شاید ایسا سخت وقت بینجمن نیتن یاہو نے پہلے نہ دیکھا ہو۔ اسرائیلی حکومت کو حماس کی سخت مزاحمت کا سامنا ہے اور اسرائیل کا مسلسل جانی و مالی نقصان ہو رہا ہے۔ وہ عالمی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے کیونکہ اس کے بہت قریبی حلیف بھی اپنے عوامی اور عالمی دباؤ کی وجہ سے ظاہری طور پر ہی سہی‘ اسرائیلی اقدامات کو مکمل قبول نہ کرنے پر مجبور ہیں۔ تیسری طرف مسلسل عوامی مظاہرے ہیں‘ جو دو طرح کے ہیں۔ ایک تو ان ممکنہ عدالتی قوانین کے خلاف ہیں جو نیتن یاہو نافذ کروانا چاہتا ہے‘ دوسرے ان یرغمالیوں کی رہائی کے لیے جو اَب تک حماس کے پاس ہیں۔ یہ مظاہرے آئے دن اسرائیل کے بڑے شہروں میں جاری ہیں‘ نیتن یاہو پر مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں لیکن ان سب محاذوں سے الگ یہ جو اسرائیلی سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے‘ جس میں نیتن یاہو کے عدالتی اختیارات محدود کرنے کے اقدامات کو رد کردیا گیا ہے‘ اسرائیلی حکومت کیلئے بہت بڑا دھچکا ہے۔ یہ معاملہ اگرچہ اخبارات نے رپورٹ کیا لیکن اس کا پس منظر اور اس کے نتائج عام طور پر اس طرح لوگوں کے علم میں نہیں ہیں۔
یہ جو متنازع قانون اسرائیلی سپریم کورٹ نے رد کیا ہے اور جو نیتن یاہو کی مخلوط حکومت نافذ کرنا چاہتی تھی‘ بہت دنوں سے اسرائیل میں ہنگاموں‘ مظاہروں اور عوامی احتجاج کا موضوع بنا ہوا تھا۔ اب سپریم کورٹ کا فیصلہ اس مخلوط حکومت کے منہ پر طمانچہ ہے کیونکہ اس کے ذریعے نیتن یاہو کا وہ ارادہ ناکام ہوگیا ہے جو دراصل عدالتی اختیارات سلب کرنے کا منصوبہ تھا۔ 2022ء میں اقتدار سنبھالتے ہی نیتن یاہو کا یہ منصوبہ شروع ہو گیا تھا۔ منصوبے کے تحت سپریم کورٹ کے وہ اختیارات‘ جن سے اس حکومت کو خطرہ تھا‘ چھین لیے جاتے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ اسرائیل کا کوئی باقاعدہ تحریری اور منضبط دستور نہیں ہے۔ سارا ڈھانچہ کچھ بنیادی اصولوں پر کھڑا ہوا ہے؛ چنانچہ ہر وہ قانون جسے سپریم کورٹ یہ سمجھے کہ اس میں ایک جچا تلا اور مناسب طریقۂ کار اختیار نہیں کیا گیا‘ سپریم کورٹ ختم کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ نیتن یاہو نے اسی بنیادی اختیار کو نشانہ بنایا تھا اور ایک قانون کے ذریعے اس اختیار کو ختم کیا جا رہا تھا۔ اس نئے قانون کے ذریعے عدالتِ عظمیٰ کی راہ مسدود کی گئی تھی کہ وہ پارلیمنٹ کو مناسب طریقۂ کار اختیار کرنے کو کہے‘ نیز اسی کے ذریعے پارلیمنٹ کو زیادہ اختیار دیا جانا تھا۔
جولائی میں جیسے ہی پارلیمنٹ میں یہ اقدام سامنے آیا‘ اسرائیل میں اس کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے۔ اسرائیلیوں کو یہ شدید خطرہ محسوس ہوا کہ وہ چیک اینڈ بیلنس جو سپریم کورٹ کے اختیار کے تحت اس وقت اسرائیل میں موجود ہے‘ تحلیل ہو جائے گا تو من مانی سرگرمیوں کیلئے راستہ کھل جائے گا اور اسرائیلی جمہوریت خطرے میں پڑ جائے گی۔ بہت سے اسرائیلیوں کا یہ کہنا ہے کہ ایسے وقت میں جب ملک انتہائی دائیں طرف کے صہیونی انتہا پسندوں کے ذریعے چلایا جا رہا ہے‘ سپریم کورٹ کا اختیار سلب ہونا بڑا خطرہ ہوگا۔ اسرائیل اور دیگر ممالک میں یہودیوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو نیتن یاہو اور اس کی پالیسیوں کو پسند نہیں کرتے۔ یہ اندرونی دراڑیں اس وقت ظاہر ہونا‘ جب 23ہزار سے زائد فلسطینیوں کا بے رحمانہ قتلِ عام‘ جس میں نو ہزار کے قریب بچے ہیں‘ اسرائیل کو عالمی طور پر تنہا کر چکا ہے۔ اس قانون کا دیکھتے ہوئے اسرائیل کے مغربی حلیفوں‘ مثلاً برطانیہ اور امریکہ نے نیتن یاہو کو خبردار کیا تھا کہ جمہوریت کو بالا دست رکھا جائے۔ اس تنبیہ کی ضرورت اس لیے بھی تھی کہ ان دونوں ممالک میں مظاہرے جاری تھے۔ جولائی میں جب یہ قانونی ترمیم ایوان نمائندگان میں پیش ہوئی تو صفر کے مقابلے میں 64ووٹوں سے منظور کر لی گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن نے بائیکاٹ کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے آٹھ ججز نے اس قانون کو رد کرتے ہوئے نیتن یاہو کیلئے بہت بڑا مسئلہ بنا دیا۔ نیتن یاہو کابینہ کا ایک مرکزی وزیر یاریو لیون کی‘ جو ان سب اقدامات کا مرکزی کردار ہے‘ کی طرف سے عدالت پر سخت تنقید بھی سامنے آئی ہے۔ اس نے کہا کہ ایسے وقت میں‘ جب غزہ میں اسرائیل کو سخت جنگ کا سامنا ہے اور دیگر بہت سے مسائل بھی ہیں‘ اس وقت جس اتحاد کی ضرورت ہے اس کا خیال نہیں کیا گیا۔ اگر اس فیصلے کو نظر انداز کیا گیا تو حکومتی اتحاد ختم ہونے کا بڑا خطرہ ہے جس کے باعث غزہ پر اسرائیلی چڑھائی بھی ختم ہو سکتی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایسا ہوا تو اسرائیل کے خون سے رنگے ہاتھوں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ یاریو لیون کی نے ججوں کو سر عام اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ حکومتی اتحاد کی دراڑیں تو اسی سے ظاہر ہیں کہ وزیر دفاع یوآو گیلنٹ نے اس قانون سے اختلاف کیا تھا اور عملاً معطل ہو گیا تھا۔ سابق وزیر دفاع بینی گینٹز نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرنے کا بیان دیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ یہ کسی کی فتح اور کسی کی شکست نہیں ہے بلکہ اس وقت سب کو مل کر جنگ جیتنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
یرغمالیوں کا مسئلہ الگ دردِ سر بنا ہوا ہے۔ تل ابیب میں مسلسل مظاہرے ہورہے ہیں اور کئی دوسرے بڑے شہروں میں بھی۔ ان سب کا مطالبہ ہے کہ نیتن یاہو مستعفی ہو اور یرغمالیوں کو کسی بھی طرح واپس لایا جائے۔ تل ابیب کے ''یرغمالی چوک‘‘ میں ہزاروں مظاہرین ہفتے کے دن جمع ہوئے تھے۔ یہ اس لیے اہم ہے کہ اس سے پہلے حکومت مخالف لوگ بھی اس بات پر متفق ہوئے تھے کہ اس وقت‘ جو حالتِ جنگ ہے اور یرغمالی بدستور حماس کے پاس ہیں‘ اتفاق اور اتحاد کا ثبوت دینے کیلئے مظاہرے نہیں ہوں گے۔ اس طرح کے مظاہروں میں پہلے چند سو لوگ شامل ہوتے تھے لیکن اس بار ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک تھے۔ اور ان مظاہرین نے نعرے کیا لگائے ''بشا۔ بشا۔ بشا‘‘ یعنی شرم۔ شرم۔ شرم ۔ یروشلم میں بھی اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ کے گھر کے سامنے سینکڑوں مظاہرین اکٹھے ہوئے اور احتجاجی نعرے بلند کیے۔
دوسری طرف حماس کے ساتھ ابھی تک خان یونس کے علاقے میں سخت لڑائی جاری ہے۔ حماس کا دعویٰ مزید اسرائیلی فوجی گاڑیاں تباہ کرنے اور مزید اسرائیلی فوجی ہلاک کرنے کا ہے۔ لیکن یہ دعویٰ درست ہو یا نہ ہو‘ یہ تو دنیا کو نظر آ ہی رہا ہے کہ تین ماہ سے زائد گزرنے کے بعد بھی اسرائیل غزہ کی چھوٹی سی پٹی فتح نہیں کر پایا۔ خان یونس اور جنوبی غزہ کے علاقوں میں جنگ کو کتنے ہی دن گزر چکے ہیں۔ آخر ایسا کیا ہے کہ یہ علاقہ فتح ہونے میں نہیں آرہا۔ یہ بات بذاتِ خود بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اور اسرائیلی دعوؤں کے برعکس ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے‘ اسرائیلی ہلاکتیں بڑھ رہی ہیں‘ فلسطینیوں کی شہادتیں زیادہ ہو رہی ہیں‘ اسرائیل کیلئے مسائل زیادہ ہو رہے ہیں۔ ہر شہید کا خون فلسطین کو فتح کی طرف لے جا رہا ہے۔ یاد رکھیے کہ یہ وہ اسرائیل ہے جس نے اُردن‘ شام اور مصر سے سابقہ جنگوں میں چند دن سے زیادہ نہیں لیے تھے اور انہیں تسخیر کر لیا تھا۔ جبکہ اس کے سامنے باقاعدہ افواج تھیں۔ اسی اسرائیل کو حماس کے کم مسلح‘ کم سر و سامان والے بے قاعدہ جنگجوؤں نے ایسا اُلجھایا ہے کہ چار ماہ کے قریب لڑائی ہو چکی ہے اور اس کا کوئی نتیجہ اسرائیل کے حق میں نہیں نکل رہا۔ اسرائیل ایک ایسی جنگ میں کود چکا ہے جو اَب بند کرنا بھی اس کے اختیار میں نہیں اور جاری رکھنا بھی ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ اندرونی طور پر نیتن یاہو کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا‘ اور وہ کتنی دیر اپنے اتحادیوں کے ساتھ حکومت چلا سکے گا‘ یہ بڑا سوال ہے۔ بظاہر نیتن یاہو کے دن گنے جا چکے ہیں۔ وہ صورتحال کا فائدہ اٹھا کر شاید کچھ ماہ اور گزار لے لیکن جنگ کے نتائج اور اندرونی خلفشار اسے زیادہ دیر تخت پر نہیں رہنے دیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved