اگر آپ صاحبِ استطاعت ہیں‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور دنیا کی سیر کرنے کے لیے جیب گرم اور ٹانگیں سہارا دے رہی ہیں تو کبھی برطانیہ اور امریکہ کی جامعات میں کچھ دن گزار کر دیکھیں۔ یہ دنیا ہی کچھ اور ہے۔ اس کا تصور کچھ کتابیں اور رسالے پڑھ کر اور کہیں دور دراز کے علاقے میں بیٹھ کر نہیں کیا جاسکتا۔ امریکہ اور یورپ کی جامعات جو ہم نے ان کی نقل میں قائم کرنے کی کوشش کی‘ ان سے یکسر مختلف ہیں۔ نہ صرف ہر ایک کے ساتھ طویل تاریخی داستان جڑی ہوئی ہے بلکہ وہ آج کے زندہ معاشرے کا عکس بھی پیش کرتی ہیں۔ بڑے شہروں کے وسط میں آباد جامعات کو چھوڑ کر دور دراز کے علاقوں میں ہر جامعہ اپنے طور پر ایک مکمل قصبہ‘ آبادی اور شہر ہے۔ ان کے ارد گرد ہزار ہا طلبا اور اساتذہ جو ریٹائر ہونے کے بعد انہی کے مضافات میں بس جاتے ہیں‘ادیب‘ لکھاری‘ دانشور‘ مصور اور تخلیقی فنون سے تعلق رکھنے والے آباد ہیں۔ یہ بالکل نرالی‘ دنیا سے الگ بستیاں ہیں جہاں جب کوئی کھو جائے تو صرف آخری فرشتے کی ناگہانی آمد ہی اسے رہا کرکے کسی اور دنیا میں جا بساتی ہے۔ ہمارا جامعات کا سب سے زیادہ مشاہدہ امریکی جامعات کا ہے۔ علمی لحاظ سے ہم اُس روایت کا حصہ رہے ہیں۔ خوش قسمتی ہے کہ جہاں کسی دوسرے ملک میں جاتے ہیں تو زیادہ نہ سہی‘ ایک دو قریبی جامعات کی زیارت کا شرف حاصل کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں کہ وہاں کے ماحول کو دیکھیں کہ کیسے نئی نسلیں حصولِ علم میں مصروف ہیں ؟ کیا نئی سہولیات انہیں میسر ہیں اور ان کا ماحول ہمارے زمانوں سے کس قدر مختلف ہے ؟ اس بہانے کچھ اہلِ علم مسافروں سے ملاقات‘ مل بیٹھنے‘ گفتگو کرنے اور ان کی منظم اور قابلِ رشک کامیابیوں سے سیکھنے کا موقع ملتاہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کا نام کس نے نہیں سنا۔یہاں بر صغیر پاک و ہند کے علاوہ دنیا کے کونے کونے سے نوجوان آئے اور اپنا نام پیدا کیا۔ کچھ کا ذکر آگے چل کر کریں گے۔ ویسے تو میرے خیال میں کوئی بھی مغرب کی یونیورسٹی ہو‘ وہاں تعلیم حاصل کرنا ایک اعزاز ہے‘ مگر صفِ اول کی جامعات کا طالب علم ہونا قابلِ فخر ہے۔ مالی اور سماجی طور پر مضبوط گھرانے اور جس جس ملک میں غربت کی لکیر نیچے گئی اور متوسط طبقات آگے آئے اور جن میں دنیا کی بہترین جامعات میں بچوں کی تعلیم اولین ترجیح ہے‘ وہ لاکھوں کی تعداد میں نئی نسل کو امریکہ اور مغرب کی جامعات میں بھیج رہے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی ہو یا دنیا کی کوئی اور‘ مقابلہ کی بنیاد پر زیادہ تر داخلے ہوتے ہیں مگر ان تاریخی جامعات میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ان کے والدین اور آبائو اجداد میں سے کوئی یہاں کا گریجوایٹ تو نہیں۔ اس نسبت سے ترجیح مل جاتی ہے۔ آکسفورڈ میں تین مرتبہ پہلے بھی آچکا ہوں‘ پہلی بار تقریباً پینتیس سال قبل نامور مورخ‘ محقق‘ استاد اور مصنف پروفیسر افتخار حیدر ملک سے ملنے کے لیے۔ اُس وقت وہ یہاں قائد اعظم فیلو کی حیثیت سے علمی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ پروفیسر گوہر رضوی صاحب‘ جو آج کل بنگلہ دیش میں وزیر اعظم حسینہ واجد کی حکومت میں عالمی امور کے مشیر ہیں‘نے اگلے روز درویش کے لیے پاکستانی سیاست پر لیکچر کا اہتمام کیا تو کئی دیگر سکالرز سے بھی ملاقات ہوگئی۔ دوسری بار چند سال پہلے پاکستان پر ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کی غرض سے گیا تو اس جامعہ کو پھر سے دیکھنے کا موقع ملا‘ مگر جس مہارت‘ تاریخی آگہی اور شوق سے افتخار ملک معلومات فراہم کرتے ہیں‘ وہ شاید یہاں کا کوئی آبائی باشندہ بھی نہ کرسکے۔
پروفیسر ملک تو اب یہاںمستقل طور پر آباد ہوچکے ہیں۔ وہ تقریباً تین عشرے قبل آکسفورڈ میں آئے تھے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ سوچتا ہوں کہ ہماری کتنی بدقسمتی ہے کہ اس پائے کے مورخ کو ہم نے کھو دیا۔ اس سے قبل تقریباً بارہ سال جامعہ قائداعظم میں پڑھا چکے تھے۔ امریکہ سے ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد واپس آئے تو ایک جذبے کے ساتھ درس و تدریس جاری رکھی۔ ہم ان کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ہم آپ کو کیا بتائیں کہ ہم سب امریکہ کی جامعات میں اچھا خاصا وقت گزار کر کن خوابوں اور امیدوں کے دیپ روشن کرکے اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالنے چلے آئے تھے۔ ہم سے پہلے بھی سکالرز کی ایک نسل اسی طرح آئی تھی اور حالات و واقعات سے تنگ آکر باہر چلی گئی۔ کئی نام ہیں‘ اب وہ اپنا وقت پورا کرکے کہیں اور جا چکے ہیں۔ اُس زمانے میں ہماری تنخواہ اتنی کم تھی کہ بچوں کو کسی نجی ادارے میں داخل کرانے سے پہلے کئی بار سوچنا پڑتا تھا۔ تب بھی راج اور اثر و رسوخ نوکر شاہی‘ تاجروں‘ ریاستی اداروں سے وابستہ لوگوں اور سیاسی گھرانوں کا تھا۔ ہمیں ان سے کوئی سروکار تو نہیں تھا مگر اپنی جدوجہد‘ تعلیم اور طرزِ زندگی کا موازنہ ملک کے بالا تر طبقات یا مغربی ممالک میں اپنے ہم کاروں سے کرتے تو اپنی حالت اور حب الوطنی کے مثالی جذبات پر ترس آنا شروع ہوجاتا۔ ایک مرتبہ تو افتخار ملک اور میں نے افریقہ کے ایک ملک کی جامعات میں درخواستیں دی تھیں۔ دریں اثنا ہمیں امریکہ میں فیلو شپ بھی ملنا شروع ہوگئی تو معاشی حالات ذرا سنبھلے‘ مگر تب بھی ایک معمولی گاڑی رکھنے کی استعداد نہیں تھی۔ ہماری نسبت افتخار حیدر ملک بہت باہمت‘ بہادر اور پیش بیں سکالر تھے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی فیلو شپ ختم ہوئی تو باتھ سپا یونیورسٹی میں پکی ملازمت مل گئی۔ ان کی قابلیت‘ تصانیف اور کھلی شخصیت کا کرشمہ ایسا تھا کہ میرے خیال میں یہاں کی جامعات اور پیشہ ورانجمنیں انہیں خود تلاش کرتی رہی ہیں۔ آکسفورڈ انہیں اتنا پسند آیا کہ رہائش ہمیشہ اُدھرہی رکھی۔
یہ شہر بھی کیا چیز ہے۔ کھلا ہوا‘ بغیر دروازے کے عجائب گھر‘جسے دیکھنے لاکھوں کی تعداد میں لوگ برطانیہ‘ یورپ‘ امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک سے آتے ہیں۔ افتخار ملک مجھے ہر ایک لائبریری‘ کتابوں کی دکانوں اور کالجوں کے بارے میں ایسے بتارہے تھے جیسے پیشہ ور گائیڈ کسی نووارد کو نوادارت کے بارے میں بہت دلچسپ معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ایگزیٹر کالج کے سامنے سے گزرے تو انہوں نے کہا کہ یہاں لیاقت علی خان پڑھنے کے لیے آئے تھے۔ کرائسٹ کالج کی طرف گئے تو بتایا کہ یہ ذوالفقار علی بھٹو اور بلاول بھٹو کا کالج ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو لیڈی مارگریٹ ہال کی طالبہ تھیں۔ ملالہ یوسفزئی بھی اسی کالج سے فارغ التحصیل ہیں۔ سابق کپتان اور وزیراعظم عمران خان کا تعلق کیبل کالج سے ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمارے ایک اور وزیر اعظم‘ سہروردی بھی کرائسٹ چرچ کالج میں آئے تھے۔ برطانوی جامعات کی تنظیم امریکی جامعات سے بالکل مختلف ہے۔ یہاں آکسفورڈ یونیورسٹی چالیس کالجوں پر مشتمل ہے‘ جن میں سے اکثر صدیوں پرانے ہیں۔ ہر طالب علم کو ایک کالج تفویض ہوتا ہے جہاں رہائش‘ لائبریری‘ کھانے پینے اور کلاسز کا انتظام ہوتا ہے۔ شروع میں سب تاریخی کالج مذہبی مدرسے تھے جہاں لاطینی زبان میں مسیحیت کے ایک صرف ایک فرقے کی تعلیم دی جاتی تھی۔ آہستہ آہستہ سیکولر ازم پھیلا تو ان مدرسوں نے جدید کالجوں کی صورت اختیار کرلی۔ مدرسوں سے تشبیہ دینابنتا تو نہیں‘ صرف آپ کی سہولت کے لیے مثال دی ہے۔ بڑا فرق یہ ہے کہ مذہبی رہنمائوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کو وقت کے تقاضوں کے مطابق صنعتی انقلاب کے اوائل میں ہی قبول کرلیا تھا۔ ہر کالج اپنی تاریخ محفوظ کیے ہوئے ہے‘اور افتخار حیدر ملک ان کی تاریخ کے حافظ معلوم ہوتے ہیں۔ (جاری )
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved