طالبان آسمان سے نہیں اترے۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک صبح اچانک کچھ نوجوانوں نے اعلان کیا کہ ہم طالبان ہیں اور ہمیں آج معلوم ہوا ہے کہ جمہوریت کفرہے اور پاکستان کے آئین کی کوئی حیثیت نہیں۔ بسا اوقات ہم آنکھیں موند لیتے ہیں۔اس سے ہماری اپنی دنیا تاریک ہوجاتی ہے تاہم اس دنیا کا وجود جوں کا توں رہتا ہے جسے لاکھوں کروڑوں انسانوں کی کھلی آنکھیں دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ ہم اہلِ پاکستان وہ سچائیاں جو روز روشن کی طرح واضح ہیں ، نہیں مانتے۔ کبھی خوف کے مارے ،کبھی مصلحتاً ،کبھی مروت کی وجہ سے ، لیکن ؎ گر نہ بیند بروز شپرہ چشم چشمہ ٔآفتاب را چہ گناہ چمگادڑ کی آنکھ دن کو نہیں دیکھ سکتی لیکن اس سے سورج کو کیا فرق پڑتا ہے؟ طالبان کی پشت پر ایک نظریہ ہے ،ایک فلسفہ ہے ،ایک طرز فکر ہے اوراساتذہ اور شیوخ کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ ہزاروں مدارس ہیں اور ان میں پڑھانے والے ہزاروں اساتذہ ہیں۔ لاکھوں کروڑوں لوگ ان مدارس سے فارغ التحصیل ہوکر معاشرے کی مختلف سطحوں پر زندگی بسر کررہے ہیں ۔ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں مدارس سے نکلا ہوا تازہ خون آبادی کے اس حصے میں شریک ہوتا ہے۔ یہاں ہم ایک اہم نکتہ قارئین کے گوش گزار کریں گے ۔ہمارے پڑھنے والوں میں طالبان کے حامی بھی ہیں اور مخالف بھی۔ کالجوں ، یونیورسٹیوں کے ہم نوا بھی ہیں اور مدارس کے مداح بھی۔ ہم ان سطور میں اپنی رائے دینے سے مکمل احتراز کررہے ہیں اور محض وہ حقیقتیں بیان کرنے کی کوشش کررہے ہیں جن سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ جس مسلک فکر کی نمائندگی تحریک طالبان پاکستان کررہی ہے ،اس کے مدارس کی صحیح تعداد شاید کسی کو نہ معلوم ہو ،یہ مدارس پاکستان کے ہر شہر، ہر قصبے ، ہر گائوں میں کام کررہے ہیں ۔ان مدارس میں برصغیر کی تاریخ تو دور کی بات ہے برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ تک نہیں پڑھائی جاتی۔ برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ تو کجا ، تحریک پاکستان ہی نصاب میں شامل نہیں۔ یہ بات اچھی ہے یا بری ، اس سے بحث نہیں لیکن حقیقت حال یہی ہے۔ کیا مدارس کے طلبہ کو بتایا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے یہ ملک کس طرح حاصل کیا؟ قائداعظم نے کس طرح بیک وقت برطانوی حکومت اور ہندو کانگریس سے مقابلہ کیا؟ 1946ء کے انتخابات میں کیا ہوااور یہ جمہوریت ہی تھی جس نے قیام پاکستان کی راہ ہموار کی ؟ جمہوریت کو کفر صرف طالبان نہیں کہہ رہے ،جو مسلّح ہیں اور وزیرستان اور قبائلی علاقوں پرعملاً حکمرانی کررہے ہیں ، کروڑوں پاکستانی جمہوریت کو کفر سمجھتے ہیں ۔یہ آبادی کا وہ حصہ ہے جو مدارس میں پڑھ رہا ہے ،پڑھا رہا ہے ،مدارس سے پڑھ کر معاشرے میں مصروف عمل ہے ۔پھر ان میں لاکھوں کروڑوں پاکستانی وہ بھی ہیں جو مدارس میں نہیں پڑھے ، لیکن علماء کے خطبات اور تقاریر سنتے ہیں اور ان کے طرز فکر کو اپناتے ہیں ۔یہ کروڑوں لوگ ہر اس شخص کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں جو جمہوریت کے خلاف بولتا یا لکھتا ہے ۔انہیں اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ جمہوریت کا متبادل کیا ہے ۔ان کا اس امر پر پختہ یقین ہے کہ جمہوریت کی نفی اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے ۔یہاں منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے اس ای میل کا ذکر دلچسپی سے خالی سے نہ ہوگا جو اس کالم نگار کو کچھ عرصہ قبل بیرون ملک سے موصول ہوئی۔ ایک صاحب نے سادہ دلی سے لکھا کہ فلاں صاحب جمہوریت کے خلاف مسلسل لکھ رہے ہیں۔ میں نے کئی ای میلوں میں ان سے گزارش کی ہے کہ از راہ کرم جمہوریت کا متبادل بھی بتائیے تاکہ ہماری رہنمائی ہو لیکن وہ کسی ای میل کا جواب مرحمت نہیں کرتے ۔‘‘ ایک اور واقعہ نہیںبھولتا ۔میلبورن میں ایک صاحب ہیں جو کسی زمانے میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد میں کام کرتے تھے ۔انہوں نے بتایا کہ سائنس کے کسی شعبے میں پی ایچ ڈی ہیں ۔ کبھی کبھی اپنی تشریف آوری سے عزت افزائی کرتے ہیں۔ غالباً کچھ عرصہ انڈونیشیا میں پڑھایا لیکن افتا د طبع ایسی ہے کہ فارغ کردیئے گئے ۔ان دنوں میلبورن میں ویگن چلاتے ہیں جو ٹیکسی ہی کی ایک شکل ہے۔ ایک دن تشریف لائے اور حکم دیا کہ چلو فلاں مسجد میں جماعت آئی ہوئی ہے۔ میلبورن میں فاکنر مسجد ان سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ ہم وہاں ایک گروہ کے ساتھ بیٹھ گئے جہاں زیادہ تر اصحاب ہمارے ان دوست کے جاننے والے تھے ۔دوران گفتگو ایک بزرگ نے فرمایا کہ جمہوریت کفر ہے اور یہی مسائل کی جڑ ہے۔عرض کیا بالکل درست ۔صرف یہ ہے کہ متبادل بتانا پڑے گا کیونکہ لوگ پوچھیں گے ۔ان کا جواب مختصر اور دو ٹوک تھا : اللہ کے راستے میں نکلیں گے تو سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ دفعتاً ایک خیال برق کی طرح چمکا۔ پوچھا ،کیا آپ آسٹریلوی شہری ہیں۔ فرمایا ،الحمدللہ شہریت ملی ہوئی ہے۔ پھر عرض کیا کہ کیا آپ نے اس ملک کا شہری بننے کے لیے حلف اٹھایا تھا۔ فرمایا جی ہاں ! اور الحمدللہ قرآن پاک پر حلف اٹھایا تھا۔ بائبل پر نہیں ، اب عرض کیا کہ حلف اٹھاتے وقت ایک پیمان آپ نے قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر یہ بھی باندھا تھا کہ جمہوریت اور جمہوری اقدار کی پاسداری کروں گا! لیکن اب آپ جمہوریت کے خلاف ہیں ۔ایک سناٹا تھا جو مجلس پر چھا گیا ،یہاں تک کہ ہمارے دوست نے زانو دبا کر مزید ’’ گستاخی ‘‘ سے منع کردیا۔ وہاں اور دوسرے ’’ جمہوری‘‘ ملکوں میں کون کون لوگ خیراتی رہائش گاہوں میں رہتے ہیں ،گزارہ الائونس لیتے ہیں ،ان کے مشاغل کیا ہیں ،ظاہر کیسا ہے اور دعویٰ کیا ہے؟ یہ ایک الگ داستان ہے طویل ہے ،اور آج کے موضوع سے باہر ہے! پاکستان کے آئین کو حرام صرف طالبان نہیں قرار دے رہے ۔طالبان تو بہت قلیل تعداد میں ہیں ان کی پشت پر لاکھوں کروڑوں پاکستانی ہیں ،ہزاروں مدارس ہیں اور ان مدارس میں پڑھانے والے ہزاروں لاکھوں قابل احترام اساتذہ ہیں۔ یہ الگ بات کہ اکثریت نے آج تک آئین کو کھول کر پڑھنا تو درکنار، شکل بھی نہیں دیکھی۔ بہت سوں کے ذہن میں تو آئین کا تصور یہ ہے کہ یہ ایک ایسی کتاب ہوگی جس میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ناقابلِ برداشت مواد درج ہوگا! کتنے مدارس ہیں جہاں آئین پاکستان کا ایک عدد نسخہ موجود ہوگا؟ یہ خبر تواتر سے آرہی ہے کہ مدارس کے سینئر اور قابل احترام اساتذہ طالبان سے مذاکرات کررہے ہیں ۔ نہیں معلوم یہ خبر واقعاتی اعتبار سے کہاں تک درست ہے، لیکن دلچسپ معاملہ یہ ہے کہ کیا یہ محترم اساتذہ ،یہ جید علماء کرام خود جمہوری نظام حکومت سے اتفاق فرماتے ہیں ؟ آئینِ پاکستان کو تسلیم فرماتے ہیں ؟ بانی پاکستان محمد علی جناح کے بارے میں ان کے خیالات کیا ہیں ؟ ان کی اکثریت تو اس لقب (قائداعظم) ہی سے اتفاق نہیں کرتی جو برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت نے اس لیڈر کو دیا!! طالبان جیسی تحریک کسی اور مسلمان ملک میں نہیں ابھری۔ اس لیے کہ یہ لکیر جس نے اہلِ پاکستان کو دو دھڑوں میں تقسیم کررکھا ہے کسی اور مسلمان ملک میں نہیں پائی جاتی۔ مدارس کی دنیا الگ ہے۔ کروڑوں عوام سے خطاب کرنے والے خطیب اور آئمہ حضرات اپنی اپنی صوابدید کے مطابق اپنے اپنے نکتہ نظر کا پرچار کرتے ہیں ۔یہ صورت حال سعودی عرب میں ہے ،نہ متحدہ عرب امارات میں ، ترکی میں ہے ،نہ ملائیشیا میں ۔دو متوازی… دو متحارب …دو مکمل طور پر مختلف دنیائیں۔ کہیں بھی نہیں ۔ صرف پاکستان میں ہیں۔ پاکستان میں ایک نہیں دو پاکستان ہیں۔ایک پاکستان کی نمائندگی پاکستانی ریاست اور پاکستانی مسلح افواج کررہی ہیں،دوسرے پاکستان کی نمائندگی مدارس اور طالبان کررہے ہیں ۔اللہ کے بندو ! مذاکرات سے وہ لکیر نہیں ختم ہوسکتی جو دو دنیائوں کے درمیان کھینچی ہوئی ہے لیکن افسوس ! یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آسکتی جو جال پانی کی سطح پر پھینک رہے ہیں جب کہ مسئلے کی کنجی تہہ میں ہے!!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved