روایت ہے کہ اپنے دور کے مشہور صوفی بزرگ شیخ ابوسعید ابوالخیر ایک مجلس میں بیٹھے تھے کہ کسی نے کہا ''کیا کمال کا انسان ہو گا وہ جو ہوا میں اُڑ سکے‘‘۔ شیخ ابوسعید نے کہا: یہ کون سی بڑی بات ہے‘ یہ کام تو مکھی بھی کر سکتی ہے۔ وہ شخص دوبارہ بولا: اور اگر کوئی شخص پانی پر چل سکے تو؟ فرمایا: یہ بھی کوئی خاص بات نہیں ہے کیونکہ لکڑی کا ٹکڑا بھی سطحِ آب پر تیر سکتا ہے۔ اس پر سوالی نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا: پھر آپ کے خیال میں کمال کیا ہے؟ شیخ نے حکمت کے دفاتر کو چند جملوں میں سموتے ہوئے کہا ''میری نظر میں حقیقی کمال یہ ہے کہ تم لوگوں کے درمیان رہو اور کسی کو تمہاری زبان‘ تمہارے ہاتھ یا تمہاری ذات سے ذرہ برابر بھی تکلیف نہ پہنچے۔ کبھی جھوٹ نہ بولو، کسی کا تمسخر مت اڑائو، کسی کی ذات سے ناجائز فائدہ مت اٹھائو، حقیقی کمال یہی ہے۔
اَپر مڈل کلاس کا ایک عمر رسیدہ بزنس مین‘ جس کو قدرت نے بیس برس بعد پوتے سے نوازا تھا‘ ابھی خوشیوں کے چاہ بھی پورے نہیں کر سکا تھا کہ نومولود کو اپنی پیدائش کے دوسرے دن ہی کچھ ایسی پیچیدگیاں ہوئیں کہ اس کا سانس اکھڑ گیا۔ فوری طور پر اسے شہر کے ایک بڑے ہسپتال کے چائلڈ آئی سی یو میں داخل کرا دیا گیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ بیس برس بعد آنگن میں کھلنے والا یہ پھول شاید زندگی بھر کا روگ دے جائے۔ وہ شخص ہسپتال کے کوریڈور میں پریشانی کے عالم میں ٹہل رہا تھا۔ جب نومولود پوتے کی سانس کی ڈوری ٹوٹنا شروع ہوئی تو ڈاکٹروں نے بے بسی سے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ یہ دیکھ کر دادا کی آنکھیں دکھ اور تکلیف سے نمناک ہو گئیں اور اس نے وہیں ہسپتال کی انتظار گاہ میں سجدے میں گر کر بچے کی زندگی کے لیے رو رو کر فریاد کرنا شروع کر دی۔ سجدے کی حالت میں ہچکیاں لیتے ہوئے اس کی آنکھوں کے سامنے اچانک ایک منظر گھوم گیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک بیوہ اور دو یتیم بچے آسمان کی طرف منہ کیے‘ اس کے پوتے کی طویل عمر اور صحتمند زندگی کیلئے دعا کر رہے ہیں۔ پھر یہ کرشمہ اس ہسپتال کے ڈاکٹرز سمیت ہر کسی نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ سجدے میں گرے دادا جی کو وہیں خبر دی گئی کہ بچے کی سانسیں بحال ہو گئی ہیں اور اب بچہ خطرے سے باہر ہے۔ یہ منظر دیکھ کر اس ہسپتال میں موجود وہ افراد جو لاکھوں‘ کروڑوں روپے لیے اپنے پیاروں کی صحت و سلامتی کے لیے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے‘ فوری طور پر ان کی طرف بھاگے اور پوچھنے لگے: آپ نے سجدے میں گر کر جو دعا مانگی‘ وہ ہمیں بھی بتا دیں۔ اس پر انہوں نے کہا: بیٹا! میں تو صرف بے بسی سے رو رہا تھا‘ دعا تو ایک بیوہ اور اس کے دو یتیم بچوں نے مانگی تھی۔ دراصل ہر ماہ وہ ایک غریب و لاچار بیوہ اور اس کے دو معصوم بچوں کو راشن بھجوایا کرتے تھے جبکہ یوٹیلیٹی بلوں اور ماہانہ گزارے کیلئے بھی کچھ رقم بغیر کسی ناغے کے انہیں متواتر مل جاتی تھی۔اب جب وہ اپنے پوتے کی بیماری کا سن کر سجدے میں گرے تو دیکھا وہی بیوہ اور اس کے بچے ان کے پوتے کے لیے دعا مانگ رہے تھے۔
اکثر ایک قصہ ایک ڈاکٹر کے حوالے سے بھی بیان کیا جاتا ہے‘ معلوم نہیں یہ درست ہے یا نہیں مگر یہ ضرور ہے کہ اس میں بہت سے لوگوں کے لیے کافی کام کی باتیں پنہاں ہیں۔ قصہ یہ ہے کہ ایک مشہور سرجن صبح سویرے اٹھا تو بہت خوش تھا‘ کیونکہ اسے ایک عالمی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا جسے وصول کرنے کے لیے آج اسے دوسرے شہر جانا تھا۔ ایئرپورٹ کے لائونج میں اپنی فلائٹ کا انتظار کرتے ہوئے وہ سوچنے لگا کہ بڑے بڑے لوگوں کی موجودگی میں دارالحکومت میں منعقدہ انٹرنیشنل میڈیکل کانفرنس میں جب اس کا نام پکارا جائے گا اور جب تالیوں کی گونج میں اسے شیلڈ اور خصوصی سرٹیفکیٹ دیا جائے گا تو ایک چھوٹے سے گائوں کے ایک عام سے گھرانے کے فردکا نام چند لمحوں میں پوی دنیا بھر میں مشہور ہو جائے گا۔
ابھی جہاز کو پرواز کیے آدھ گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ کپتان کی طرف سے اعلان ہوا کہ موسم کی خرابی کے سبب ہم قریبی ایئر پورٹ پر اتر رہے ہیں۔ دیگر مسافروں کی طرح وہ بھی گھبرا گیا لیکن جہاز بغیر کسی رکاوٹ کے قریبی ایئر پورٹ پر لینڈ کر گیا۔ مسافروں کو لائونج میں پہنچا دیا گیا تاکہ وہ موسم ٹھیک ہونے کے بعد وہ دوبارہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہو سکیں لیکن انتظار تھا کہ بڑھتا ہی چلا گیا اور پھر ایک وقت ایسا آیا جب انتظامیہ کی جانب سے مسافروں سے معذرت کرتے ہوئے بتایا گیا موسم کی خرابی کے سبب آج فلائٹ ممکن نہیں لہٰذا اب اگلے روز اپنی منزل پر روانہ ہوں گے۔ یہ اعلان سننا تھا کہ اس سرجن کو اپنے سب خواب چکنا چور ہوتے دکھائی دیے کیونکہ چند گھنٹے بعد وہ بین الاقوامی میڈیکل کانفرنس شروع ہونے والی تھی جہاں اس نے اپنا مقالا بھی پڑھنا تھا۔ اس نے ایئر پورٹ منیجر سے اپنی مشکل بیان کی تو اس نے بتایا کہ یہاں سے بذریعہ سڑک زیادہ سے زیادہ چار گھنٹے کا راستہ ہے‘ لہٰذابروقت وہاں پہنچنے کیلئے پرائیویٹ کار کرائے پر لے کر اپنی منزل پر جا سکتے ہیں۔ یہ مشورہ اس کے دل کو بھایا اور وہ فوری ایک گاڑی لے کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔ ابھی اس نے ایک گھنٹے کا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ ایک تیز آندھی نے آ لیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چاروں طرف گہرے سیاہ بادل اس طرح چھا گئے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا ساتھ ہی تیز بارش شروع ہو گئی جو رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی، چاروں طرف گھپ اندھیرا‘ راستے سے ناواقفیت اور طوفانی بارش‘ کچھ لمحوں بعد اسے محسوس ہوا کہ وہ راستے سے بھٹک گیا ہے۔ اب رات کا اندھیرا بڑھنے لگا تھا، کچھ دور اسے چند چھوٹے چھوٹے گھر دکھائی دیے، اس نے لاشعوری طور پر اپنی گاڑی ایک چھوٹے سے گھر کے دروازے پر روکی۔ وہ جلدی سے نیچے اترا‘ بھوک اور پیاس سے اس کا برا حال تھا۔ وہ زور زور سے دروازے پر دستک دینے لگا‘ جواب میں ایک عورت نے انتہائی کمزور سی آواز میں اسے اندر آنے کا کہا۔ اس نے اندر داخل ہوتے ہی خاتون سے پانی مانگا جس پر عورت نے ایک کونے میں رکھے مٹکے کی طرف اشارہ کیا۔ پھر اس عورت نے اس کی بھوک محسوس کرتے ہوئے طاق میں رکھے کھانے کی طرف اشارہ کیا جسے اس نے سخت بھوک کی وجہ سے بغیر کسی تکلف کے کھانا شروع کر دیا۔ اب جب اس کے اوسان بحال ہوئے تو اس نے دیکھا کہ وہ ایک ضعیف اور کافی کمزور خاتون تھی۔ اسی دوران خاتون کی کرسی کے دائیں طرف رکھی چارپائی پر حرکت ہوئی اور ایک بچے کے رونے کی آوازیں آنے لگیں۔ خاتون نے روتے ہوئے بچے کو تھپک تھپک کر سلاتے ہوئے اس کی صحت و تندرستی کیلئے دعائیں مانگنا شروع کر دیں۔
اس سرجن نے بوڑھی عورت سے پوچھا: یہ بچہ کون ہے اور کیا آپ اس گھر میں اکیلی رہتی ہیں؟ بوڑھی عورت نے جواب دیا یہ میرا پوتا ہے‘ اس کے ماں باپ کچھ عرصہ قبل ایک حادثے میں فوت ہو چکے ہیں‘ اس بچے کو ہڈیوں کی ایک ایسی بیماری ہے کہ چلنے پھرنے سے بالکل قاصر ہے اور ہر وقت چارپائی پر پڑا رہتا ہے۔ میں نے ارد گرد سب حکیموں اور ڈاکٹروں کو دکھایا ہے مگر وہ بے بس ہیں۔ کسی نے بتایا کہ ایک ڈاکٹر ہے جو ہڈیوں کی اس قسم کی بیماریوں کا ماہر مانا جاتا ہے لیکن ایک تو وہ بہت مہنگا ہے‘ دوسرا اس تک پہنچنا ہی ناممکن ہے‘ میری حالت تم دیکھ ہی رہے ہو‘ میرے پاس تو شہر جانے کے وسائل بھی نہیں‘ اس ڈاکٹر کے پاس کیسے جائوں گی؟ اب مجھے بس ایک یہی فکر کھائے جاتی ہے کہ میرے بعد اس بچے کا کیا بنے گا؟ میں اپنے اللہ سے ہر وقت یہی دعا کرتی رہتی ہوں کہ تو نے میری سب دعائیں قبول کیں‘ بس اب کوئی ایسا سبب پیدا کر دے کہ اس یتیم بچے کا علاج ہو جائے۔ یہ سنتے ہی وہ سرجن اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور رندھی ہوئی آواز میں بولا: اماں جان میں صبح ایک جہاز میں تھا‘ موسم کی خرابی کی وجہ سے جہاز کو ایک قریبی ایئر پورٹ پر اتارا گیا‘ وہاں سے اپنی منزل تک پہنچنے کیلئے کار کرائے پر حاصل کی لیکن راستے میں طوفان نے مجھے راستہ بھلا دیا اور میں بھٹکتا بھٹکتا آپ کے دروازے پر آ گیا۔ اس خالق و مالک کے کاموں کی حکمت کون جان سکتا ہے کہ جس ڈاکٹر کی آپ کو تلاش ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ میں بدنصیب ہی ہوں‘ جسے خدا نے خود آپ کے گھر پہنچا دیا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved