کسی بھی قوم کی زندگی میں ایسے مواقع کئی بار آتے ہیں جب بقا کا سوال اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور اُسے چند اہم فیصلے کرنا ہی پڑتے ہیں۔ ہمارے لیے بھی ایسے مواقع آتے رہے ہیں، سوال کھڑے ہوتے رہے ہیں اور ہم نے فیصلے بھی کیے ہیں۔ ہاں‘ فیصلے غلط گئے ہیں تو اُن کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا ہے۔ یہ کیفیت کل بھی تھی اور آج بھی ہے۔ سب سے پہلے تو یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ جو کچھ بھی ہمیں دیکھنا اور جھیلنا پڑ رہا ہے وہ انوکھا ہے نہ ہم انوکھے ہیں۔ دنیا کی ہر قوم، ہر معاشرے اور ہر ریاست کو ایسے مراحل سے گزرنا ہی پڑتا ہے اور آج بھی کچھ نہیں بدلا۔ پسماندہ معاشروں کے لوگ عمومی سطح پر یہ سوچتے رہتے ہیں اُن کی زندگی میں الجھنیں زیادہ ہیں، دکھ کم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ ایسا نہیں ہے! پریشانیاں اور الجھنیں تو سبھی کے لیے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ سب کو اپنے اپنے تناظر ہی میں حالات اور مسائل ملتے ہیں۔ ضیاؔ جالندھری کہتے ہیں ؎
اُفتادِ طبیعت سے اِس حال کو ہم پہنچے
شدت کی محبت میں شدت ہی کے غم پہنچے
بات سو فیصد درست ہے۔ کسی بھی انسان کو اپنے مزاج کے ہاتھوں دُکھ جھیلنا پڑتے ہیں۔ معاشروں اور اقوام کا بھی یہی معاملہ ہے۔ وہ بھی اپنے مزاج ہی کے ہاتھوں دُکھوں کا، مسائل کا سامنا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ اس شدید غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ زیادہ مال دار لوگوں کی زندگی میں مسائل نہیں ہوتے۔ ایسا نہیں ہے! اُن کے لیے بھی مسائل کم نہیں ہوتے۔ ہاں‘ نوعیت اور شدت ضرور مختلف ہوتی ہے اور لوگ اُسے سمجھنے سے بالعموم قاصر رہتے ہیں۔ یہ امر بھی حیرت انگیز نہیں۔ انسان اپنے ماحول سے ہٹ کر رونما ہونے والے معاملات کو اُن کا تناظر سمجھے بغیر سمجھ نہیں سکتا۔ زمانہ جیسا کل تھا ویسا ہی آج بھی ہے۔ اِس کی روش نہیں بدلی۔ ہاں‘ ہم دیکھنے کا انداز بدل چکے ہیں اِس لیے بہت کچھ بہت عجیب دکھائی دے رہا ہے۔ غور کیجیے تو زمانے کی روش میں ذرا بھی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ اُسے ہماری راہوں میں دیواریں کھڑی کرنے کا شوق تھا‘ ہے اور رہے گا۔ یہ شوق بھی اُس میں ہم ہی پیدا کرتے ہیں۔ جب ہم اپنے حصے کا کام نہیں کرتے یا نہیں کرنا چاہتے تب زمانہ ہماری راہ میں دیواریں کھڑی کرنے لگتا ہے۔
کوئی اس گمان میں مبتلا ہوکر اپنی جان ہلکان نہ کرتا پھرے کہ قدرت نے اُس کے مقدر میں ایک ایسا عجیب اور پیچیدہ معاشرہ لکھ دیا ہے جو قدم قدم پر اُلجھنیں پیدا کر رہا ہے، ناانصافی کرنے پر تُلا رہتا ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہے! ہو ہی نہیں سکتا۔ زمانے کی روش کسی کے لیے نہیں بدلتی۔ ہاں‘ اُسے دیکھنے، پرکھنے اور جھیلنے کا طریق بدل جانے سے جسم و جاں کے لیے الجھنیں ضرور بڑھتی ہیں۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ یا یوں کہیے کہ ہم ایسا ہونے دے رہے ہیں۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر توجہ بھی چاہتی ہے اور جاں فشانی بھی۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ وہ سب کچھ کرنا ہی ہے جو کرنا ہے۔ یہ آپشن کا معاملہ ہے ہی نہیں۔ ہم سمندر میں ہوں اور طوفان آجائے تو اُس سے بچنے کی بھرپور کوشش کرنا پڑتی ہے۔ مانا کہ سمندر میں ہوتے ہوئے ہم اُس کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں مگر قدرت نے ہمارے لیے پریشانی کا سامنا کرنے کی تگ و دَو کا فریضہ بھی تو رکھا ہی ہے۔ کیا ہم نہیں دیکھتے کہ بہت سے لوگ انتہائی درجے کی بحرانی کیفیت سے بھی سلامت نکل آتے ہیں اور بہت سوں کا یہ حال ہے کہ ذرا سی پریشانی اُنہیں شدید بدحواس کرنے پر تُل جاتی ہے اور وہ معمولی سی مشقت کیے بغیر ہتھیار ڈال دیتے ہیں؟ اِس کے نتیجے میں جو کچھ بھی جھیلنا پڑتا ہے وہ اُن کے لیے مزید الجھن کا سامان کرتا ہے۔ بہت سے معاملات میں ہمیں آپشن ملتے ہیں۔ آپشن یعنی ایسا راستہ جو بہت حد تک متبادل ہوتا ہے اور اُس پر چل کر بھی ہم منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔ ہاں‘ اِتنا ضرور ہے کہ اُس راہ میں یا تو رکاوٹیں زیادہ ہوتی ہیں یا پھر اُس پر گامزن رہنے کی ضرورت میں منزل زیادہ پُرکشش نہیں رہتی۔ اگر ہمارے سامنے دو راستے ہوں اور ایک آسان ہو تو ظاہر ہے اُس پر چلنے کی صورت میں جوکچھ ملے گا وہ بھی زیادہ پُرکشش نہیں ہوگا۔ اگر بھرپور زندگی بسر کرنی ہے، مالیاتی استحکام یقینی بنانا ہے، دوسروں کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے حقوق کا حصول یقینی بنانا ہے، اپنے حصے کے سارے کام کرنے ہیں، اپنے ظاہر کی طرح باطن کو بھی روشن رکھنا ہے تو ناگزیر ہے کہ جی جان سے محنت کی جائے، وقت کو پوری دیانت اور انتہائی سخت و غیر لچک دار اُصولوں کے ساتھ بروئے کار لایا جائے۔ اور کوئی راہ نہیں۔ یہ آپشن کا معاملہ ہے ہی نہیں۔ وقت اور حالات ہم سے جو کچھ بھی مانگیں وہ دینا ہی پڑتا ہے۔ ایسا کیے بغیر چارہ نہیں۔
کیا کسی آپشن کا نہ ہونا ناانصافی ہے؟ ایسا نہیں کہا جاسکتا! اگر کسی کو ایسی کیفیت کا سامنا ہو تو اُس کا صلہ بھی تو لاجواب نوعیت کا ہوتا ہے۔ ہم ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں جنہوں نے کوئی بھی آپشن نہ ہونے کی صورت میں اپنے آپ کو، اپنے مقدر کو کوسنے کے بجائے محنت کی، دن رات ایک کرکے اپنے لیے الگ راہ بنائی اور یوں اپنے لیے ایک ایسی زندگی تراشی جو ہر اعتبار سے قابلِ رشک تھی۔ زندگی پہاڑ کو طویل عمل کے دوران چھینی اور ہتھوڑی سے تراش خراش کر کے اپنی مرضی کی مُورت نکالنے کا نام ہے۔ آج کی دنیا ہمیں بہت الجھی ہوئی لگتی ہے۔ اِس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیونکہ آج کی دنیا ہے ہی اِتنی پیچیدہ کہ اِس کا عجیب و غریب اور الجھا ہوا دکھائی دینا فطری امر ہے۔ سوال دنیا کا نہیں‘ ہمارا ہے۔ دنیا تو جو چاہتی ہے وہ چاہتی رہے گی بنیادی بات یہ ہے کہ ہمیں دنیا کی راہ سے مطابقت رکھنے والی چاہ رکھنی بلکہ پروان چڑھانی ہے۔
آپشن یا آپشنز کی تلاش میں رہنے والے ایک بنیادی نکتہ بھول جاتے ہیں۔ اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب منزل تک پہنچنے کے تین چار راستے میسر ہوں تو منزل کا درجہ یکساں نہیں رہتا۔ اگر کسی کام کو رُو بہ عمل لانے کے تین چار طریقے ممکن ہوں تو وہ سب کے سب برابر نہیں ہوسکتے۔ ایسا سوچنا یکسر بے بنیاد ہے کہ کسی کام کو دو تین طریقوں سے مکمل کرنے کی صورت میں یکساں نتائج حاصل ہوں گے۔ ایسا نہیں ہو سکتا‘ ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ دنیا ہر اُس انسان کو نوازتی ہے جو محنت کرتا ہے۔ آپ سوچیں گے محنت تو سبھی کرتے ہیں۔ بالکل درست! یہ سوچ غلط نہیں۔ پھر بھی یاد رہے کہ محنت سے مراد ہر طرح کی محنت ہے۔ محض جسمانی محنت کافی نہیں ہوا کرتی۔ ہمیں اِس سے بہت آگے جاکر سوچنا اور کچھ کرنا پڑتا ہے۔ ذہن کو بھی بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ ذہن کو بروئے کار لائے بغیر جب ہم صرف جسمانی محنت پر منحصر رہتے ہیں تب خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔
کیا ہم وقت کے ہاتھوں میں کھلونا ہیں؟ کیا ہمیں محض اس لیے خلق کیا گیا ہے کہ وقت کے ہاتھون میں کھلونا بن کر رہ جائیں، اپنی طرف سے کچھ نہ کریں، اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے کے لیے پوری سنجیدگی کے ساتھ کچھ بھی نہ کریں؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔ وقت کسی کو کسی معاملے میں رعایت نہیں دیتا۔ رعایت کا سامان خود کرنا پڑتا ہے۔ بھرپور زندگی بسر کرنے کے قابل ہونا مکمل طور پر بھرپور لگن اور جاں فشانی کا معاملہ ہے۔ آج کی زندگی بہت پیچیدہ سہی مگر ہم چاہیں تو اُس میں اپنے لیے آسانی پیدا کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے کچھ سیکھنا پڑتا ہے، دوسروں سے ہٹ کر چلنا پڑتا ہے، بھرپور جاں فشانی کے ساتھ جینے کے ہنر کو گلے لگانا پڑتا ہے۔ سرِدست سب سے بڑا مسئلہ وقت کو ضائع ہونے سے بچانا ہے۔ اِس کے لیے منصوبہ سازی لازم ہے۔ منصوبہ سازی یعنی زندگی کا پورا حساب کتاب رکھنا! قدم قدم پر یاد رہے کہ آپشن کوئی نہیں۔ جدید ترین یعنی عصری علوم و فنون میں مہارت کا حصول ہر انسان پر لازم ہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ معاشی محرکات بھی بدل رہے ہیں۔ اِن محرکات ہی سے معاشرت بھی بدلتی جارہی ہے۔ آپشن کی تلاش چھوڑیے، جو کچھ بھی کرنا ہے وہ کر گزریے۔ اب یہی زندگی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved