کھڑا ہے جہاں سے کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہی۔ اور جو خود کوسیاہ و سفید کا مالک کہتے ہیں اُنہیں تو جیسے کوئی فکر ہی لاحق نہیں۔ قوم منتظر ہے کہ معاملات کو درست کرنے کی کوئی صورت تلاش کی جائے مگر کہیں کچھ حرکت دکھائی نہیں دے رہی۔
وقت آگیا ہے کہ وسیع البنیاد اصلاحات کی طرف قدم بڑھایا جائے۔ حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت محسوس کی جانی چاہیے۔ قوم ایک دکھائی دے رہی ہے مگر در حقیقت منتشر ہے‘ بکھری ہوئی ہے۔ بہت سا بگاڑ صرف محسوس ہو رہا ہے‘ دکھائی نہیں دے رہا۔ اس کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ کوئی بھی کچھ کہنے اور کرنے کو تیار نہیں۔ سب ''مٹی پاؤ‘‘ کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ کیا اس طور جیا جا سکتا ہے؟ مگر کیا کیجیے کہ جیا جا رہا ہے۔
انتخابات کا ڈول ڈالا جا چکا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کنویں سے کیا برآمد ہوتا ہے۔ کچھ اچھا ہی سامنے آنا چاہیے۔ سٹیک ہولڈنگ کے نام پر قوم کا تیا پانچا کیا جاتا رہا ہے‘ جس میں ذرا دم ہے وہ سٹیک ہولڈر بن کر سامنے آتا ہے اور بلیک میلنگ شروع کر دیتا ہے۔ یہ سلسلہ کئی عشروں سے جاری ہے‘ اس لیے اب ہر معاملے کے رگ و پَے میں سرایت کر چکا ہے۔ انفرادی و گروہی مفادات کو پروان چڑھانے کی ذہنیت نقطۂ عروج پر ہے۔ عوام کی غالب اکثریت خاموش ہے مگر یہ خاموشی کسی بھی وقت گھن گرج میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ تب کسی کیلئے کچھ نہ بچے گا۔ ایسے وقت سے پناہ مانگنی چاہیے اور اصلاحِ احوال کیلئے کچھ سوچنا چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved