تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     11-01-2024

ماسک

کچھ الفاظ گرامر کے لحاظ سے چاہے غلط ہوتے ہوں یا جنہیں ہم غلط العام کہتے ہیں لیکن یہ الفاظ ہماری روز مرہ گفتگو میں اس تواتر کے ساتھ استعمال کیے جاتے ہیں کہ ہم نے انہیں دل سے قبول کر لیا ہے۔ اسی طرح انگریزی کے بھی کچھ الفاظ ایسے ہیں جو اردو بول چال میں نہ صرف معمول کے مطابق کہے جاتے ہیں حتیٰ کہ ان کی ادائیگی بھی غلط انداز میں کی جاتی ہے لیکن پھر بھی ہم انہیں زندگی کا حصہ مان کر چل رہے ہیں اور اس پر تعجب کا اظہار نہیں کرتے۔ بالکل اسی طرح زندگی کے کچھ اصول‘ کچھ ضابطے‘ ہمارے کچھ رویے ایسے ہیں جو حقیقتاً درست نہیں ہیں لیکن ہم انہیں جانتے بوجھتے اس لیے قبول کر چکے ہیں کیونکہ ہر کوئی انہیں دہرائے جا رہا ہے اور یہ معاشرے کی گھٹی میں شامل ہو چکے ہیں۔ اگر کوئی ان معاملات کے خلاف چلنے کی کوشش کرتا ہے تو اُلٹا یہ معاشرہ اسے عجیب نظروں سے دیکھنے لگتا ہے اور وہ بھی حیران ہوتا ہے کہ میں تو قاعدے قانون کی بات کر رہا ہوں اور لوگ میرا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ تجربہ یہی کہتا ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں میں رہنا ہو تو چہرے پر ماسک چڑھا لیجئے۔ وہ والا ماسک نہیں جو سموگ یا کورونا میں لگایا جاتا ہے بلکہ وہ ماسک جو آپ کے اصل چہرے کو چھپا لے۔ اس ماسک کو لگانے سے آپ کو کئی فائدے ہوتے ہیں مثلاً قانون کو دھوکا دینا ہو یا اصول و ضوابط کے خلاف چلنا ہو تو آپ کو کوئی کچھ نہیں کہے گا نہ ہی آپ کو خود کوئی عار محسوس ہو گی۔ بلکہ اس سے آپ میں ہمت پیدا ہو جائے گی اور آپ دن کی روشنی میں قانون کو توڑیں گے اور کسی قسم کی کسک محسوس نہیں کریں گے۔ مثلاً کسی جگہ نو پارکنگ کا بور ڈ لگا ہو تو آپ عین اس کے سامنے گاڑی پارک کر سکیں گے۔ آپ کا ضمیر آپ کو ملامت کرے گا بھی تو آپ دیکھیں گے کہ جس جگہ پارکنگ کی جا سکتی ہے وہاں تو پہلے ہی ٹھیلوں اور ڈھابوں نے قبضہ جمایا ہوا ہے چنانچہ آپ کا ضمیر بھی فوراً ہار مان لے گا کہ بھائی جب پارکنگ کی جگہ پر جگہ ہی نہیں ہے تو پھر کہیں تو گاڑی کھڑی کرنی ہے۔ کچھ لوگ ایسے موقع پر ضمیر کی جنگ لڑنے لگتے ہیں۔ ٹھیلے والوں کے گلے پڑ جائیں گے کہ تم لوگوں نے ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے جس پر پہلے تو وہ ہنسیں گے کہ جا بھائی جا ‘اپنا علاج کروا۔ کیوں اپنا اور ہمارا وقت ضائع کرتا ہے۔ وہ اسے سنائیں گے کہ فلاں فلاں نے جب پارکوں اور قبرستانوں کو نہیں چھوڑا‘ اور ان کی چائنا کٹنگ کر ڈالی ہے تو ہم نے کون سے ایسا غلط کام کر لیا جو تُو ہمارا سر کھانے آ گیا ہے۔ جا بھائی جا‘ جا ٹھنڈا پانی پی۔ اپنا کام کر اور ہمیں بھی اپنا کام کرنے دے۔
اب آپ یہاں یہ سوچیں گے کہ اگر میں نے برائی کو اپنی سطح پر نہیں روکا تو پھر معاشرے میں برائی یونہی پھیلتی چلی جائے گی اور اس کی ذمہ داری تو شہریوں پر بھی آئے گی کہ وہ آواز نہیں اٹھاتے۔ چنانچہ آپ اس سے تکرار کے ساتھ اپنا ٹھیلا اور تجاوزات ہٹانے کے لیے اصرار کریں گے تو یقینِ کامل ہے کہ نوبت بہت جلد ہاتھا پائی تک پہنچ جائے گی اور کچھ گھونسے‘ ٹھڈے اور لاتیں کھانے کے بعد واپس آپ اسی معمول کی دنیا میں آ جائیں گے جہاں ایسے معاملات کو تقدیر اور روٹین سمجھ کر قبول کر لیا گیا ہے۔
فرض کریں آپ بہت زیادہ ری ایکشن دیتے ہیں اور پولیس کو ون فائیو پر کال کر دیتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا۔ پولیس آئے گی اور آپ سے کہے گی کہ چلیں آپ بھی تھانے چلیں تاکہ کارروائی آگے بڑھائی جا سکے۔ اب آپ سوچیں کہ میں تو گھر سے دوا لینے نکلا تھا‘ میں نے واپس کام پر بھی جانا ہے‘ پھر سہ پہر کو بیٹی کو گھر سے لے کر اکیڈمی بھی ڈراپ کرنا ہے تو اگر میں تھانے چلا گیا تو یہ سب تو نہیں ہو گا۔ چنانچہ آپ پولیس سے کہیں گے کہ بھائی ان کو لے جائو‘ قصور وار یہ ہیں؛ تاہم پولیس کو کال آپ نے کی تھی چنانچہ آپ کو بھی زبردستی گاڑی میں بیٹھ کر ساتھ تھانے جانا پڑے گا۔ وہاں کیا ہو گا‘ زیادہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ جن کے ساتھ ہوتا ہے وہ دوبارہ ایسے کسی قضیے میں ٹانگ نہیں اڑاتے۔ بلکہ ایسا کوئی دنگا فساد یا غیرقانونی عمل ہو بھی رہا ہو تو سر جھکا کر نکل جاتے ہیں۔ اب فرض کر لیتے ہیں کہ تھانے جاکر آپ کی بات کو واقعی سنا جاتا ہے اور مخالف پارٹی کے خلاف پرچہ بھی ہو جاتا ہے تو اس سے آگے کیا ہو گا۔ کیا اسے سزا مل جائے گی۔ سزا تو آپ کو ملے گی‘ اس صورت میں کہ آپ کو بطور مدعی متعلقہ عدالتوں میں پیش ہونا پڑے گا‘ سارا سارا دن اسی کام کے لیے وقف کرنا پڑے گا اور ضروری نہیں کہ اس کے بعد وہی ہو جو آپ نے سوچا تھا۔ 99فیصد چانس یہی ہے کہ دوسری پارٹی تگڑا وکیل کر لے گی کیونکہ ایسے لوگ ایسے معاملات سے روزانہ گزرتے ہیں‘ انہیں پتا ہے کہاں اور کس سے کیسے ڈیل کرنا ہے۔ وہ جس جگہ ناجائز قبضہ کیے ہوتے ہیں وہاں بیٹھنے کے لیے کس کس کو کتنا حصہ دیتے ہیں‘ برسوں سے وہ یہی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ جو حصہ لیتے ہیں وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں‘ انہوں نے بھی چہروں پر ماسک چڑھا رکھے ہیں‘ وہ بھی حصے دینے اور لینے کو معمول سمجھتے ہیں‘ اسی لیے دونوں کا دال دلیا لگا ہوا ہے۔
آپ ان کے پیٹ پر لات ماریں گے تو کیا وہ آپ کو معاف کر دیں گے۔ جو انہیں تجاوزات کی اجازت دیتے ہیں وہ انہیں ایسے معاملات سے نکالنے کی بھی ضمانت دیتے ہیں۔ چنانچہ اگلے دن ان کی ضمانت ہو جائے گی اور وہ قہقہے لگاتے آپ کا منہ چڑاتے واپس اسی اڈے پر پہنچ جائیں گے اور پہلے سے زیادہ پُراعتماد ہو کر اپنا اڈا چلائیں گے اور مزید دو چار فٹ جگہ سمیٹ لیں گے کیونکہ انہیں یقین ہے کہ نہ کوئی پہلے ان کا کچھ بگاڑ سکا ہے‘ نہ آئندہ بگاڑ سکے گا۔ اس کہانی کا انجام وہی ہو گا جو ایسے کیسز میں ہوتا ہے۔ آپ اپنا قیمتی وقت‘ پیسہ اور توانائی برباد کرنے کے بعد اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ جیسے چل رہا ہے چلنے دو اور دوبارہ ایسے کسی قضیے میں ناک گھسیڑنے سے توبہ کر لیں گے۔
یہ تو میں نے ایک مثال دی ہے۔ یہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ ہر غلط کام کو معمول اور معاشرے کا ضروری حصہ سمجھ کر یہی یقین کر لیا گیا ہے کہ یہ سسٹم ایسے ہی چلے گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ غلط جگہ چھابڑی اور عمارت کھڑی کرنے والے اور اس کی اجازت دینے والے دونوں جب ملک سے باہر کسی ایئر پورٹ پر اترتے ہیں تو فوری طور پر وہ ماسک اتار دیتے ہیں بلکہ اپنے ایئر پورٹ پر ہی پھینک جاتے ہیں کیونکہ یہ ماسک بیرونِ ملک کام نہیں آتا بلکہ وہاں جا کر اسے پہننا اپنی کم بختی کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ آئندہ تجاوزات کے خلاف گرینڈ آپریشن ہوں تو زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ کام عشروں سے ہوتاآیا ہے اور یونہی ہوتا رہے گا‘ تجاوزات کبھی ختم نہیں ہوں گی کیونکہ یہاں پر اطراف میں سب نے ماسک پہنے ہوئے ہیں‘ جب تک دونوں طرف سے یہ ماسک اتار نہیں دیے جاتے‘ تبدیلی کا سوال بھی پیدا نہیں ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved