انتخابات ملتوی کرنے کی سینیٹ سے منظور کی گئی قرار داد کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہو چکی ہے جس میں چیئرمین سینیٹ اور قرار داد کے حامی سینیٹرز کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ انتخابی عمل جہاں ڈرامائی ہوتا چلا جا رہا ہے وہاں دن بہ دن ایسا معمہ بھی بن چکا ہے جو آسانی سے حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ایک طرف انتخابات سے فرار کا سماں بنایا جا رہا ہے تو دوسری طرف انتخابات پر اصرار بدستور جاری ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے دوٹوک کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ یا او آئی سی بھی آجائیں تو انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہی ہوں گے۔ مسلم لیگ(ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کا بھی کہنا تھا کہ سینیٹ کی قرارداد کے آگے پیچھے کوئی بھی ہو انتخابات اپنے شیڈول پر ہی ہوں گے۔
اپنے حالیہ کسی کالم میں پہلے بھی باور کروا چکا ہوں کہ اکثر یہ گماں ہوتا ہے کہ نگران انتخابات کروانے نہیں بلکہ نہ کروانے آئے ہیں۔ شوقِ حکمرانی کی لت جسے لگ جائے اُسے اقتدار سے باہر چین نہیں پڑتا‘ یہاں تو نگرانوں کے ساتھ ساتھ تمکنت کے مارے سرکاری بابوؤں سمیت عرض گزاروں اور حلقہ بگوشوں کا ایک ایسا ٹولہ بھی انتخابات سے گریزاں اور خائف ہے کہ ایک سال سے جاری موجیں بند نہ ہو جائیں۔ بالخصوص پنجاب میں تو مخصوص بابوؤں پر مشتمل ٹیم میرٹ اور گورننس کی درگت بنانے کے باوجود نگران سرکار کی بیساکھیاں بن چکی ہے جن کے بغیر نہ کوئی دورہ مکمل ہوتا ہے اور نہ کوئی فیصلہ ہوتا ہے۔ ان سبھی کا جن جپھا کہیں منہ زوری تو کہیں سینہ زوری کے ساتھ ساتھ قانون‘ ضابطوں اور پالیسیوں کی بھی ضد بنتا چلا جا رہا ہے۔ بندہ پروری کی ایسی ایسی داستان جہاں زبان زدِ عام ہیں وہاں کالے کرتوتوں سے بھرے کاغذات کے پلندے سرکاری فائلوں میں ان بھاشنوں کا منہ چڑا رہے ہیں جو صبح شام اپنے دفاتر‘ دوروں اور تقریبات میں دیتے نظر آتے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت میں بیٹھ کر قانون کی بالادستی کے دعوے کرنے والے دور دراز اضلاع میں پولیس گردی کے واقعات پر ایکشن لینے کے بجائے بغلیں جھانکتے پھرتے ہیں۔ تعجب ہے کہ حالیہ حکومتی اتحاد میں شریکِ اقتدار جماعتوں کے سر چڑھے اور سرکردہ وزرا سابق ہونے کے باوجود دیدہ دلیری اور سینہ زوری پروہی قدرت رکھتے ہیں۔ ان کے منظورِ نظر اور سہولت کار افسران کے ناقابلِ تردید اور بھیانک انکشافات پر مبنی خفیہ رپورٹوں اور محکمانہ انکوائریوں کے باوجود اکثر افسران عوام کے لیے بدستور عذاب اور عتاب کا باعث ہیں۔ کہیں سابق وزرا کی فرمائش پر تعینات ہونے والے پولیس افسران عوام کی جان و مال کے اس لیے درپے ہیں کہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان کی اتھارٹی مصلحتوں اور مجبوریوں کے آگے بے بس ہے جبکہ انتظامی افسران بھی اس فارمولے کے تحت بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر گورننس کی تشہیر کے سبھی روپ بہروپ کے ساتھ ساتھ بھید بھاؤ بھی کھلتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ اندھیر مچا ہوا ہے کہ بند آنکھ سے بھی سب کچھ صاف صاف دکھائی دے رہا ہے۔ تعمیراتی منصوبوں اور طوفانی دوروں کو کُل گورننس قرار دینے والے کیا جانیں گے عام آدمی کی زندگی کس قدر مشکل ہو گئی ہے۔ تزئین و آرائش کے باوجود تھانوں کے بھیانک مناظر ہوں یا طرزِ حکمرانی کے دیگر جبر‘ سبھی چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ تھانہ‘ ہسپتال اور پٹوار سمیت دادرسی اور شنوائی کے لیے کہیں بھی چلے جاؤ ذلّت‘ دھتکار اور پھٹکار کئی اضافوں کے ساتھ آج بھی عوام کا مقدر ہے۔ ایسے میں کون چاہے گا کہ انتخابات ہوں اور اقتدار و اختیار کسی اور کے ہاتھ لگ جائے۔ کیسے کیسے دھندوں اور ایجنڈوں کے ساتھ ماضی کی سبھی بدعتوں کو دوام بخشنے کے لیے پیش پیش اکثر سرکاری بابو ماضی کی خدمات اور سہولت کاریوں کے سبھی ریکارڈ ریکارڈ مدت میں توڑ چکے ہیں۔ دور کی کوڑی لانے والے تو کہتے ہیں کہ ایک سال موجیں مارنے والوں کے پاس مزید ایک سال تو ہرگز نہیں ہے‘ کوشش اور حجت سے کچھ مزید وقت مل بھی گیا تو ان کے بیشتر اقدامات اور فیصلے اسی طرح گلے کا طوق اور پاؤں کی بیڑیاں بنتے نظر آرہے ہیں جیسے ہر دور میں گورننس کے نام پر گُل کھلانے والوں کے بنتے چلے آئے ہیں۔ کس کس کا نام لوں‘ سب کو سبھی جانتے ہیں کہ کون کہاں جھوم رہا ہے۔
اقتدار کو حتمی اور دائمی سمجھنے والے نجانے کس مغالطے میں ہیں‘ ماضی قریب اور بعید سے لے کر روزمرہ کے واقعات اور معاملات سے سبق حاصل کرنے کے بجائے انہی جھمیلوں اور دھندوں میں مگن ہو جاتے ہیں جو باعثِ تقلید نہیں بلکہ باعثِ عبرت ہیں۔ آئین سے انحراف کرنے والے ہوں یا قانون اور ضابطوں کو گھر کی باندھی سمجھنے والے‘ اخلاقی و سماجی قدروں کو پامال کرنے والے ہوں یا جبر کو طرز ِحکمرانی بنانے والے شاندار آغاز کا انجام عبرتناک ہی رہا ہے۔ فاتح بن کر آنے والے کیسی کیسی رسوائیاں سمیٹ کر کوئے اقتدار سے نکلے۔ کسی کو زمین پر پناہ نہ ملی تو کسی کو آسمانوں پر‘ جہانِ فانی میں جب انسان ہی فانی ہے تو اقتدار اور اختیار کیا شے ہے؟ زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے‘ مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے۔ اقتدار کا عرصہ بھلے کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو‘ پَل بھر میں منظر بدل جاتا ہے۔ غالب مغلوب اور مغلوب غالب آجاتے ہیں۔ راج نیتی میں زیر عتاب کو زیر کرم اور زیر کرم کو زیر عتاب آنے میں کہاں دیر لگتی ہے۔ عروج و زوال کا یہ کھیل حقیقت میں کھیل ہرگز نہیں ہے۔ مکافاتِ عمل اور جزا و سزا کا وہ پہیہ ہے جو ایک پل بھی نہیں رکتا‘ بس چلتا ہی چلا آرہا ہے۔ اس کی رفتار اور حرکت نہ دکھائی دیتی ہے نہ سنائی۔ لمحۂ موجود ہی سب کچھ ہے‘ آنے والی سانس کی ضمانت ہے نہ وقت کی۔ انتخابات سے فرار اختیار کرنے والے ہوں یا اصرار کرنے والے سبھی کے لیے کھلے اشارے ہیں۔ کئی دہائیوں سے شوقِ حکمرانی پورے کرنے کے باوجود بھی شوق باقی رہ جائیں تو اقتدار ضد بن کر رہ جاتا ہے۔ اس ضد میں کون کہاں سے چلا‘ کہاں جا پہنچا اور کس کا اگلا ٹھکانہ کیا ہوگا؟ مزید تمہید اور دانشوری بھگارنے کے بجائے خیبر پختونخوا کے نگران وزیراعلیٰ کی وفات کے بعد شائع ہونے والے ایک کالم کی چند سطروں کا سہارا لینے جا رہا ہوں۔
''آئینی مدت سے تجاوز کے باوجود حکمرانی تو جاری تھی لیکن قدرت کے ہاں مدت ختم ہوجائے تو سبھی تدبیریں اور جتن دھرے رہ جاتے ہیں۔ مملکتِ خداداد میں اپنی مرضی سے نہ کوئی اقتدار میں آتا ہے نہ ہی جاتا ہے۔ دنیا میں حیات لاتی ہے اور قضا لے جاتی ہے۔ گویا اقتدار ہو یا دنیا‘ دونوں میں کریڈٹ لانے والے کا ہی ہے۔ اس تناظر میں فیصلے آسمانی ہوں یا زمینی ذاتی خواہشات کے تابع ہوتے ہیں نہ ان پر کوئی اختیار۔ آسمانی فیصلے زمینی فیصلوں کو ہمیشہ غیر مؤثر اور بے معنی کرتے چلے آئے ہیں لیکن کوئی سمجھنے کو تیار ہے نہ عبرت پکڑنے کو۔ ضیا الحق کے منہ سے نکلے یہ الفاظ پکڑ بن گئے کہ میری کرسی بہت مضبوط ہے۔ قدرت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا‘مضبوط کرسی کا دعویٰ فضاؤں میں بکھر گیا۔ پرویز مشرف کا جانا جب آسمانوں پر ٹھہر گیا تو جن کا تختہ الٹ کر برسر اقتدار آئے تھے ان کی وطن واپسی بھی نہ روک پائے اور انہی کے ہاتھوں مواخذے کے خوف سے قصر ِاقتدار سے نکلنا پڑا۔‘‘
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved