ہر سوال کا ایک آئیڈیل جواب ہوتا ہے۔ یہ جواب تلاش کرنا کچھ ایسا مشکل نہیں ہوتا۔ جواب اس وقت مشکل ہو جاتا ہے جب اسے چند متعین حدود میں تلاش کرنا ہو۔
تین بیٹوں کا بوڑھا باپ بے سائبان اور بھوکا ہے۔ اس کے مسئلے کا حل کیا ہے؟ آئیڈیل جواب یہ ہے کہ بچے اپنی ذمہ داری پہچانیں اور باپ کو گھر لے جائیں۔ سادہ بات ہے کہ اگر بچے اپنی ذمہ داری ادا کرنے پر آمادہ ہوتے تو بوڑھا باپ بے گھر اور بھوکا کیوں ہوتا؟ ہمیں تو اس باپ کے مسائل کو حل کرنا ہے جس کی اولاد اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہے۔
پاکستان بھی ایک بوڑھے باپ کی طرح ہے۔ اگر اس کے ادارے اس طرح کام کر رہے ہوتے جیسا انہیں کرنا چاہیے تو پھر رونا کس بات کا تھا۔ پھر کوئی مسئلہ کیوں پیدا ہوتا؟ اگر ریاستی ادارے آئین کے دائرے میں اپنی ذمہ داری ادا کرتے۔ سیاست دان عوام کی اُمنگوں کی ترجمانی کرتے۔ میڈیا آزاد ہوتا تو پھر کوئی بحران نہ ہوتا۔ پھر ہر مسئلے کا سادہ حل موجود ہوتا اور زندگی رواں دواں ہوتی۔ ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ پاکستان آج غیرمعمولی صورتِ حال سے دوچار ہے۔ ہمارے پاس آئیڈیل حل موجود نہیں۔ ہمیں موجودہ حالات میں رہتے ہوئے کوئی حل تلاش کرنا ہے۔
میں جب مسئلہ بیان کرتا ہوں تو لوگ جواب میں آئیڈیل حل پیش کرتے ہیں۔ وہ اظہارِ ناراضی کرتے ہیں کہ جب ایک سیدھا سادھا حل موجود ہے تو تم پیچیدہ حل کیوں پیش کرتے ہو۔ میرا جواب یہ ہے کہ وہ حل ہمارے ذہنوں میں تو ہے‘ زمین پر کہیں موجود نہیں ہے۔ ہم بھی کبھی آئیڈیل حل ہی پیش کرتے تھے مگر وقت نے یہ سکھایا ہے کہ زندگی کبھی آئیڈیل نہیں ہوتی۔ ہم پابند ہیں کہ زمینی حقائق کی روشنی ہی میں کوئی حل تلاش کریں۔ سیاست تو سر تا پا ایک حقیقت پسندانہ عمل ہے۔ ہم جو کچھ کر سکتے ہیں‘ وہ یہ ہے کہ آئیڈیل حل سے قریب تر حل تک پہنچیں۔ یہ ایک ارتقائی عمل ہے جس میں صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔
آج ایسا نہیں ہے کہ ہمارے پاس ایک آئیڈیل حل موجود ہے اور ہم اسے نظر انداز کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آئیڈیل صورتحال تک کیسے پہنچا جائے؟ میں نے اس کے لیے ایک راستہ تجویزکیا ہے۔ ہمیں حالات کو فطری ڈگر پر لانے کے لیے ایک وقفہ چاہیے۔ اس وقفے کے دوران میں سب مل کر ملک کی سیاست اور معیشت کو پٹڑی پر چڑھا دیں۔ اس دوران میں ہماری کوشش یہ ہو کہ ریاستی ادارے اپنے آئینی کردارکی طرف لوٹ جائیں اور سیاسی جماعتیں اپنے کردارکی طرف۔ آج ریاستی اداروں کے آئینی کردار کے سامنے سوالیہ نشان ہے۔ سیاسی جماعتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سیاسی جماعت کی تعریف پر پورا نہیں اُترتیں۔ آج تحریکِ انصاف کے پارٹی الیکشن پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس ملک میں کون سی سیاسی جماعت ایسی ہے جس کا تنظیمی ڈھانچہ جمہوری اصولوں کے مطابق بنا ہے اور اس کے انتخابات قانون کے مطابق ہوتے ہیں؟
ان پانچ برسوں میں ریاستی اداروں کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اپنے آئینی دائرے کی طرف لوٹ جائیں اور سیاسی جماعتیں‘ جمہوری اصولوں کے مطابق اپنی تنظیمِ نو کریں۔ اس کے نتیجے میں ہم یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ پانچ سال بعد ہم ایک بہتر جگہ پر کھڑے ہوں گے۔ اگر ہم یہ نہیں کرتے اور سب فریق اپنی اپنی جگہ پر اسی طرح قائم رہیں جسے آج ہیں تو تصادم ناگزیر ہے۔ تصادم ظاہر ہے کہ کسی کے حق میں نہیں۔
اگر تصادم بڑھتا ہے تو سیاست میں فوج کے عمل دخل میں کمی کے بجائے اضافہ ہو گا۔ اقتدارکی سیاست فوج کے لیے جتنی مضر ہے‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔فوج جب سیاست میں کوئی کردار ادا کرتی ہے تو عملاً ایک سیاسی جماعت بن جاتی ہے۔ ہمیں جس آئیڈیل حل کی طرف بڑھنا ہے‘ اس میں سرِ فہرست فوج کے آئینی کردار کی بحالی ہے۔ ایسا کردار جو فوج کو غیر متنازع بناتا اور اس کے وقار کا تحفظ کرتا ہے۔ یہ ایک دم نہیں ہو گا۔ اس کے لیے وقت چاہیے۔ میری تجویز میں یہ وقت پانچ سال ہے۔ یہ پانچ سال فوج کو یہ موقع فراہم کریں گے کہ وہ خود کو سیاست کے دلدل سے نکال کر اس شفاف مقام پر لاکھڑا کرے جہاں وہ ہر سیاسی جماعت کی نظر میں یکساں احترام کی مستحق سمجھی جائے۔ یہ مقصد تصادم سے حاصل نہیں ہو گا۔
پاکستان کو جن بڑے مسائل کا سامنا ہے‘ ان میں سرِ فہرست سول ملٹری تعلقات ہیں۔ ہمیں وہ وقفہ چاہیے جس میں ان پر نئے سرے سے غور ہو اور تدریجاً اس تعلق کو قائداعظم کے ارشادات اور آئینِ پاکستان کی روشنی میں ہمیشہ کے لیے طے کر دیا جائے۔ پانچ سال میں پارلیمنٹ میں بیٹھی سیاسی قوتوں کو یہ موقع ملے گا کہ اس معاملے کو سیاسی طور پر اور اتفاقِ رائے کے ساتھ طے کر دیں۔ اسی طرح فوج بھی آہستہ آہستہ اپنی صفوں کی ترتیبِ نو کر سکے گی۔ اگر ہم پانچ سال میں اس مسئلے کو حل کر پائیں تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔اس کا تمام تر انحصار سیاسی قیادت کی بصیرت پر ہے۔
دوسرا بڑا مسئلہ سیاسی جماعتوں کا نہ ہونا ہے۔ اس وقت جو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں‘ ان کو 'سیاسی جماعت‘ قرار دینا مشکل ہے۔ یہ دراصل شخصیات کے گرد گھومنے والے گروہ ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ انہیں سیاسی عصبیت حاصل ہے لیکن ترقی یافتہ معاشروں میں یہ عصبیت شخصیات سے جماعتوں کو منتقل ہو چکی۔ سیاسی ارتقا کے لیے یہ لازم ہے۔ ان پانچ سالوں میں انہیں بھی یہ موقع ملے گا کہ وہ خود کو سیاسی جماعت بنائیں۔ سیاسی جماعتیں کسی منشور اور آدرش کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں اور ان میں ایک جمہوری نظام ہوتا ہے جو باصلاحیت لوگوں کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ قیادت کے منصب پر فائز ہوں۔ اس سے سیاسی جماعتیں موروثی نہیں بنتیں اور ان میں ارتقا کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔
(ن) لیگ سیاسی جماعت نہیں بن پائی۔ اسی وجہ سے نواز شریف صاحب کی سیاسی مہم 'ووٹ کو عزت دو‘ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پائی اور اس جماعت کو شہباز شریف صاحب کے بیانیے کی طرف لوٹنا پڑا۔ عمران خان صاحب کے لیے بھی مختلف نتائج نہیں نکل سکتے۔ ان کا معاملہ تو سنگین تر ہے کہ ان کی سیاسی داستان میں اب 9مئی کی تاریخ بھی شامل ہے۔ مزید یہ کہ تحریکِ انصاف کلٹ کی صورت اختیار کر چکی۔ اس کی زندگی عمران خان صاحب تک ہے اگر اس نے خود کو سیاسی جماعت میں نہ ڈھالا۔ یہ پانچ سال اسے موقع دیں گے کہ وہ بھی نئی صف بندی کرے۔
آج فوج‘ (ن) لیگ اور تحریکِ انصاف کو بطورِ خاص اپنے اپنے طرزِ عمل پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی کا کارکن سیاسی طور پر زیادہ باشعور ہے لیکن بدقسمتی سے قیادت اسے ایک متحرک جماعت نہیں بنا سکی۔ اگر وہ چاہے تو اس وقفے سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن بھی چاہیں تو اس سوال پر غور کر سکتے ہیں کہ ایک مسلکی جماعت‘ کیا ایک قومی سیاسی جماعت بن سکتی ہے؟ گویا یہ وقت سب کے لیے موقع ہے کہ اپنی اپنی اصلاح کریں۔
پاکستان میں کسی سنجیدہ بحث کا رواج نہیں رہا۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ تجویز بھی کہیں زیرِ بحث نہیں آئے گی۔ تاہم ایک لکھنے والے کے لیے باعثِ آسودگی ہے کہ اس نے اپنے فہم کے مطابق مقتدر قوتوں کو اس بھنور سے نکلنے کا ایک راستہ دکھایا تھا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved