دس سال پہلے میں ایک ایسے وقت ان کے دفتر چلا گیاجب وہ ملازمین اور ایک وکیل کے ساتھ اپنے ٹیکس کے معاملات سلجھانے میں مصروف تھے۔ ان کی مصروفیت دیکھ کر میں نے کونے میں رکھی کرسی پکڑی اور اخبار دیکھنے لگا۔ ایک رپورٹر کی حیثیت سے میرے لیے ممکن نہ تھا کہ ان کی گفتگو نظر انداز کرسکوں۔ میں بظاہر اخبار پڑھتا رہا لیکن پورے انہماک کے ساتھ ان کی گفتگو بھی سنتا رہا۔جب ان کی میٹنگ ختم ہوئی تو شیخ صاحب میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا ’اب آپ یقیناکچھ پوچھنا چاہیں گے ‘ ۔ میں نے اثبات میں جواب دیا اور پوچھا کہ آپ کا ٹیکس کتنا بنتا ہے اور کتنا ادا کرتے ہیں؟ وہ ہنسے اور بولے ’ بہت کچھ تو تم سن ہی چکے ہوگے ، اس لیے اطلاعاً عرض ہے کہ میرا ٹیکس جتنا بھی بنتا ہے میں نہایت ایمانداری سے اس کے دوحصے کرتا ہوں ۔ ایک حصے کا نصف سرکاری خزانے میں جاتا ہے اور دوسرا نصف سرکاری ملازموں کے پاس۔ بچنے والا حصہ میرا ہے جو میں اپنی عیاشیوں پر خرچ کرتا ہوں‘۔ میں ان کے اعتراف جرم پر ایک لمحے کے لیے حیران ہوگیا۔ میرا اگلا سوال تھا کہ اگر ٹیکس ایمانداری سے دیں تو کیا آپ کی عیاشیاں ممکن ہیں؟ ’بالکل ممکن ہیں، ٹیکس سے بچائی جانے والی رقم تو دراصل میرا بونس ہے جو مجھے سال میں ایک بار خواہ مخواہ مل جاتا ہے، انہوں نے ہنس کرکہا۔ پھر بولے: ’’ اب تم پوچھوگے کہ میں ٹیکس کیوں نہیں دیتا تو تمہارے پوچھے بغیر میں تمہیں بتا دیتا ہوں کہ میں پورا ٹیکس دینا چاہتا ہوںلیکن ٹیکس والے مجھ سے پورا ٹیکس لینا نہیں چاہتے، میں نے کاروبار کے آغاز میں ایک دوبار کوشش کی لیکن اس کی پاداش میں مجھے دفتروں کے اتنے چکر لگوائے گئے کہ میں چکرا کر رہ گیا۔ اس کے بعد میں نے ٹیکس اکٹھا کرنے والے کارندوں کے مشورے پر عمل کرنا شروع کیا اور ٹیکس کی تقسیم کا جو فارمولا انہوں نے بتایا وہ وہی تھا جو میں تمہیں بتا چکا ہوں، یعنی پچیس فیصد سرکار کا، پچیس فیصد ایف بی آرکا اور پچاس فیصد ٹیکس گزار کا۔ اس کے بعد مجھے کبھی حکومتِ پاکستان کی ٹیکس مشینری سے کوئی تکلیف نہیں پہنچی، یہ اسی مشینری کے کل پرزوں کا کمال ہے کہ میرے کاروبار کا پچاس دفعہ آڈٹ بھی کرا لو تو ٹیکس وہی بنے گا جو میں ادا کرچکا ہوں‘‘۔ میں نے عرض کی کہ آپ دن رات محنت کرتے ہیں، مجموعی طور پر ایک صاف ستھرے کاروباری ہونے کے باوجود آپ کتنے آرام سے اس ملک کے ساتھ دو نمبری کر ڈالتے ہیں جس نے آپ کو اتنا خوشحال کیا ہے۔ میری بات سن کر بولے : ’’دیکھوتم اس معاملے کے کتابی پہلو کو دیکھ رہے ہو اور میں عملی صورت کی بات کررہا ہوں۔ مجھے اعتراف ہے کہ کتابی طور پر میری بات غلط ہے لیکن کاروبار عمل کی دنیا ہے۔ یہاں میں وزیر اعظم سے لڑ کر تو زندہ رہ سکتا ہوں لیکن ایک ٹیکس اہلکار سے لڑائی مجھے اور میرے خاندان کو فٹ پاتھ پر لے آئے گی۔ مجھے پاکستان سے محبت ہے لیکن مجھے غربت، قرض اور بھوک سے بہت خوف آتا ہے‘‘۔ تین سال پہلے کی بات ہے کہ ایک رات شیخ صاحب کو فون آیا کہ کل تک پچیس لاکھ روپے کا بندوبست کرلو بصورت دیگر فیکٹری کو آگ لگا دی جائے گی۔ یہ سن کر ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ انہوں نے اب تک سنا ہی تھا کہ بھتہ وصول کیا جاتا ہے، لیکن اس دیدہ دلیری سے وصول کیا جاتا ہے اس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔پھر پچیس لاکھ کی رقم بھی ایسی نہیں تھی کہ کسی کو ایک فون پر دے دی جائے، لہٰذا انہوں نے ایک جاننے والے کے ذریعے پولیس کو آگاہ کر دیا۔ اگلی صبح انہیں خبر ملی کہ ان کی فیکٹری کے تالوں پر یہ پرچی لگی ہے کہ اگر انہیں کھولنے کی کوشش کی گئی تو ’ذمہ دار شیخ صاحب ہوں گے‘۔ اب انہوں نے پولیس کے اعلیٰ حکام سے مدد طلب کی تو اس کے جواب میں ایک پھٹیچر سی گاڑی میں تین پولیس والے بطور مدد ان کے پاس پہنچ گئے۔ ان کی موجودگی میں فیکٹری کے مینجر نے جونہی تالا کھولنے کے لیے چابی نکالی تو کسی طرف سے ایک فائر گیٹ پر آن لگا۔چند مزید گولیاں چلنے کے بعد جب مزید فائر نہ ہوئے تو شیخ صاحب نے پولیس والوں کو ڈانٹا کہ تمہیں مدد کے لیے بلایا گیا اور تم دبک کر بیٹھ گئے ہو۔ پولیس والوں نے شیخ صاحب کو بتایا کہ جس ہتھیار سے ان پر فائرنگ ہو رہی تھی وہ اس بندوق سے کہیں بہتر ہے جو اس وقت سرکار نے انہیں فراہم کررکھی ہے، دوسرے یہ کہ اتفاق سے ہمارے پاس اس وقت بندوق تو ہے لیکن گولیاں نہیں ہیںاور تیسرے یہ کہ انہیں واقعی کچھ کرنا ہے تو اپنی فوج پال لیں یا پھر شرافت سے پچیس لاکھ کا بندوبست کر لیں۔ یہ سن کر شیخ صاحب بہت بھنائے اور ایک آخری کوشش کے طور پر انہوں نے شہر کے ایک بڑے پولیس افسر سے مدد چاہی۔ جب ان سے کہا گیا کہ یہ کام ہم نہیں کرسکتے تو ان کے سامنے زندہ رہنے کے لیے ایک ہی راستہ بچا تھا اور وہ تھا پچیس لاکھ رروپے کی ادائیگی۔ انہوں نے اسی راستے کا انتخاب کیا اور اپنے طریقے سے اس معاملے سے نمٹنے کا فیصلہ کرکے اپنی فیکٹری پہنچ گئے۔ تالا کھولنے کی بجائے انہوں نے اپنے موبائل سے اسی نمبر پر فون کیا جہاں سے انہیں بھتے کی ادائیگی کا حکم آیا تھا۔ انہوں نے اس گمنام شخص کو کہا کہ وہ آکر پیسے وصول کرلے لیکن اس کے لیے کسی کارندے کو نہ بھیجے بلکہ کسی بڑے سے ان کی ملاقات کرائے۔ تھوڑی دیر بعد ایک جگہ ملاقات طے ہوگئی، شیخ صاحب پیسے لے کر وہاں پہنچے اور کچھ ہی دیر میں ان سے ملنے وہ کردار بھی آگیا جس کے بارے میں انہوں نے سنا تو بہت تھا لیکن دیکھا نہیں تھا۔ بھتہ لینے والے کے معقول حلیے نے شیخ صاحب کو کچھ حوصلہ دیا اور انہوں نے پوری توانائی سے رقم کم کرانے اور آئندہ کی حفاظت کے لیے بندوبست کرنے کے لیے مذاکرات شروع کردیے۔ جب شیخ صاحب نے زیادہ اصرار کیا تو بھتہ لینے والے نے بڑے رسان سے انہیں سمجھایا کہ یہ پیسے نہ صرف ان کی جان کی حفاظت کے لیے ہیں بلکہ اس کے گروہ کے ساتھ تعلق جوڑنے کی وجہ سے آئندہ بھی ان کی فیکٹری کی طرف کوئی نہیں دیکھے گا۔ یہ بات سن کر شیخ صاحب سناٹے میں آگئے ۔ انہوں نے مزید کوئی بات کیے بغیر رقم ادا کی اور گھر کی طرف چل پڑے۔ انہیں جو بات میں نہیں سمجھا سکا تھا وہ کراچی کے اس دادا نے ایک فقرے میں سمجھا دی تھی۔ انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ معزز غنڈہ ان سے ان ٹیکسوں کی قضا ہی تو مانگ رہا ہے جو وہ سرکاری ملازموں کے ساتھ مل کر اڑا چکے ہیں اور اس کے بدلے وہی کچھ دے رہا ہے جو دراصل انہیں حکومت سے چاہیے تھا۔جب ان جیسے صاحب مال لوگوں نے اس ملک کے نظام میں اپنا حصہ نہیں ڈالا تو ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ تباہ ہوتا چلا گیا۔ اس نظام کے ہر ادارے کو وسائل کی کمی کا کینسر لگ گیا ، پولیس برباد ہوئی تو بھتہ خوروں نے سر اٹھایا، انصاف کے نظام میں رخنہ پڑا تو قانون زورآوروں کا غلام بن گیا، ٹیکس چوری سے ہی بھتہ خوری نے جنم لیا اور یہیں سے دہشت گردی کی دوسری اصناف کے بیج پھوٹے۔ وسائل کی کمی اور پھر ہماری ازلی نا اہلی کے امتزاج سے نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ سرکار کی طرف سے آنے والے نوٹس پر کوئی توجہ نہیں ہوتی لیکن بھتے کی پرچی پر لکھی ہوئی رقم بروقت اور پوری ذمہ داری سے ادا کی جاتی ہے۔کیونکہ سب جانتے ہیں کہ سرکاری نوٹس کا تعاقب کوئی نہیں کررہا جبکہ بھتے کی پرچی بھیجنے والوں کی قوت نافذہ گھر کے اندر پہنچ کر بھی مار ڈالتی ہے ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved