پاکستان آج ایک غیرمعمولی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ اس میں معمول کا کوئی حل قابلِ عمل نہیں ہو سکتا۔ لازم ہے کہ کوئی غیرمعمولی حل تلاش کیا جائے۔
اقتدار کی جاری کشمکش میں پانچ بڑے فریق ہیں: 'ریاست‘، (ن) لیگ‘ تحریکِ انصاف‘ پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام۔ بلوچستان عوامی پارٹی اور ایم کیو ایم کو بھی اس فہرست میں شامل کر سکتے ہیں‘ اگرچہ انہیں 'بڑوں‘ میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ ریاست کے سوا سب سیاسی جماعتیں ہیں۔ ان کی قوت کا مرکز عوام ہیں۔ ہر جماعت کو جس درجے کی عوامی تائید میسر ہے وہ اسی درجے کی فریق ہے۔ تحریکِ انصاف کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ وہ اس وقت ریاست سے براہِ راست متصادم ہے۔ اس کے باوصف عوامی مقبولیت کے سبب اسے بڑے فریقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ مقبولیت کتنی ہے‘ اس کا تعین انتخابات ہی سے ہو گا‘ تاہم اس حقیقت سے انکار محال ہے کہ اس کا شمار پہلی تین بڑی جماعتوں میں ہوتا ہے۔ ایسی جماعت کو اگر بزور سیاسی عمل سے الگ کر دیا جائے تو اس عمل کی اخلاقی ساکھ مجروح ہو گی۔
ریاست کا مقدمہ یہ ہے کہ تحریکِ انصاف ایسی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے جس کے باعث اسے سیاسی جماعت نہیں کہا جا سکتا۔ اس کیلئے 9مئی کے واقعات کو بطور شہادت پیش کیا جاتا ہے۔ تحریکِ انصاف کی قیادت اس الزام کو مسترد کرتی ہے۔ تادمِ تحریر یہ مقدمہ کسی عدالت میں ثابت نہیں۔ اگر یہ ثابت بھی ہو جاتا ہے تو کچھ افراد ہی اس کے ذمہ دار ٹھہرائے جائیں گے‘ جماعت نہیں۔ اس جماعت کی قیادت بھی یہ کہہ رہی ہے کہ اگر کوئی ملوث ہے تو اسے سزا ملنی چاہیے۔ کسی قانون کے تحت آپ جماعت کو سزا نہیں دے سکتے۔
جماعت کو سزا دینے کی ایک ہی صورت ہے: عدالت میں یہ ثابت کر دیا جائے کہ فوجی تنصیبات پر حملے کا منصوبہ اس کی قیادت کا بنایا ہوا تھا جس پر جماعتی سطح پر عمل کیا گیا۔ ابھی تک اس نوعیت کا کوئی مقدمہ کہیں زیرِ سماعت نہیں۔ تحریکِ انصاف کو اگر بلّے کے نشان سے محروم کیا گیا تو اس کا سبب اس کے داخلی انتخابات کا قانون کے مطابق نہ ہونا تھا۔ اس کا تعلق نو مئی کے واقعات سے نہیں ہے۔ اسی لیے پشاور ہائی کورٹ نے بلّے کا نشان دے کر تحریکِ انصاف کی قانونی حیثیت پر مہرِ تصدیق لگا دی ہے۔ اب قانون کی نظر میں تحریکِ انصاف اسی طرح کی ایک سیاسی جماعت ہے جس طرح (ن) لگ یا کوئی اور پارٹی ہے۔ جب تک اس کی یہ قانونی حیثیت برقرار ہے‘ اسے سیاسی جماعت اور اقتدار کا ایک جائز فریق شمار کیا جائے گا۔
اگر تحریکِ انصاف کو مصنوعی طور پر انتخابی عمل سے الگ کیا جاتا ہے تو انتخابات کی اخلاقی ساکھ مجروح ہو گی اور عدم استحکام جنم لے گا۔ اگر وہ انتخابات میں شریک ہوتی اور اکثریت حاصل کر لیتی ہے تو اقتدار کے ایک دوسرے فریق 'ریاست‘ کے ساتھ اس کا تصادم ناگزیر ہے۔ اس کا نتیجہ بھی عدم استحکام ہے۔ اس لیے یہ لازم ہے کہ سب فریق مل کر ایک ایسے حل کو قبول کر لیں جس کا نتیجہ تصادم نہ ہو۔ ملک کو عدم استحکام سے بچانے کا یہی ایک طریقہ ہے۔
جب اقتدار کی کشمکش میں شریک سب کرداروں کے مفادات نظام سے وابستہ ہو جاتے ہیں تو اس سے استحکام پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان کی جدید تاریخ میں یہ مرحلہ 2013ء میں آیا تھا۔ تمام قابلِ ذکر سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی شکل میں اقتدار کا حصہ تھیں۔ دہشت گردی اور توانائی کے بحرانوں کے خلاف قومی یکجہتی پیدا ہو رہی تھی۔ اس عمل کو 2014ء میں سبوتاژ کر دیا گیا۔ اس نے اس قوم کے دس سال برباد کر دیے اور اس کے بعد بھی یہ عمل تھمنے کو نہیں آ رہا۔ اس کوروکنے کی ضرورت ہے۔ لازم ہے کہ ہم ایک بار پھر 2013ء میں لوٹ جائیں۔ میں آئندہ پانچ سال کیلئے ایک لائحہ عمل یا نظام تجویز کر رہا ہوں۔ اس نظام کے اہم خد و خال درج ذیل ہوں گے:
جو لوگ کسی صورت میں نو مئی کے واقعات میں ملوث ہیں یا قانون سے بھاگے ہوئے ہیں‘ انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہو گی۔
انتخابات کے بعد جو حکومت بنے گی‘ وہ قومی ہو گی اور اس میں ہر جماعت کاحصہ ہو گا جو اس کی پارلیمانی نمائندگی کی نسبت سے ہو گا۔ یہ متناسب نمائندگی کا اصول ہے۔ چونکہ اس وقت پارلیمانی نظام ہے‘ اس لیے اس اصول کے تحت انتخابات نہیں ہو سکتے لیکن اسے انتخابات کے بعد اپنایا جا سکتا ہے۔
نئی پارلیمان متفقہ طور پر معاشی بحالی اور سیاسی استحکام کیلئے ایک متفقہ لائحہ عمل طے کرے گی، 'ریاست‘ جس پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گی اور کسی تنازع کی صورت میں ثالث بالخیر کا کردار ادا کرے گی۔ حکومت سماج سے ماہرین کی خدمات لے سکے گی اور انہیں حکومت کا حصہ بنایا جا سکے گا۔
حکومت ایک قومی تھِنک ٹینک بنائے گی جو مختلف امور پر پالیسی سازی میں حکومت کی معاونت کرے گا۔
پانچ سال تک ملک میں جلوسوں‘ ہڑتال اور احتجاج پر پابندی ہو گی۔ مذہب اور سیاست کے نام پر کسی ایسی سرگرمی کی اجازت نہیں ہو گی جو کاروبارِ زندگی کو متاثر کرنے کا باعث ہو۔
میڈیا مکمل آزاد ہو گا۔ ہر کسی کو اپنی بات کہنے کی اجازت ہو گی۔ سیاسی جماعتیں اور مذہبی تنظیمیں شہروں اور بستیوں میں مخصوص مقامات پر اپنے اجتماعات کر سکیں گی۔
بے بنیاد سیاسی الزام تراشی کی ممانعت ہو گی۔ ہتکِ عزت کے قانون کو سخت تر بنایا جائے گا۔ معاشرے میں کسی کو برے القاب کے ساتھ پکارنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ یہ قابلِ تعزیر جرم ہو گا۔
اگر کوئی سیاسی جماعت اس قومی حکومت سے الگ ہونا چاہے تو ہو سکے گی۔ اسے میڈیا پر اپنی بات کہنے کی مکمل آزادی ہو گی لیکن پانچ سال تک اسے کسی احتجاجی تحریک کا حق نہیں ہو گا۔
اگر کوئی سیاسی جماعت پارلیمان میں کوئی نشست حاصل نہیں کر پاتی مگر ایک قابلِ ذکر تعداد میں ووٹ لے لیتی ہے تو اسے بھی حکومت کا حصہ بنایا جائے گا۔
اگر کوئی سیاسی جماعت اس عمل کا حصہ نہیں بنتی تو اسے پانچ سال کے لیے سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہو گی۔
یہ حل مثالی نہیں ہے۔ مثالی حل‘ واقعہ یہ ہے کہ کتابوں ہی میں ہوتا ہے۔ ہمیں معاشرے کو مثالی حل کیلئے تیار کرنا ہے۔ اس کیلئے ہمیں ایک وقفے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈھلوان کے اس سفر کو بیک جنبشِ قلم روک دیا جائے اور رُک کر قافلے کو نئے سرے سے ترتیب دیا جائے۔ یہاں تک کہ وہ فطری انداز میں آگے بڑھ سکے۔ موجودہ حالات کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے یہ ممکن نہیں ہو گا۔
یہ مجوزہ نظام ایسا ہے جسے موجودہ آئین کی حدود میں رہتے ہوئے اپنایا جا سکتا ہے۔ پانچ سال بعد اگر حالات بہتر ہو جاتے ہیں تو اسے پارلیمانی جمہوریت کی طرف لوٹایا جا سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر اگر تمام فریق اتفاق کریں تو اس میں توسیع کا راستہ بھی کھلا ہے۔ ہمیں آج بلا انقطاع معاشی سرگرمی کی ضرورت ہے اور یہ سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کیلئے اقتدار کے تمام فریقوں کو تصادم کی فضا سے باہر نکلنا ہو گا۔ بدقسمتی سے آج ملک میں مولانا ظفر احمد انصاری جیسی کوئی ایک ایسی شخصیت موجود نہیں جو تمام سیاسی کرداروں کی نظر میں محترم سمجھی جائے اور جس کی بات کو وزن دیا جائے۔ 'ریاست‘ چاہے تو اس مجوزہ لائحہ عمل کیلئے مکالمے کا آغاز کر سکتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved