تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     13-01-2024

ڈسٹریکشن

آج طالب علموں اور نئی نسل کے لیے سب سے بڑا چیلنج ڈسٹریکشن یا خلل ہے۔ وہ سوچے سمجھے بغیر کچھ بھی کرنے لگتے ہیں یا اکثر اپنے راستے سے ہٹ جاتے ہیں۔ ماضی میں ایسا بہت کم ہوتا تھا۔ اِدھر اُدھر کی خرافات‘ انٹرٹینمنٹ کے مواقع‘ کمیونیکیشن کے ذرائع اور ٹرانسپورٹ اتنی جدید اور تیز نہ تھیں اس لیے طالب علم زیادہ آسانی کے ساتھ اپنی پڑھائی اور کام پر فوکس کر پاتے تھے۔ پڑھائی کے ساتھ تفریح ضرور ہوتی تھی لیکن اس کے انداز مختلف تھے۔ زیادہ تر بچے پارکس‘ کھلے میدانوں یا سڑکوں پر کھیلنے کو ترجیح دیتے تھے۔ آج کل تو کرکٹ بھی عوامی سطح پر کم کم کھیلی جانے لگی ہے لیکن تب بچے کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیل بھی کھیلنے کی کوشش کرتے تھے۔ جیسے کہ فٹ بال‘ ہاکی‘ بیڈمنٹن وغیرہ۔ ایسے کھیل کھیلنے سے وہ جسمانی طور پر فٹ رہتے تھے‘ انہیں بھوک بھی زیادہ لگتی اور نیند بھی وقت پر آ جاتی تھی۔ آج کی نسل مگر نئے چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔ فزیکل کھیلوں کی جگہ سکرین اور سکرین ٹائم نے لے لی ہے۔ ہر چیز کو جدید بنانے کے چکر میں جسم اور دماغ کا بیڑہ غرق ہو رہا ہے۔ ایسی وِڈیو گیمز کھیلنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جنہیں کھیلنے سے نہ صرف دماغی سکون غارت ہو جاتا ہے بلکہ نیند کی کمی اور دیگر نفسیاتی عوارض بھی حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ صرف ایسی گیمز کی بات نہیں بلکہ مجموعی طور پر موبائل فون کی سکرین بھی شدید مضر اثرات کی حامل ہے۔ گیمز تو زیادہ تر بچے یا ٹین ایجر کھیلتے ہیں لیکن موبائل فون سے تو اب دو سال سے لے کر ادھیڑ عمر کے افراد تک‘ سبھی چپکے رہتے ہیں۔ چلیں‘ جس کا کیریئر بن گیا اور وہ کوئی جاب یا بزنس کر رہا ہے‘ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو شاید اسے اتنا نقصان نہ ہوتا ہو جتنا ایسے بچے یا طالب علم کا ہو رہا ہے جو ابھی کیریئر بنانے کے دور میں ہے۔ آج جو لوگ چالیس‘ پچاس یا ساٹھ برس کے ہیں وہ ذرا سوچیں کہ اگر وہ آج کے دور میں پل بڑھ رہے ہوتے اور انہیں پڑھائی کے دوران اتنی زیادہ ڈسٹریکشن یا خلل کا سامنا کرنا پڑتا تو ان کا کیا حال ہوتا۔ ابھی تو ہم کسی ضروری کام سے موبائل اٹھاتے ہیں کہ بجلی کا بل جمع کرانا ہے یا کسی کو ضروری پیغام بھیجنا ہے مگر یہ کرتے کرتے بھی اکثر آدھ‘ پون گھنٹہ اِدھر اُدھر کی وڈیوز‘ ریلیز اور دیگر میٹریل دیکھنے میں ضائع ہو جاتا ہے۔ کئی بار تو یہ تک یاد نہیں رہتا کہ فون اٹھایا کس مقصد کے لیے تھا۔ بڑوں کا یہ حال ہے تو بچوں اور نوجوانوں کو کتنی مشکل پیش آتی ہو گی‘ وہ کتنی مشکل سے خود کو موٹیویٹ اور فوکسڈ رکھ پاتے ہوں گے‘ اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
ہر آنے والے سال میں جدید سے جدید گیجٹس سامنے آ رہے ہیں اور ہمارے لیے ضروری بھی بنتے جا رہے ہیں، جیسے کہ اب چیٹ جی پی ٹی طالبعلم بھی اسی طرح استعمال کر رہے ہیں جیسے کہ پروفیشنلز، بلکہ پڑھائی کے لیے اس کا استعمال کچھ زیادہ ہی ہو رہا ہے۔ کوئی ای میل لکھنی ہو‘ کسی موضوع پر پانچ سو الفاظ کا آرٹیکل درکار ہو تو جھٹ سے آرٹیفشل انٹیلی جنس کے اس ٹُول کو ایسے حکم دیا جاتا ہے جیسے کہانیوں میں الہ دین کے چراغ کو رگڑا جاتا تھا کہ میرا فلاں کام کر دو اور جھٹ پٹ میں وہ کام ہو جاتا تھا۔ الہ دین کا چراغ اور جن تو ایک افسانوی کہانی کا حصہ ہیں لیکن چیٹ جی پی ٹی تو ایک حقیقت ہے جسے لاکھوں‘ کروڑوں لوگ روزانہ استعمال کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ چیزیں اتنی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں کہ سکول کالج حتیٰ کہ یونیورسٹی کی کتابوں میں بھی بہت سی جدید چیزوں کے بارے میں معلومات موجود نہیں ہیں۔ اِدھر اُدھر سے خود ہی سیکھ کر سبھی ان کو استعمال کر رہے ہیں اور لامحالہ یہ سب کچھ اپنی زندگی کو آسان بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ مسئلہ مگر وہی ہے کہ اتنی زیادہ چیزیں آ رہی ہیں کہ بچوں اور نوجوانوں کو خود پتا نہیں چل رہا کہ کون سی چیز کا استعمال کریں‘ کب کریں اور کتنی دیر تک کے لیے کریں۔ انہیں سکول‘ کالج کا کام بھی کرنا ہے اور اس کے لیے موبائل فون بھی استعمال کرنا ہے کیونکہ ضروری نوٹس کسی دوست سے منگوانے ہیں یا کسی مضمون میں کوئی بات سمجھ نہیں آ رہی تو اس بارے انٹرنیٹ پر تلاش کرنا ہے‘ اب ہر کام کے لیے موبائل فون ضروری ہے بلکہ اب تو ہر کلاس کے وٹس ایپ گروپس بنے ہوتے ہیں اور ضروری اطلاعات انہی گروپس میں شیئر کر کے سمجھا جاتا ہے کہ پیغام سب طالبعلموں تک پہنچ گیا ہے۔ اسی طرح اساتذہ کے ساتھ بھی چیٹ گروپس بنے ہوئے ہیں جہاں بچے اپنے اساتذہ سے کوئی بات پوچھ سکتے‘ کوئی سوال سمجھ سکتے ہیں۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے‘ یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ ماضی میں کوئی طالبعلم ریسرچ پیپر کے لیے ریفرنس بکس کی مدد لیتا تھا‘ لائبریری جاتا تھا اور میل ملاقات کے ذریعے اپنے مسئلے کا حال کھوجنے کی جستجو کرتا تھا۔ مگر تب وہ کوئی کتاب اٹھاتا تھا‘ فہرست دیکھتا تھا‘ اس کی ورق گردانی کرتا تھا اور مطلوبہ مواد ملنے پر اسے یا تو اپنے پاس رجسٹر میں نقل کر لیتا تھا یا اس کی فوٹو کاپی کرا لیتا تھا۔ تب اس کے سامنے ڈسٹریکشن یا خلل کی لہریں اس زور سے نہیں آتی تھیں جس طرح آج آتی ہیں۔ مثلاً جیسے ہی آپ نے موبائل یا کمپیوٹر سکرین کو آن کیا تو پہلے درجنوں نوٹیفکیشنز ٹَھک ٹَھک کر کے آپ کے سامنے کھلتے چلے جائیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تقریباً وہی نوٹیفکیشن ہوں گے جن ویب سائٹس‘ ایپس یا ویب چینلز کو آپ نے سبسکرائب کیا ہو گا اور اس بارے میں جیسے ہی کوئی نئی چیز آئی ہو گی‘ سب سے پہلے وہ آپ کا استقبال کرے گی۔ اسی طرح کچھ نوٹیفکیشن موسم‘ کسی کی سالگرہ‘ کسی نئی گاڑی کی لانچنگ یا بریکنگ نیوز سے متعلق ہوں گے‘ یا پھر گوگل خود سے آپ کو مشورہ دے رہا ہو گا کہ آپ کے فون پر اتنی موبائل ایپس کھلی ہوئی ہیں یا فلاں فلاں ایپس اتنے عرصے سے استعمال نہیں ہوئیں اور اس سے بیٹری کا ضیاع ہو رہا ہے۔ اب آپ ان ایپس کو بند کرنے لگ جائیں گے یا فون سے نکالنے کی کوشش کریں گے تاکہ فون کی سپیس خالی ہو سکے۔ یہ ڈسٹریکشن یا خلل کی پہلی سٹیج‘ پہلا مرحلہ یا وہ جال ہے جو شکار سے پہلے اپنے شکار کو پھانسنے کے لیے شکاری پھینکتا ہے۔ اگر آپ ہرن کی طرح ہوشیار ہوئے تو اس مرحلے میں بچ کر چوکڑیاں بھرتے نکل جائیں گے۔ بصورتِ دیگر آدھ پون گھنٹہ کہیں نہیں گیا۔
اس مسئلے سے نکلنے کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ ترجیحات سیٹ کرکے چلا جائے۔ کوئی طالب علم ہے یا نوکری پیشہ یا عام فرد‘ اگر وہ اپنے دن کے آغاز کے ساتھ ہی یا رات کو سوتے وقت ہی اگلے دن کے کاموں کی ٹاسک لسٹ بنا لے گا تو اسے شاید اتنی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور نہ ہی وہ ڈسٹریکٹ ہو گا۔ پھر اسے یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ گزشتہ روز کتنے ٹاسک پورے ہوئے اور اگر نہیں ہوئے تو وجہ کیا تھی۔ کتنی دیر موبائل فون کس کام کیلئے استعمال ہوا‘ یہ دیکھنا نہایت آسان ہے اور یہ فیچر تقریباً ہر موبائل میں موجود ہوتا ہے۔ سیٹنگز میں جا کر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ پورا دن یا پورا ہفتہ کس کس موبائل ایپ پر کتنا وقت صرف کیا گیا۔ مزید آسانی کیلئے آپ اپنے ٹاسکس کا پرنٹ لے لیں یا پھر انہیں کسی کاغذپر لکھ کر اپنے سامنے رکھ لیں اور ہر ٹاسک کے سامنے اس کا ممکنہ وقت لکھ لیں کہ اسے کتنے وقت میں مکمل کیا جانا چاہیے۔ جیسے کوئی طالب علم اپنے مضامین کا کام کرتا جائے‘ وہ انہیں ٹِک کرتا جائے۔ اس طرح اگر وہ موبائل فون پڑھائی میں مدد کیلئے استعمال کرتا ہے تو اسے اندازہ رہے گا کہ کسی کام کیلئے گیجٹس سے مدد لی جائے تب کتنا وقت لگتا ہے اور اگر اس دوران وہ بھٹکتا ہے تو کون سی ایپس کھولتا ہے یا کیا دیکھتا ہے‘ یہ تمام حساب کتاب اس کے سامنے آتا رہے گا۔ ابتدائی کچھ دن مشکل ہو گی لیکن آہستہ آہستہ وہ عادی ہو جائے گا اور اسے پتا ہو گا کہ ڈسٹریکشن اگر ہوتی ہے تو کیسے‘ اور اس سے فوری باہر کیسے نکلنا ہے اور دوبارہ اپنے کام پر فوکس کس طرح کرنا ہے۔
یہ نظرانداز کرنے والا مسئلہ نہیں ہے بلکہ آپ دیکھیں گے کہ آئندہ پانچ سے دس برسوں میں پڑھائی‘ کام اور زندگی کے اہم معمولات سے ڈسٹریکشن‘ خلل یا بھٹک جانے سے متعلق نفسیاتی مسائل میں بے انتہا اضافہ ہو نے والا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اگر ہم نے خود نہ سمجھا اور اپنے بچوں اور نوجوانوں کو اس سے نمٹنے کے لیے تیار نہ کیا تو یہ نفسیاتی مسائل زندگی جینا بھی عذاب کر سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved