ایک اینکر نے فیصل آباد میں سابق اپوزیشن لیڈر سے پوچھا کہ اگر الیکشن ہو جاتے ہیں تو آپ کے شہر میں انتخابی صورتِ حال کیا ہو گی؟ اس پر وہ صاحب کہنے لگے کہ فیصل آباد میں تو وَن سائیڈڈ الیکشن ہونے جا رہا ہے کیونکہ یہاں پیپلز پارٹی کا تو کوئی نام و نشان ہی نہیں‘ ہماری مخالف تو پاکستان تحریک انصاف تھی۔ اس کے وہ لوگ جو ماضی میں ان حلقوں سے اسمبلیوں کے اراکین منتخب ہوئے تھے‘ وہ تو سب پارٹی چھوڑ چھاڑ کر سیاست سے تائب ہو چکے ہیں یا دوسری سیاسی جماعتوں میں چلے گئے ہیں‘ اب جن لوگوں کو ٹکٹ ملنے جا رہا ہے‘ ان کو تو کوئی جانتا بھی نہیں‘ لہٰذا سیاسی طور پر ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ یوں سمجھیں کہ میدان پوری طرح صاف ہے۔ وہ صاحب مزید کہنے لگے کہ فیصل آباد کی قومی اسمبلی کی دس کی دس نشستیں سمجھ لیں کہ پارٹی کی جھولی میں ڈال دی گئی ہیں کیونکہ ہمارا تو کسی سے مقابلہ ہی نہیں۔
دوسری جانب جب نوشہرہ میں پرویز خٹک سے پوچھا گیا کہ آپ خیبر پختونخوا میں الیکشن کے نتائج کیا دیکھ رہے ہیں؟ اس پر انہوں نے قہقہے لگاتے ہوئے کہا کہ دیکھتے جائیے‘ پرویز خٹک پورے کے پی سے آپ کو کلین سویپ کر کے دکھائے گا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اب تک آپ کے جو جلسے اور ورکرز کنونشن دیکھنے کو ملے ہیں‘ ان سے تو لگ رہا ہے کہ آپ کے امیدواروں کے لیے اپنی ضمانتیں بچانا بھی مشکل ہو جائے گا۔ اس پر وہ مسکرا کر بولے کہ عوام کو پتا ہے کہ اصلی تحریک انصاف تو ہماری پارٹی پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز ہے اور یہی پارٹی نہ صرف الیکشن جیتے گی بلکہ اس طرح واضح اکثریت سے جیتے گی کہ ایک دنیا دیکھے گی۔ انہوں نے ساتھ ہی میڈیا والوں کو دعوت نامہ بھی دے دیا کہ جب آٹھ فروری کی رات ریٹرننگ افسران اپنے دفاتر میں بیٹھ کر نتائج کا اعلان کریں گے تو اس وقت آپ کو اپنے پاس کھڑا کروں گا تاکہ خود دیکھتے جائیں کہ ہمارے انتخابی نشان والے بیلٹ پیپرز کی کس قدر بھرمار ہوتی ہے۔
استحکام پارٹی والوں سے جب پوچھا جاتا ہے کہ آپ کو آئندہ حکومت میں کچھ ملنے کی امید ہے تو وہ بھی اسی قسم کا جواب دیتے ہیں کہ بس دیکھتے جائیے۔ جب ان سے سوال کیا جائے کہ آپ کی پارٹی کے سوائے تین‘ چار امیدواروں کے باقیوں کے تو ان کے اپنے اپنے حلقوں میں اتنے ووٹ بھی نہیں کہ وہ پولنگ ایجنٹ ہی پورے کر لیں تو ایسے میں الیکشن جیتنے کا دعویٰ چہ معنی دارد تو اس پر ان کی طرف سے ملنے والا جواب اس قدر دلچسپ اور حیران کر دینے والا ہوتا ہے اور انتخابات کی شفافیت بارے جو تھوڑا بہت شک ہوتا ہے‘ وہ بھی کہیں دور بلکہ بہت دور بھاگ جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا یادگار الیکشن ہونے جا رہا ہے جس کی گونج کئی دہائیوں تک سنائی دیتی رہے گی۔ کچھ لوگ تو ابھی سے اس الیکشن پر کتابیں لکھنے کی تیاریاں کیے ہوئے ہیں جن کے ٹائٹلز بھی منتخب کر لیے گئے ہیں۔
رہی پی پی پی تو اس جماعت کے ٹکٹ ہولڈرز ابھی سے خود کو اسلام آباد کے منسٹرز انکلیو میں دیکھ رہے ہیں۔ دیکھیں بھی کیوں نا‘ اُن کی انتخابی مہم ہی بہت تگڑی جا رہی ہے‘ جس کی ایک مثال سندھ اسمبلی کے حلقہ41 سانگھڑ سے پیپلز پارٹی کے ایک امیدوار کی وہ تقریر ہے جس میں موصوف کا کہنا تھا کہ جیالے اور کارکن سیدھے ہوجائیں اور مجھے کامیاب کرائیں‘ ورنہ آٹھ فروری کے بعد 9 فروری بھی آئے گا اور اُس دن اُن سے جو حساب لیا جائے گا وہ پورا سانگھڑ دیکھے گا۔ گوکہ الیکشن کمیشن نے نوٹس لیتے ہوئے پی پی امیدوار سے اپنی تقریر کی وضاحت طلب کر لی ہے‘ تسلی بخش وضاحت نہ ملنے کی صورت میں اس امیدوار کے خلاف الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 234 کے تحت کارروائی کا عندیہ بھی دیا جا چکا ہے‘ لیکن اگر کوئی امیدوار ایسی تگڑی انتخابی مہم چلائے گا تو وہ کیسے ناکام ہو سکتا ہے۔پارٹی چیئر مین بلاول بھٹو زرداری سکھر میں ایک جلسے میں خطاب کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ دیوار پہ لکھا ہوا ہے کہ ''اگلی حکومت پیپلز پارٹی کی ہو گی کیونکہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ عوام سے کیے وعدوں کو پورا کیا ہے‘‘۔ سیاستدان تو ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ انہوں نے عوام سے کیے وعدوں کو پورا کیا ہے لیکن اس کا احتساب تو عوام نے کرنا ہے کہ اُن سے کیے گئے وعدے پورے ہوئے یا وہ ابھی تک ان وعدوں کے وفا ہونے کا انتظار ہی کر رہے ہیں۔ جہاں تک جی ڈے اے کا تعلق ہے تو اس کے منحرف اراکین کو شاید میدان میں اُترنے کی اجازت بھی نہ ملے کہ ایسوں کیلئے یہی سزا ہو نی چاہیے لیکن شنید ہے کہ جی ڈی اے چند سیٹیں حاصل کر لے گی۔
یہ تو ہو نہیں سکتا کہ الیکشن کی بات ہو رہی ہو اور مولانا فضل الرحمن کا ذکر نہ ہو۔شنید ہے اُنہوں نے بھی قومی اسمبلی کی تین نشستیں ابھی سے پکی کر لی ہیں لیکن یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ انہیں ان تینوں نشستوں کے ووٹ ایک وزارت کے عوض پیش کرنا ہوں گے۔ جمعیت علمائے اسلام کا کہنا ہے کہ بلوچستان سے اس کی تین نشستیں تو کوئی چھین ہی نہیں سکتا جن میں پشین والی نشست سر فہرست ہے۔ مولانا فضل الرحمن پہلی مرتبہ خیبر پختونخوا سے اتنا فاصلہ طے کر کے پشین‘ بلوچستان پہنچے ہیں تو یقینا وہ یہ سیٹ کچھ محنت سے حاصل کر لیں گے۔یہ فیصلہ مولانا نے خود نہیں کیا بلکہ بلوچستان میں جمعیت کی صوبائی قیادت کی مشاورت بھی اس میں شامل رہی ہو گی۔ اس لیے جمعیت علمائے اسلام کی این اے 265پشین کی سیٹ پکی نظر آتی ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں کامیابی کیلئے اُسے پاپڑ بیلنا پڑیں گے جہاں کوہستان‘ مانسہرہ اور ایبٹ آباد کی ایک ایک نشست پر سنا ہے کہ (ن)لیگ نے پہلے ہی نظر رکھی ہوئی ہے بلکہ وہ تو یہ کہتے ہیں کہ کوہستان‘ مانسہرہ اور ایبٹ آبادکی قومی اسمبلی کی تین نشستیں تو ابھی سے اُن کے پاس ہیں۔خیبر پختونخوا کا ذکر ہو اور عوامی نیشنل پارٹی کو نظر انداز کر دیا جائے‘ ایسا تو نہیں ہو سکتا۔ شنید ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی والوں نے انتخابی مہم کے دوران تازہ پھلوں کے بجائے اعلیٰ قسم کے خشک میووں کی فرمائش کی ہے تاکہ سردی کے اس موسم میں وہ خود کو انتخابات کے لیے سر گرم رکھ سکیں۔عوامی نیشنل پارٹی کا کہنا ہے کہ دس بر س پہلے چارسدہ‘ سوات اور مردان میں قائم ان کے حجرے پھر سے آباد ہونے جا رہے ہیں اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو ان کے پاس اس کے سوا ور کوئی چارہ نہیں ہو گا کہ رنگ میں بھنگ ڈال دی جائے۔
آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ کالم ختم ہونے کو آیا ہے لیکن ابھی تک (ن)لیگ نامی جماعت کا کھل کر کوئی ذکر ہی نہیں کیا گیا۔ اس جماعت سے متعلق پوچھنے والوں کو کوئی بتائے کہ بھئی جب کسی فرد کے لیے پورا میلہ ہی سجادیا گیا ہو تو اُسے کسی مخصوص تحفے کی کیا حاجت باقی رہتی ہے۔ جہاں تک تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں کو تعلق ہے تو اُن کا کیا ہے‘ بھلا ایسے لوگ جن اُن کا انتخابی نشان واپس لینے کی کوششیں جاری ہوں ‘ وہ کیسے ایک بھرپور الیکشن کی تیاری کر سکتے ہیں۔ لیکن بھلا ہو پشاور ہائی کورٹ کا جس نے انتخابی نشان کیس میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو بلّے کے نشان پر الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی ہے۔باقی اصل صورتحال تو آٹھ فروری کے روز ہی واضح ہو سکے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved