جنریشن گیپ کا مسئلہ ہر دور میں درپیش رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ جن کی عمر ڈھل چکی ہوتی ہے‘ وہ پچیس‘ تیس سال چھوٹی نسل کو سمجھنے میں غیر معمولی الجھن محسوس کرتے ہیں جبکہ ایسا ہونا نہیں چاہیے۔ نئی نسل کو اندازہ نہیں ہوسکتا کہ پُرانی نسل کس طور زندگی بسر کرتی آئی ہے اور کس طور اُس نے زندگی کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ نئی نسل نے ڈھلتی ہوئی یا ڈھلی ہوئی عمر دیکھی ہی نہیں۔ پُرانی نسل تو عہدِ جوانی گزار چکی ہے۔ اُسے اچھی طرح اندازہ ہونا چاہیے کہ خود اُسے عہدِ جوانی میں جن الجھنوں کا سامنا کرنا پڑا تھا ویسی ہی الجھنیں آج کی نئی نسل کو بھی درپیش ہوں گی۔ ایسے میں اُسے زیادہ معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
ہر دور میں اور ہر معاشرے میں نئی نسل زیادہ پُرجوش دکھائی دیتی ہے۔ عمر کا یہ مرحلہ ہوتا ہی ایسا ہے کہ ہر طرف امنگیں، آرزوئیں، توقعات اور امیدیں ہوتی ہیں۔ یہ وقت آنکھوں میں خواب سجانے کا ہے۔ جو کچھ بھی نوجوان کرنا چاہتے ہیں وہ سب سے پہلے خواب اور خواہش کی صورت اُن کے ذہن کے پردے پر نمودار ہوتا ہے۔ یہ عمل زندگی بھر جاری رہتا ہے۔ عمر کا فرق البتہ اچھا خاصا فرق پیدا کرتا ہے۔ نئی نسل جو کچھ سوچتی اور دیکھتی ہے وہ عمر رسیدہ لوگوں کی سوچ سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ جوانی میں چونکہ رگوں میں دوڑتا ہوا خون گرم ہوتا ہے اس لیے ذہن پوری توانائی کے ساتھ سوچتا ہے۔ جو کچھ سوچا جاتا ہے اُس کے ساتھ تمنائیں اور امیدیں بھی ہوتی ہیں۔
پاکستان کی نئی نسل بھی بہت پُرجوش ہے۔ وہ بہت کچھ دیکھ، سن اور سمجھ رہی ہے۔ فی زمانہ کم و بیش ہر معاشرے کی نئی نسل غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل ہے کیونکہ ہر طرف تیزی ہی تیزی ہے۔ ایسے میں وہ نسل کیوں تیز نہ ہو‘ جو ہے ہی تیزی کی حامل۔ عہدِ شباب سیکھنے اور سکھانے کے لیے ہوتا ہے۔ جوانی میں انسان بہت تیزی سے سیکھتا ہے۔ اُسے آگے بڑھنا ہوتا ہے کیونکہ جینے کے لیے ایک عمر پڑی ہوتی ہے۔ جب انسان دیکھتا ہے کہ اِس دنیا میں اُس کا قیام ابھی خاصا طویل ہے تو کچھ کرنے کی لگن بھی پیدا ہوتی ہے۔ خاصی طویل عمر کو یونہی تو نہیں گزارا جاسکتا۔ کیا ہماری نئی نسل میں ایسا کچھ ہے جو اُسے اقوامِ عالم میں نمایاں حیثیت عنایت کرے؟ یقینا۔ ہمارے نوجوانوں میں (جن میں لڑکیاں بھی شامل ہیں) بہت کچھ ہے۔ وہ بہت کچھ کرسکتے ہیں اور اپنے طور پر کچھ نہ کچھ کر بھی رہے ہیں۔ اِس کا سب سے بڑا اور ہر اعتبار سے ناقابلِ تردید ثبوت یہ ہے کہ ہمارے نوجوان‘ جو مواقع نہ ملنے پر کچھ خاص نہیں کر پاتے‘ جب بیرونِ ملک جاتے ہیں تو موزوں مواقع پاتے ہی اُن سے اِس طور استفادہ کرتے ہیں کہ ایک دنیا دیکھتی رہ جاتی ہے۔ امریکہ اور یورپ سمیت تمام ترقی یافتہ دنیا کے تمام ممالک میں ہمارے نوجوان اپنی صلاحیت و سکت کے جھنڈے گاڑتے آئے ہیں۔ خلیج کے خطے میں بھی ہم کسی سے پیچھے نہیں۔
جہاں ہر طرف کرپشن ہوتی ہے‘ اصول ہوتے ہیں نہ ضوابط‘ اس معاشرے اور ملک میں نئی نسل کچھ خاص نہیں کر پاتی۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ جب صرف اور صرف زر کا حصول بنیادی مطمح نظر ہو تب اصولوں کے بارے میں سوچنے کی توفیق جنہیں نصیب ہوتی ہے وہ خال خال ہوتے ہیں۔ ہمارا بھی یہی حال ہے۔ جب انفرادی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے کا سلسلہ زور پکڑلے تب وہی خرابیاں پیدا ہوا کرتی ہیں جو آج ہمارے معاشرے میں عام ہو چکی ہیں۔ سیاست کرپشن کی نذر ہوچکی ہے۔ جو لوگ سیاسی اکھاڑے میں اُترتے ہیں وہ صرف ایک خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ہوتے ہیں کہ کسی نہ کسی طور اقتدار کی گاڑی میں سیٹ مل جائے، اور بس! جسے یہ سیٹ مل جائے وہ اِتنا کچھ بٹورنے کی کوشش کرتا ہے کہ سات نسلیں بیٹھ کر کھائیں‘ الّا ماشاء اللہ۔ زیادہ سے زیادہ بٹورنے کے چکر میں وہ بے ضمیری اور لاقانونیت کی راہ پر یوں گامزن رہتا ہے کہ پھر ملک و قوم کا خیال تک ذہن سے نکل جاتا ہے۔ جب قوم کے لیے سوچنے کی روش ترک کردی جائے تب اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگ صرف اپنے مفادات کا سوچتے ہیں۔ ایسے میں نئی نسل رُل جاتی ہے۔ قوم کو آگے بڑھنے کے لیے منصوبہ سازی کرنا ہوتی ہے۔ منصوبہ سازی میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ نئی نسل کے لیے کوئی واضح راہ متعین کی جائے۔ ہمارے ہاں یہ معاملہ ہمیشہ رُلا رہا ہے۔ نئی نسل کے بارے میں پوری سنجیدگی کے ساتھ سوچنے والے خال خال ہیں۔ حکومت کیا سوچے گی اور سیاست دان بھلا کیوں متوجہ ہوں گے‘ نئی نسل کے لیے تو اُس کے اپنے گھر کے لوگ پوری طرح سنجیدہ نہیں ہوتے، متوجہ ہوکر کچھ خاص نہیں کرتے! ہماری نئی نسل میں صلاحیت بھی ہے اور سکت بھی۔ ہاں‘ سمت کے تعین کا معاملہ تھوڑا سا پیچیدہ ہے۔ حکومتی سطح پر سوچنے والے کم ہیں۔ چند ایک فلاحی ادارے اپنے طور پر کچھ کوشش کر رہے ہیں۔ نئی نسل کو جدید ترین ٹیکنالوجیز سے رُوشناس کرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، تربیت کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ بہت اچھا ہے اور اِس کی ستائش کی جانی چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کیا کر رہی ہے۔ مصنوعات کے میدان میں ڈھنگ سے مقابلہ کر پانا تو اب ہمارے بس میں نہیں رہا۔ امریکہ اور یورپ کے بعد اب چین بھی میدان میں نمایاں ہے۔ صنعتی و تجارتی برآمدات کا گراف گرتا جارہا ہے۔ گراف تو گرنا ہی ہے کیونکہ ہم عالمی منڈی میں کھڑے رہنے کے قابل ہی نہیں۔ قدرتی وسائل کی برآمد کے میدان میں بھی ہمارے لیے کچھ خاص کر دکھانے کی گنجائش نہیں۔
جب معاملات اِتنے رُلے ہوئے ہوں تو صرف افرادی قوت کی برآمد کا شعبہ رہ جاتا ہے جو ہمارے لیے کچھ کرسکتا ہے۔ متعدد ممالک نے افرادی قوت کی مؤثر برآمد کے ذریعے اپنے حالات بہتر بنائے ہیں۔ بھارت اور چین کے علاوہ بنگلہ دیش، سری لنکا، تھائی لینڈ، فلپائن اور ویتنام وغیرہ کے لوگ دنیا بھر میں سستی افرادی قوت کی حیثیت سے نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ لاکھوں پاکستانی بھی دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں معیاری افرادی قوت کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پاکستانی معیشت کو مضبوط کرنے میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی بھیجی ہوئی رقوم (ترسیلاتِ زر) نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہم اِس شعبے سے وہ سب کچھ حاصل نہیں کر پائے ہیں جو حاصل کرسکتے تھے یا اب بھی کرسکتے ہیں۔ نئی نسل بہت کچھ کرسکتی ہے۔ اُس کی صلاحیتوں کی حد ہے نہ جوش و خروش کی۔ ہاں‘ موثر رہنمائی کا فقدان قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کرتا رہتا ہے۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ اور سب سے پہلے حکومت کو آگے بڑھنا ہے۔ معیاری افرادی قوت کی برآمد میں معتدبہ اضافے کے لیے حکومت کو متحرک ہونا ہے۔ اس حوالے سے خصوصی پروگرام شروع کیا جانا چاہیے۔ ہمارے نوجوان ویسے تو ہر شعبے میں غیر معمولی صلاحیت و سکت کا مظاہرہ کر رہے ہیں؛ تاہم چند شعبے خصوصی توجہ چاہتے ہیں۔ جنرل ٹیکنالوجیز اور ہائی ٹیک‘ ان دونوں شعبوں میں نوجوان بہت کچھ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اگر معقول رہنمائی کا اہتمام کیا جائے تو اس شعبے کے ذریعے قومی معیشت کو قابلِ رشک حد تک مستحکم رکھنے کا اہتمام ہوسکتا ہے۔
آج کی دنیا صرف اور صرف مقابلے کی دنیا ہے۔ دنیا بھر کے انتہائی باصلاحیت نوجوان اپنے اپنے ملکوں کو چھوڑ کر وہاں مقدر آزما رہے ہیں جہاں اُن کی طلب ہے۔ ہمارے نوجوان بھی امریکہ، یورپ اور مشرقِ وسطیٰ میں بخوبی مصروفِ عمل ہیں۔ اُن کی تعداد بڑھائی جاسکتی ہے اور بڑھائی جانی چاہیے۔ اس حوالے سے جامع منصوبہ سازی ناگزیر ہے۔ بدلتے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ حکمت ہائے عملی اپناکر ہم اپنے لیے پیش رفت کی مزید گنجائش پیدا کرسکتے ہیں۔ پسماندہ و ترقی پذیر ممالک کے پاس اب معاشی و مالیاتی استحکام یقینی بنانے کا ایک ہی مؤثر اور قابلِ عمل طریقہ رہ گیا ہے‘ معیاری افرادی قوت کی برآمد! اچھے نالج ورکرز تیار کرکے دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک سے بہت کچھ کمایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ معاملہ خاصی تاخیر کی نذر ہوچکا ہے۔ اب جو کچھ بھی کرنا ہے تیزی سے کیا جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved