ڈیرہ غازی خان کے چھ سرائیکی لوگوں کا جس طرح وزیرستان میں اغوا کر کے قتل کیا گیا وہ قومی سطح پر میڈیا یا سیاستدانوں‘ حکمرانوں یا دیگر حلقوں کے لیے بڑی خبر نہیں بن سکا۔ ایک آدھ دن اگر یہ خبر چلی بھی تو صرف سوشل میڈیا پر اور پھر ایسے لگا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔اور سب بھول گئے۔ ان معصوم اور غریب لوگوں کے قتل پر افسوس اور دکھ اپنی جگہ لیکن اس سے بڑا دکھ کچھ اور ہے۔
میں اس زندہ بچ جانے والے لڑکے کو سُن رہا تھا جو اِن قتل ہونے والوں کا بھتیجا تھا۔ اس کی باتیں سن کر صدمہ مزید بڑھ گیا۔ لگ رہا تھا کہ وہ لڑکا ابھی تک صدمے میں ہے۔ وہ ایک روبوٹ کی طرح خوفناک تفصیلات بتا رہا تھا کہ کیسے اس کے چچا سمیت باقی لوگوں کو وہاں قتل کیا گیا۔ ایسے تو کوئی کسی جانور کو بھی نہیں مارتا جیسے ان مظلوم لوگوں کو مارا گیا جو اپنے بچوں کیلئے روزی کمانے گئے ہوئے تھے۔ ان علاقوں میں پنجاب سے گئے کسی بھی بندے کو مارنا بہت آسان ہے۔ اس پر الزام لگا دو کہ وہ جاسوسی کر رہے تھے۔ انہوں نے اس پندرہ‘ سولہ سالہ لڑکے کو نہیں مارا۔ ان قاتلوں میں سے کسی کا دل پسیجا ہوگا کہ چلو اس بچے کو نہیں مارتے۔ اس لڑکے کو کہا: تم منہ دوسری طرف کر لو۔ اس نے منہ دوسری طرف کیا تو باقی چھ لوگوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی۔ اب کسی کو سر میں گولی لگی‘ گردن میں پیوست ہوئی یا سینہ چیرتی گزر گئی یا اندر کہیں پھنس گئی یا ٹانگ‘ہاتھ یا بازو پر لگی اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں تھی۔ بس وہ گولیاں برساتے رہے اور وہ لڑکا گولیوں کی آوازیں اور اپنے پیاروں کی چیخیں سنتا رہا۔
چھ کی چھ لاشیں وہیں پڑی رہیں۔ اس لڑکے کو کہا گیا اب تم جائو۔ اس قتل سے بڑی ٹریجڈی یہ ہے کہ وہ لڑکا بتا رہا تھا کہ وزیرستان کے اس علاقے اور بازارمیں کوئی دکاندار یا لوگ ان کی مدد کو نہیں آئے۔ چلیں‘ جان بچانے میں مدد نہ کرتے لیکن جب وہ سب انسان لاشوں میں بدلے جاچکے تھے تو بھی اس لڑکے کے بقول کسی نے ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار نہیں کیا۔ کسی نے گلے سے نہیں لگایا‘ کسی نے سر پر ہاتھ نہیں رکھا‘ کسی نے اس کا دُکھ نہیں بانٹا۔ وہ اکیلا سب کچھ جھیلتا رہا۔ وہاں مارکیٹوں میں سب کچھ نارمل تھا۔
شاید یہ پنجاب کے لوگوں سے بیزاری تھی کہ ان کے نزدیک چھ غریب مزدوروں کا ان کے علاقے میں مارا جانا کوئی واقعہ نہیں تھا جس پروہ افسردہ ہوتے۔ اب یہ بتایا جارہا ہے کہ قتل ہونے والے سب حجام تھے۔ وہ گیارہ برسوں سے وہاں کام کر رہے تھے۔ گیارہ برسوں میں انہوں نے یقینا پشتو سیکھ لی ہوگی۔ ان کا روز کا کام ہی مقامی لوگوں سے ملنا جلنا تھا۔ یقینا اس عرصے میں ان کی بڑے پیمانے پر اگر دوستیاں نہیں تو کم از کم جان پہچان تو ہوگئی ہوگی کہ ان کا کام ہی ایسا تھا۔ حجام کی دکان تو ہمارے علاقوں میں ایک سماجی ڈیرہ سمجھا جاتا ہے جہاں ہرماہ ہر شخص ایک دفعہ تو ضرور جاتا ہے۔ ایک طرح سے حجام پورے گائوں یا علاقے کو جانتا ہے یا اسے سب جانتے ہیں‘ گائوں ہو یا قصبہ وہ معاشرے کا بہت زیادہ اہم اور سوشل ممبر سمجھا جاتا ہے۔ آپ کتنے ہی پھنے خان کیوں نہ ہوں اگر کسی کے آگے آپ ہر ماہ سر اور گردن جھکا کر بیٹھتے ہیں تو وہ حجام ہے جو آپ کو انسانی حلیے میں لے آتا ہے۔
ہمارے سرائیکی علاقوں سے لوگ باہر مزدوری کرنے نہیں جاتے تھے۔ سرائیکیوں کا بڑا دشمن پردیس رہا ہے۔ مائیں بچوں کو بھوکا سوکھا رکھ لیں گی لیکن اسے پردیس نہیں جانے دیں گی کہ وہ نہیں لوٹے گا۔ ''ڈھولا لمے نہ ونج او‘‘ جیسے فوک گیت سن لیں تو آپ رو پڑیں۔ مونجھ ایک اور ہماری دشمن رہی ہے کہ اگر بچہ باہر چلا بھی گیا تو اسے اپنے گھر‘ بہن بھائی‘ گائوں اور دوستوں کی مونجھ مار ڈالتی ہے۔ یہی خوف ان علاقوں میں رہا۔ قناعت پرستی رہی کہ بچہ آنکھوں کے سامنے رہے چاہے روکھی سوکھی کھا لے۔ اس لیے ہمارے علاقوں میں اگر آپ دیکھیں تو کھانے پینے کا مزاج بہت سادہ ملے گا۔ نمک مرچ سے روٹی کھا لیں گے۔چٹنی سے روٹی کھائی جائے گی۔ مجھے یاد ہے آم اور کھجور سے بھی روٹی کھائی جاتی تھی۔ پیاز اور مرچیں کاٹ کر اوپر مکھن ڈال کر کھانا ایک دعوت ہوتی تھی۔ساگ اور دال پورا سال چلتے تھے۔ جتنا کھانے پینے میں سادہ مزاج لوگ آپ کو سرائیکی ملیں گے وہ کہیں اور نہیں ملیں گے۔ اس لیے زیادہ کمانے کی خواہش ان علاقوں کے لوگوں کی نہیں رہی۔ مل گیا تو بھی شکر نہ تو بھی خدا کا شکر والا رویہ رہا۔
لیکن پھر گزرتے وقت ساتھ آبادی بڑھنے لگی۔ گھر چھوٹے پڑ گئے‘ زمینیں تقسیم ہوکر بٹ گئیں تو پھر سرائیکیوں کو مزاج کے خلاف پردیس جانا پڑا۔ نوجوانوں نے گھروں میں خوشحالی لانے کے لیے پہلے کراچی کا رُخ کیا تو پھر مڈل ایسٹ۔‘مکہ‘ مدینہ کا رُخ کیا۔ اب آپ کو لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد میں سرائیکی علاقوں سے آئے نوجوان بڑی تعداد میں مزدوری کرتے ملتے ہیں تو خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ مجھے لگا کہ پردیس کا خوف دھیرے دھیرے ختم ہورہا ہے۔ صدیوں پرانی mythدم توڑ رہی تھی کہ پردیس ہمارا دشمن ہے۔ اب پردیسی ہونا ہی خوشحالی کی علامت تھا۔ سرائیکی اب اس قول کو جھٹلا رہے تھے کہ ''کم جوان دی موت اے‘‘ یا جوان کوں بُھک اٹھاوے یا دُھپ اٹھاوے۔ اب جوان کام بھی کرتا ہے اور وقت پر اُٹھ بھی جاتا ہے۔پھر بلوچستان میں وہ مزدوری کرنے گئے تو وہاں قتل ہوئے کہ جرم صرف یہ تھا کہ پنجاب سے آئے ہیں۔مجھے نہیں پتا کہ ڈیرہ غازی خان کے یہ چھ لوگ کیسے وزیرستان جا پہنچے یا انہوں نے سمجھ لیا کہ گھروں سے دور ایک الگ کلچر میں وہ ایڈجسٹ ہو پائیں گے۔ عموماً ان علاقوں سے لوگ پنجاب میں سیٹل ہونے اور کاروبار کرنے پنجاب اور سرائیکی علاقوں میں آتے رہے ہیں۔ سرائیکی علاقوں میں تو وزیرستان یا قبائلی علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگوں کا آنا جانا صدیوں سے جاری ہے۔ صدیوں پہلے افغانستان سے آنے والے درانی‘ ترین‘ خاکوانی یا پشتونوں کے دیگر قبائل اس مٹی کے رنگ میں ایسے رنگے گئے کہ وہ اب اس سرائیکی دھرتی کا لازمی جزو ہیں اور خود کو فخر سے سرائیکی پٹھان کہتے ہیں۔ سرائیکیوں نے کبھی کسی کے خلاف تعصب نہیں رکھا۔ سب کو دل میں جگہ دی۔ ان سے رشتے کیے۔ برادریاں قائم کیں۔ انہیں اپنا سمجھا۔ ہمارے علاقوں میں سارے بڑے کاروبار خیبرپختونخوا سے آنے والے بھائی کرتے ہیں۔ کبھی آپ نے نہیں سنا ہوگا کہ کسی پر حملہ ہوا ہو۔ مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ گیارہ برس اُن لوگوں کے درمیان رہنے کے بعد بھی ان چھ حجاموں کی اتنی اہمیت نہ تھی کہ وزیرستان کے لوگ اس کھیت میں جاتے جہاں اُن کی لاشیں پڑی تھیں۔ اس خوفزدہ لڑکے کی گفتگو سنیں تو دل پھٹنے کو آتا ہے کہ کیا کچھ علاقوں میں انسانی زندگی اتنی کم اہم ہے؟ وہ لڑکا پورا دن گنگ ہو کر اپنے کمرے میں خاموش بیٹھا رہا۔ کوئی بندہ اس کے پاس نہ گیا۔ گیارہ سال کا عرصہ کم ہے؟مان لیا ان چھ لوگوں کی جان نہیں بچا سکتے تھے تو کم از کم اس بچ جانے والے لڑکے کو ہی سینے سے لگا کر اس کی آنکھوں سے آنسو پونچھ لیتے۔ ہمارے لوگوں سے اتنی بے حسی اور بیزاری کیوں؟
اس دل دہلا دینے والے واقعے پر ہمارے دوست جنید مہار نے کیا نوحہ لکھ دیا ہے کہ اس کے بعد کچھ سوچا اور لکھا نہیں جارہا۔ وہ فیس بک پر لکھتے ہیں ''چلو دالبندین اور چاغی سے لے کر وزیرستان تک ہمارے غریب سرائیکی مزدوروں نے قتل ہو کر یہ تاثر تو غلط ثابت کر دیا کہ سرائیکی سست لوگ ہیں‘ گھر سے نہیں نکلتے۔ اب آپ کو پتا چلا سرائیکی لوک داستانوں اور شاعری میں پردیس کا خوف کیوں بیٹھا ہوا ہے‘‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved