ملک میں اب ایسے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن کا کسی زمانے میں سوچ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ شاید انہونی اسے ہی کہتے ہیں۔ کون سوچ سکتا تھا کہ عمران خان جیل میں ہوں گے اور پرویز مشرف کی سزائے موت کے فیصلے کو سپریم کورٹ درست مان لے گی۔ یہ دونوں باتیں دو سال پہلے تک ناقابلِ یقین لگتی تھیں۔ عمران خان جنرل باجوہ اور جنرل فیض کی فخریہ پیش کش تصور کیے جاتے تھے۔ تینوں ایک دوسرے پر واری قربان جاتے تھے۔ عمران خان وزیراعظم بن کر جب بھی صحافیوں سے ملے ہر بات پرجنرل باجوہ کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ میں خود ایسی کئی ملاقاتوں کا گواہ ہوں۔ ایک دفعہ اُن سے جنرل باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع بارے پوچھا گیا تو بولے :جنرل باجوہ اتنے پروفیشنل بندے ہیں ‘وہ انہیں توسیع دینا بھی چاہیں گے تو وہ انکار کر دیں گے۔ یہ الگ کہانی ہے کہ بعد میں وہی جنرل باجوہ خود وزیراعظم ہاؤس بیٹھ کر اپنی سمری کی نوک پلک درست کرا رہے تھے جبکہ جنرل فیض نواز شریف اور آصف زرداری سے خفیہ ملاقاتیں کر کے جنرل باجوہ کیلئے ووٹ مانگ رہے تھے۔ اور پھر سب نے دیکھا کہ جنرل باجوہ کی مدتِ ملازمت کے قانون کو قومی اسمبلی میں ریکارڈ ووٹ پڑے۔ یہ تھے عمران خان اور نواز شریف جو دونوں آج جنرل باجوہ کا نام سنتے ہی بگڑ جاتے ہیں۔
2019 ء میں جب خصوصی عدالت نے جنرل مشرف کو پھانسی کی سزا سنائی تھی تو پورے ملک میں شور مچ گیا تھا۔کون سوچ سکتا تھا کہ سابق آرمی چیف یا سابق صدرِ پاکستان کو بھی عدالت پھانسی کی سزا سنا سکتی ہے ‘چاہے اس سزا پر عمل نہ ہو سکتا ہو۔اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر نے مشرف کے خلاف اس فیصلے پر شدید ردِعمل دیا اورپھر اس فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ سے رکوا دیا گیا‘ جو آخرکار سپریم کورٹ تک پہنچا۔ اب سپریم کورٹ کے فیصلے نے سب کو چونکا دیا ہے۔جنرل باجوہ دور میں جب یہ فیصلہ سامنے آیا تھا تو اُن حالات میں کوئی توقع نہیں کررہا تھاکہ عدالت اس ایشو پر بڑا جھٹکا دے سکتی ہے۔ جنرل باجوہ‘ جنرل بیگ‘ جنرل کیانی بھی کراچی جا کر جنرل مشرف کے جنازے میں شریک ہوئے تھے۔ جنرل مشرف کو باقاعدہ فوجی اعزاز ساتھ دفنایا گیا۔اب اچانک حالات بدل گئے ہیں۔ اس فیصلے میں جو اہم بات ہے وہ یہ کہ اس کیس کی سماعت کیلئے پرویز مشرف کے ورثا کو بار بار نوٹس جاری کیے گئے کہ اگر وہ پیروی کرنا چاہتے ہیں۔ اخبار میں اشتہار بھی دیا گیا لیکن سابق آرمی چیف کی فیملی عدالت میں دفاع کیلئے سامنے نہیں آئی۔ یوں کیس کی عدم پیروی پر سزا کو برقرار رکھا گیا۔بتایا جارہا ہے کہ مشرف کی فیملی ان ایشوزسے دور رہنا چاہتی تھی‘لہٰذا انہوں نے سپریم کورٹ کو جواب نہیں دیا۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ جنرل یحییٰ خان کے بیٹے علی خان ہر دفعہ اپنے والد کا دفاع کرنے ہر ٹی وی شو میں پہنچ جاتے تھے۔ ہم جنرل یحییٰ خان بارے کچھ سمجھیں یا کہیں یا تاریخ ان کو کیسے یاد رکھتی ہے وہ الگ کہانی ہے لیکن ایک بیٹے کے نزدیک اس کا باپ ہی اس کا ہیرو رہتا ہے جو کوئی غلط کام نہیں کرسکتا۔ علی ہمیشہ لوگوں سے لڑتا رہا اور اپنے باپ کا دفاع کیا ۔
مان لیا کہ پرویز مشرف کے بچے ان ایشوز میں نہیں پڑنا چاہتے ہوں گے کہ کون سپریم کورٹ پیشیاں بھگتے‘ کون امریکہ سے اسلام آباد کے چکر لگائے۔مگر یا تو آپ اپنے باپ کی جائیداد سے لاتعلق ہوں اور کچھ نہ لینا چاہتے ہوں تو پھر آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا اپنے باپ کے فیصلوں یا ایکشن سے کچھ لینا دینا نہیں ۔ وہ حکمران تھے‘ اچھے برُے فیصلوں کے وہ ذمہ دار تھے ہم نہیں‘لیکن جب آپ اُن کی وراثت اور جائیداد کے مالک ہیں تو پھر آپ کو باپ کیلئے وکیل کرنا چاہیے تھا۔ آپ اگر مشرف کے سعودی بادشاہ کے دس ملین ڈالرز کے تحفہ سے خریدے گئے لندن فلیٹ میں رہنے کیلئے جا سکتے ہیں تو اسلام آباد کیوں نہیں آسکتے؟کیا باپ کی جائیداد اچھی ہے لیکن اُس پر مقدمات ہوں تو اولاد کو کوئی پروا نہیں ہونی چاہیے؟ہمارے دیہات میں تو غریب سے غریب انسان اپنی بھیڑ بکری بیچ کر بھی اپنے پیاروں کے مقدمات لڑتے ہیں چاہے انہیں علم ہو کہ وہ قصور وار ہیں۔ مجرم کے ماں باپ اور بہن بھائی انہیں اکیلا نہیں چھوڑتے۔پرویزمشرف نے حکمرانی کے برسوں میں سینکڑوں لوگوں کی زندگیاں بدلیں‘کتنے لوگوں نے فوائد اٹھائے‘ کراچی اور لاہور کے بزنس مین اُن کی شان میں اپنے گھروں پر پارٹیاں کرتے تھے۔پرویز مشرف نے بار کونسلز کو کروڑوں روپے کے چندے دیے‘ دس کروڑ کا چندہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو اُس وقت دیا گیا جب ریٹائرڈ جسٹس قیوم ملک اٹارنی جنرل لگائے گئے تھے۔ آج ان وکیلوں میں سے بھی کوئی مفت وکیل بن کر کھڑا نہیں ہوا۔
مشرف نے کتنے ہی سول‘ ملٹری افسران کو پروموشن دیں‘ کئی سابق فوجی افسران کو وزیر بنایا‘ہر وقت آرمی ہاؤس میں دربار سجا رہتا تھا جہاں ہر کوئی فائدے لیتا تھا۔ آج وہ سب غائب ہیں۔میں نے سپریم کورٹ سے سزا پر ایک ٹویٹ کیا جس پر بہت ردِعمل آیا۔ ذرا آپ بھی پڑھیں کہ دنیا کیسی خوفناک چیز ہے۔میں مشرف دور میں اُن کی حکومت کا نقاد رہا۔درجنوں سکینڈلز بریک کیے۔ خبریں کیں اور مشکلات بھی اٹھائیں لیکن اس فیصلے کی خبر نے ایک اور افسوسناک انسانی پہلو کی طرف توجہ دلوائی ہے۔پرویز مشرف نے آٹھ برسوں میں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں لوگوں کی زندگیاں بدل دیں۔ فرش سے عرش پر پہنچایا۔ جو شوکت عزیز کی طرح کونسلر نہیں بن سکتے تھے انہیں وزیراعظم تک بنا دیا۔ چودھری شجاعت تک وزیراعظم بن گئے۔ ہر ایرے غیرے پر وزارتوں کی بارش کی ( چاہے اپنے فائدے کیلئے ہی سہی)ان کی مہربانی سے لوگ ارب پتی بنے‘ مال بنایا۔ فائدے اٹھانے والوں میں سے کسی ایک بندے نے بھی دس بیس لاکھ روپے کا ایک وکیل نہ کیا جو عدالت میں اُن کا مؤقف دیتا۔ جنرل مشرف حکمران تھے تو اُن کا دربار سب سے بڑا تھا جہاں سب خوشامدی اور درباری موجود ہوتے اور فائدے اٹھاتے۔ آج کی ہر سیاسی پارٹی میں وہ سب درباری موجود ہیں اور نئے عہدے لینے کو بے تاب۔بلاشبہ مشرف دور میں بھی بہت لوگوں پر ظلم ہوا‘ زیادتیاں کی گئیں‘ کئی بے گناہوں نے ان کا ظلم سہا اور بھگتا۔بڑا سبق یہی ہے کہ جو بندہ مر گیا یا زندہ ہو کر بھی ہمارے کسی کام کا نہ رہا‘ اس کو کوئی نہیں پوچھتا۔سب لوگ سنہرے دور کے ساتھی ہیں۔ جب تک آپ لوگوں کے کام آتے رہیں آپ کو سر پر بٹھائیں گے،جب کام نکل گیا تو پہنچانے سے بھی انکاری ہو جائیں گے۔ہمارے پرویز مشرف سے لاکھ اختلافات ہوں لیکن اُن کے قریبی سابق فوجی ہوں یا وہ جنرل جنہیں آرمی چیف (جنرل کیانی) تک بنایا وہ تو آگے آتے۔وہ وکیل کر لیتے۔اُن کے اپنے بچے تو باپ کے کیس کی پیروی کرتے۔چلیں ایک بڑا وکیل نہ سہی‘ دو چار لاکھ روپے والا وکیل ہی کھڑا کر دیتے۔یا بچے بھی باپ کو قانون شکن سمجھتے تھے جیسے پراسیکیویشن اور عدالت نے قرار دیا؟
وہی بات کہ جب یہ لوگ حکمران ہوتے ہیں تو خود کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ اپن ہی بھگوان ہیں۔ مر جائیں تو بچے تک کیس کی پیروی نہیں کرتے‘ جن کے لیے آپ اربوں کی جائیدادیں اور بینک بیلنس چھوڑ جاتے ہیں۔خیر جیسا بھی تھا جنرل یحییٰ خان کا بیٹا علی خان باپ کا دفاع کرنے ہر جگہ پہنچ جاتا تھا۔جنرل مشرف کے بچوں سے اسلام آباد تک نہ آیا گیا جہاں ان کے باپ کی سزائے موت کنفرم کی گئی۔
مجھے بریگیڈیئر اعجاز شاہ کا جملہ یاد آیا جب وہ ننکانہ سے پہلا الیکشن ہارے تھے‘ حالانکہ انہوں نے پاور میں ہوتے ہوئے وہاں لوگوں کے بڑے کام کرائے تھے۔میں نے پوچھا آپ نے اتنے کام کرائے پھر بھی لوگوں نے ووٹ نہیں دیے؟ افسردہ ہو کر بولے: دنیا پیتل دی او یار۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved