دنیا بھر کی معیشتیں تیزی سے بحالی کی طرف گامزن ہیں‘ نئے کاروباری ادارے قائم ہو رہے ہیں‘ اس کے نتیجے میں روزگار کے مواقع بھی بڑھ رہے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا اس معاملے میں آگے ہے۔ ترقی پذیر اور پسماندہ اقوام کے لیے مواقع اب بھی کم ہیں اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اِن کے مالیاتی وسائل کم ہیں۔ قرضوں کا بوجھ جان نہیں چھوڑ رہا۔ جو کچھ یہ ممالک کماتے ہیں اُس کا بڑا حصہ قرضوں کا سود چکانے کی مد میں کھپ جاتا ہے۔ ایسے میں امکانات کا گھٹ جانا فطری امر ہے۔ تو کیا مایوسی کی چادر تان لی جائے؟ یقینا نہیں! کسی بھی معاملے میں مایوسی کوئی آپشن نہیں ہے۔ جب ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر معاشی بحالی کے بارے میں سوچتے ہیں تو چند ایک معاملات کا خاص طور پر جائزہ لینا چاہیے۔ جو ممالک ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں اُن کے باشندے اپنا بیشتر وقت تاسف کی نذر کردیتے ہیں۔ یہ کام قاعدگی سے اور تواتر سے ہوتا رہتا ہے۔ عملی زندگی میں تاسف کی کوئی گنجائش نہیں۔ بعض معاملات ہمیں پریشان کرتے ہیں اور ان سے پریشان ہونا بنتا بھی ہے مگر صرف پریشان ہونا نہیں بنتا بلکہ ان معاملات سے بخوبی جان چھڑانے یا انہیں درست کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ یہ کام کون کرے گا؟ کیا ہمارے حصے کا کوئی اور سوچے گا؟ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ اپنے لیے منصوبہ سازی ہمیں خود کرنی ہے۔ اس مرحلے سے بہرطور گزرنا ہی پڑے گا۔ بات ہو رہی ہے دنیا بھر میں معاشی بحالی کے عمل کی تیزی کی۔ ڈیڑھ‘ دو برس تک کورونا کی وبا نے جو قیامت ڈھائی اُس کے اثرات مکمل طور پر اب تک ختم نہیں ہوئے۔ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کی تو بات ہی کیا‘ ترقی یافتہ ممالک بھی کورونا کی وبا کے ہاتھوں معاشی الجھنوں سے بچ نہیں سکے۔ جب اموات بڑھی تھیں تب موت کا خوف سبھی کے حواس پر سوار ہوگیا تھا۔ ہمت جواب دی گئی تھی اور حکومتوں نے لاک ڈاؤن کے ذریعے صحتِ عامہ کا معیار برقرار رکھنے پر توجہ دی تھی۔ لاک ڈاؤن مؤثر حل تو تھا مگر اِس کے نتیجے میں جو خرابیاں پیدا ہوئیں اُن کا کیا؟ اب دنیا بھر میں معاشی بحالی کے اقدامات تیز کرنے پر توجہ دی جارہی ہے۔ یہ ناگزیر ہے کیونکہ بڑے پیمانے پر معاشی خرابی کو زیادہ دن برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا بھر میں خرابیاں بھی عروج پر ہیں۔ افریقہ اب بھی خانہ جنگیوں کی زد میں ہے۔
روس اور یوکرین کے درمیان جنگ تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ جنگ بندی اس لیے نہیں ہو پارہی کہ اس صورت میں ایک فریق کی ناک کٹتی ہے۔ غزہ کی صورتِ حال نے بھی عالمی معیشت کے لیے اچھی خاصی مشکلات پیدا کی ہیں۔ بحیرۂ احمر تیل بردار اور مال بردار جہازوں کی اہم گزر گاہ ہے۔ اِس بحری خطے میں یمن کی حوثی ملیشیا نے مال بردار جہازوں پر راکٹوں اور میزائلوں سے حملے کرکے تجارتی جہاز رانی کو شدید متاثر کیا ہے۔ متعدد آئل کمپنیوں نے اپنے جہازوں کے لیے متبادل راستے اختیار کیے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں مال کی ترسیل میں تاخیر سے عالمی تجارت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ایسے میں ناگزیر تھا کہ دنیا بھر میں معاشی بحالی کے لیے کچھ زیادہ کیا جاتا۔ اس معاملے میں بھی پہل ترقی یافتہ دنیا ہی نے کی ہے۔ ویسے معاشی بحالی کی زیادہ ضرورت ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کو ہے۔ اُنہیں قرضوں کے بوجھ سے بھی نمٹنا ہے۔ اس کے باوجود ترقی یافتہ ممالک کو اپنا مستقبل سنوارنے کی زیادہ فکر لاحق ہے۔ ہوشمند قومیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ یوں بھی ہے کہ ترقی یافتہ اقوام صدیوں کی محنت کے نتیجے میں اس مقام تک پہنچی ہیں۔ اُنہیں اپنی محنت کا بھی اندازہ ہے اور ان صعوبتوں کا بھی جو اُنہوں نے جھیلی ہیں۔ ایسے میں وہ مستقبل کے حوالے سے فکر مند کیوں نہ ہوں؟ بہت کچھ اس طور بدل رہا ہے کہ پرانی دنیا اب کبھی دکھائی نہیں دے گی۔ اس نوعیت کی تبدیلیاں ہر قوم کیلئے چیلنج ہیں۔
امریکہ اور یورپ میں افرادی قوت کی کمی کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ معیشتوں کو بحال کرنے کی کوششیں اس لیے تیز کی جا رہی ہیں کہ مسابقت بڑھ رہی ہے۔ ترقی یافتہ اقوام کو چین، روس، بھارت، برازیل اور انڈونیشیا وغیرہ سے مسابقت درپیش ہے۔ لازم ہوگیا ہے کہ معیشتوں کو بحال کرنے کے عمل میں تیزی لائی جائے اور زیادہ سے زیادہ معیاری افرادی قوت کا حصول یقینی بنایا جائے۔ عالمی مالیاتی و تجارتی نظام پر غیر معمولی تصرف کا امریکہ اور یورپ بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ کساد بازاری سے جان چھڑانے کے لیے بلند حوصلے کے حامل کاروباری فیصلوں کی اشد ضرورت ہے۔ ایسے فیصلے خطرات کے بھی حامل ہوتے ہیں۔ کم و بیش سو سالہ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ کاروباری معاملات میں غیر معمولی حوصلے اور خطرات مول لینے کی ذہنیت کا مظاہرہ مغربی اقوام نے قابلِ رشک انداز سے کیا ہے اور اس کا ثمر بھی سمیٹا ہے۔ معیاری افرادی قوت ہر ملک کی بنیادی معاشی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ معیاری افرادی قوت ہی کسی بھی قوم کو بلندی پر لے جاسکتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ اپنی ترقی برقرار رکھنے کی خاطر ایسے اقدامات کر رہی ہیں کہ ترقی پذیر اور پسماندہ اقوام کے لیے میدان میں رہنا مشکل تر ہو جائے۔ چین، بھارت، برازیل اور انڈونیشیا کو بھی معیاری افرادی قوت کی ضرورت ہے مگر ترقی یافتہ دنیا اُن کے بہترین توانا ذہن اپنے ہاں کھپا رہی ہے۔ یہ دو دھاری تلوار والا معاملہ ہے۔ جس اقدام سے ترقی یافتہ دنیا اپنے لیے بہتری کا سامان کر رہی ہے اُسی اقدام سے پسماندہ اور ترقی پذیر اقوام کے لیے اچھی خاصی مشکلات بھی پیدا ہو رہی ہیں۔ افرادی قوت کی برآمد کے ذریعے کمزور معیشتیں اپنے آپ کو معقول حد تک مضبوط بناسکتی ہیں؛ تاہم اُن کی اپنی ترقی سے متعلق منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں کیونکہ مطلوب تناسب سے معیاری افرادی قوت میسر نہیں ہو پاتی۔ پاکستان سمیت بہت سے ممالک کا یہ ایک بنیادی مخمصہ ہے۔
یورپ کے بعض ممالک کے ساتھ ساتھ کینیڈا نے بھی دنیا بھر سے باصلاحیت اور ہنرمند نوجوانوں کو اپنے ہاں بلانے کے لیے ویزا کے علاوہ ورک پرمٹ کی شرائط بھی کافی حد تک نرم کردی ہیں۔ اِدھر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے ویزا سے متعلق بعض شرائط نرم کی ہیں۔ امریکہ اور یورپ نے یہ اقدام افرادی قوت کے حصول کے لیے کیا ہے جبکہ عرب ریاستیں زیادہ سرمایہ کاری چاہتی ہیں۔ اس اقدام کا فائدہ بھی پسماندہ ممالک کو پہنچے گا کیونکہ سرمایہ کاری بڑھنے کی صورت میں ملازمت کے مزید مواقع پیدا ہوں گے یعنی تربیت یافتہ افرادی قوت کی طلب بڑھے گی۔ جنوبی ایشیا میں بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا جبکہ مشرقِ بعید میں چین، فلپائن، تھائی لینڈ وغیرہ نے افرادی قوت کی منڈی میں غیر معمولی مسابقت پروان چڑھائی ہے۔ افرادی قوت کی برآمد میں پاکستان بھی شمار‘ قطار سے باہر نہیں مگر اس شعبے میں جس حد تک جانا چاہیے اُس حد تک جانا ممکن نہیں ہو پایا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں۔ قومی سطح پر بھرپور عزم بھی ناپید ہے اور منصوبہ بندی کا فقدان بھی راہ میں بڑی دیوار بن کر کھڑا ہوا ہے۔ ان دونوں عوامل سے کہیں بڑھ کر اوپن مارکیٹ میں مسابقت بھی غیر معمولی ہے۔ بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، تھائی لینڈ، فلپائن وغیرہ سستی افرادی قوت بہت بڑے پیمانے پر فراہم کر رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان جیسے ممالک کے لیے امکانات محدود ہوتے جارہے ہیں۔
دنیا بھر میں معاشی بحالی کے اقدامات سے جو امکانات پیدا ہوئے ہیں اُن سے مستفید ہونے کے لیے ہمیں بھی منصوبہ سازی کرنی چاہیے اور حکومتی سطح پر ایسے اقدامات کیے جانے چاہئیں جن سے ہماری نئی نسل کو بھی افرادی قوت کی اوپن مارکیٹ میں کچھ کر دکھانے کا موقع ملے۔ معیاری افرادی قوت کے باہر جانے (برین ڈرین) سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں وہ ہمیں بھی درپیش ہیں۔ اس کا تدارک اُسی وقت ممکن ہے جب ہم معیاری افرادی قوت تیار کرتے رہنے پر بھی متوجہ رہیں۔ یہ کام رکنا نہیں چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ بیرونِ ملک بہتر امکانات سے مستفید ہونے کیلئے نئی نسل کی ذہنی و نفسی تربیت بھی لازم ہے۔ بھارتی افرادی قوت محنت، دیانت اور تابعداری کے لیے معروف ہے۔ ہماری نئی نسل کو بھی اس جانب متوجہ ہونا چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved