عام انتخابات مؤخر یا چند ماہ تک ملتوی ہونے کے تاثر کے باوجود انتخابی عمل آگے بڑھ رہا ہے۔ انتخابی نشان الاٹ اور امیدواروں کی حتمی فہرست جاری ہو چکی ہے‘ سیاسی جماعتوں نے بھی امیدواروں کو پارٹی ٹکٹس جاری کر دیئے ہیں‘ میاں نواز شریف‘ شہباز شریف‘ بلاول بھٹو‘ مولانا فضل الرحمان‘ سراج الحق سمیت اہم رہنما کس حلقے سے انتخابات میں حصہ لیں گی اس کی حتمی تفصیلات سامنے آ چکی ہیں۔ اب امیدوار پارٹی ٹکٹ اور انتخابی نشان کے ساتھ اپنے حلقوں میں انتخابی مہم شروع کریں گے اور چند روز پہلے تک جو کہا جا رہا تھا کہ انتخابی ماحول دکھائی نہیں دے رہا امید ہے اب روایتی انتخابی ماحول بھی دیکھنے کو ملے گا‘ تاہم الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے ابہام اب بھی برقرار ہے اور لوگ تجسس بھری نظروں سے سوال کرتے ہیں کہ کیا انتخابات ہو جائیں گے؟ انتخابات نہ ہونے کے خدشات کی وجہ یہ ہے کہ الیکشن سے متعلق بعض امور ابھی تک عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن خودمختار ادارہ ہے اس لئے انتخابات سے متعلق تمام معاملات کمیشن میں حل ہونے چاہئیں تھے مگر الیکشن کی تاریخ کے اعلان سے لے کر سیاسی جماعتوں کے دیگر معاملات عدالتوں کے ذریعے حل ہو رہے ہیں‘ یہ عوامل کمزور جمہوری نظام کی عکاسی کرتے ہیں جس کی ذمہ داری اہلِ سیاست پر عائد ہوتی ہے کہ انہوں نے جمہوری اقدار کو مضبوط کرنے کیلئے قانون سازی کیوں نہیں کی۔ جمہوری معاشروں میں اداروں کو بااختیار بنا کر نظام کو مضبوط بنایا جاتا ہے جبکہ ہم آج بھی شخصیت کے سحر سے نکل کر سوچنے کیلئے تیار نہیں۔ نیب احتساب کا ادارہ ہے جسے ہر حکومت نے حریفوں کے خلاف استعمال کیا‘ ہر اپوزیشن نے نیب قوانین میں اصلاحات کا مطالبہ کیا لیکن جب وہی سیاستدان اپوزیشن سے حکومت میں آ گئے تو انہوں نے نیب قوانین میں اصلاحات کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ سیاستدان اپنے حصے کا کام نہیں کرتے تو خود بھی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں اور ملک و قوم کو بھی اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ سیاستدانوں کو پارلیمان کے امور میں مداخلت سے ہمیشہ شکوہ رہا ہے‘ یہ شکوہ بہت حد تک بجا بھی ہے کیونکہ کبھی مارشل لاء لگا کر اور کبھی عدلیہ کے ذریعے پارلیمان سے اختیارات چھینے گئے لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ کبھی ایک کبھی دوسری سیاسی جماعت نادیدہ قوتوں کو کندھا فراہم کرتی رہی۔ الیکشن 2018ء میں مسلم لیگ (ن) کو شکوہ تھا کہ ایک لاڈلے کو اقتدار میں لانے کیلئے ان کے ووٹ پر ڈاکا ڈالا گیا‘ آج تحریک انصاف کو شکایت ہے کہ اسے انتخابات سے باہر کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ عمومی تاثر ہے کہ جس طرحبانی پی ٹی آئی کو لایا گیا اسی طرح سے آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ( ن) کیلئے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ ایک ہی کہانی کو جب ہر کچھ عرصہ کے بعد من و عن دہرایا جاتا ہے تو حقیقی جمہوری اقدار کیسے مضبوط ہوں گی؟
جمہوریت کا تصور عوام کی حکمرانی پر مبنی ہے‘ جہاں ووٹ کے ذریعے عوام اپنے نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں اور انہیں فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کرتے ہیں۔ یہ تصور صرف کاغذ پر ہی خوبصورت نہیں لگتا‘ بلکہ اس کی حقیقی اہمیت ووٹ کے احترام اور انتخابی عمل میں رائے دہندگان کی فعال شرکت سے جھلکتی ہے۔ ووٹ عوام کو اقتدار عطا کرتا ہے۔ وہ اپنے ووٹ کے ذریعے فیصلہ کرتے ہیں کہ کون ان کی نمائندگی کرے گا اور ان کے مسائل کو حل کرے گا۔ یہی وہ طاقت ہے جو حکمرانوں کو عوام کے سامنے جوابدہ بناتی ہے اور انہیں عوام کی خواہشات کے مطابق کام کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ ووٹ کے ذریعے ہر فرد کو یہ یقین ہوتا ہے کہ ان کی آواز سنی جائے گی اور ان کی رائے کو اہمیت دی جائے گی۔ یہ مساوات اور انصاف کی ضمانت ہے‘ کیونکہ ووٹ کے ذریعے ہر فرد کو اپنے حقوق کے تحفظ کا موقع ملتا ہے۔ جب عوام اپنے ووٹ کو اہمیت دیتے ہیں اور اسے آزادانہ اور ذمہ دارانہ طور پر استعمال کرتے ہیں تو اس سے احترام اور ذمہ داری کا کلچر پروان چڑھتا ہے۔ یہ کلچر ہی جمہوری نظام کی بنیاد ہے اور اسے مضبوط بناتا ہے‘ اس لئے جمہوری اقدار کے لیے آزاد اور منصفانہ انتخابات ناگزیر ہیں۔ عوام کو ایسا ماحول فراہم کرنا جہاں وہ کسی دباؤ یا خوف کے بغیر اپنے ووٹ کا استعمال کر سکیں اہلِ سیاست کی اولین ذمہ داری ہونی چاہئے۔ اس کے لیے غیر جانبدارانہ اور منصفانہ الیکشن کمیشن‘ آزاد عدلیہ اور مضبوط جمہوری اداروں کی ضرورت ہے۔ عوام کا سیاسی شعور اور آگاہی بھی انتہائی اہم ہے۔ وہ اپنے ووٹ کا استعمال جذبات یا نعروں کی بنیاد پر نہیں بلکہ امیدواروں کی پالیسیوں‘ ان کے ماضی کی کارکردگی اور ان کے مستقبل کے وعدوں کے جائزے کے بعد کریں۔ یہی ذمہ دارانہ ووٹنگ جمہوری نظام کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ووٹ سے ہی مختلف طبقات اور اقلیتوں کو حکومتی فیصلوں میں نمائندگی ملتی ہے۔ جب کوئی شخص اپنے قبیلے‘ طبقے یا عقیدے سے تعلق رکھنے والے فرد کو پارلیمنٹ میں دیکھتا ہے تو اس سے حکومت اور جمہوری عمل پر اس کا یقین بڑھتا ہے۔ عوام کو سمجھنا چاہیے کہ ان کا ووٹ کوئی معمولی چیز نہیں‘ یہ تبدیلی کا ایک طاقتور ہتھیار ہے۔ اسے ذمہ داری سے استعمال کرنا ہی جمہوری اقدار کو مضبوط اور عوام کے لیے فائدہ مند بناتا ہے۔ جب حکومتیں بار بار تبدیل ہوتی ہیں یا ملک میں سیاسی عدم استحکام ہوتا ہے تو لوگوں کا یقین جمہوری عمل پر کمزور پڑتا ہے۔ وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ووٹ دیا بھی تو کیا فائدہ‘ حکومتیں تو بدلتی ہی رہتی ہیں۔ آزاد الیکشن کمیشن اور دھاندلی سے پاک انتخابات سے ہی لوگوں کا ووٹ پر یقین بحال ہو گا۔
پاکستان کے معروضی حالات کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ سیاسی جماعتیں اور ووٹرز قدیم سوچ پر قائم ہیں۔ سیاسی جماعتیں ٹکٹس کی تقسیم میں پرانے چہروں کو ترجیح دیتی ہیں‘ ہر پارٹی کو ٹکٹس کی تقسیم کے معاملے پر اندرونی اختلافات کا سامنا ہے‘پارٹی ٹکٹ نہ ملنے والے امیدوار آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں سکیورٹی چیلنجز بھی ہیں‘ ایسے میں منصفانہ انتخابات کا انعقاد کسی چیلنج سے کم نہیں۔ ویسے تو ہر ہارنے والا امیدوار ہی کہتا ہے کہ دھاندلی ہوئی تاہم ماضی میں ہونے والے انتخابات اور حالیہ انتخابات میں کئی حوالوں سے فرق ہو گا۔ سمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے دور میں آسانی سے چیزوں پر پردہ نہیں ڈالا جا سکے گا۔ ماضی میں پریزائیڈنگ افسران کی ملی بھگت سے فارم 45 اور46کے غائب ہونے کی اطلاعات ملتی رہیں‘ فروری 2021ء میں ڈسکہ این اے 75 کے ضمنی انتخابات میں 20پریزائڈنگ افسران دھند میں غائب ہو گئے ‘ اب اس پیمانے پر دھاندلی ممکن نہیں ہو گی۔تادم تحریر سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور بلے کے انتخابی نشان کے کیس کی سماعت مکمل ہوچکی ہے اور فیصلہ محفوظ کرلیا گیا ہے ۔ بلے کا نشان ملنے کی صورت میں پی ٹی آئی کی پوزیشن مضبوط ہو گی اور کسی حد تک اُس گلے شکوے بھی کم ہو جائیں گے‘ لیکن اگر پی ٹی آئی کو اس کا انتخابی نشان نہیں ملتا تو پارٹی کیلئے اس کے اثرات خارج از امکان نہیں ۔ خوش آئند یہ ہے کہ تمام تر تحفظات کے باوجود پی ٹی آئی الیکشن سے راہ فرار اختیار نہیں کر رہی ۔ الیکشن کے مراحل میں پیش رفت اور ابہام شاید طے شدہ سٹریٹجی کے تحت ہے تاکہ الیکشن بھی ہو جائیں اور الیکشن ملتوی کرانے والی پس پردہ قوتیں موضوع بحث بھی نہ بنیں‘ یہ اسی صورت ہو سکتا تھا جب توجہ دوسری جانب مبذول رہے اور اگر الیکشن کے بعد عدم استحکام جاری رہتا ہے تو اس صورت میں بھی جواز ہو کہ ہم نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ الیکشن کیلئے حالات سازگار نہیں تھے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved