انتخابات قریب ہیں‘ ایسے میں اداروں کا مضبوط ہونا بے حد ضروری ہے‘خاص طور پر عدلیہ کا مستحکم ہونا تو ناگزیر ہے۔ عدلیہ نے ملک کو کئی بار بحرانوں سے نکالا اور اب تو سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے آنے کے بعد عدلیہ اپنی اصلاحات بھی کر رہی ہے۔سو موٹونوٹس کا معاملہ ہو یا ریویوججمنٹ ایکٹ ہو یا بھٹو قتل کیس کا ریفرنس ‘سپریم کورٹ نے اپنی غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش کی ہے ۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے عدلیہ میں تقسیم کو کافی حدتک کم کرنے کی بھی کوشش کی۔اس سے پہلے سابق چیف جسٹس کے دورمیں اختلافی نوٹس کی بھرمار سے عدلیہ میں واضح تقسیم کی نشاندہی ہوتی تھی ۔سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف ریفرنس پر کارروائی اور پھر سپریم کورٹ کے دو سینئر جج صاحبان کے استعفوں نے ماحول کو گرما دیا ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ایک بار پھر عدلیہ میں نیا بحران سر اُٹھا رہاہے۔ایک کے بعد ایک جج صاحب کا استعفیٰ اچھا شگون نہیں‘اس سے عدلیہ مضبوط نہیں کمزور ہو گی۔ اگر عدلیہ کمزور ہوگی تو چیف جسٹس بھی مضبوط نہیں ہوں گے۔پہلے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور پھر مستقبل کے چیف جسٹس اعجاز الاحسن کا ایک دن کے وقفے کے ساتھ استعفیٰ آنا یقینی طور پر حیران کن تھا۔جسٹس مظاہر علی نقوی کا استعفیٰ سمجھ میں اس لیے آتا ہے کہ اُن کے خلاف مس کنڈکٹ کے الزامات تھے۔اُن کی اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کی ایک مبینہ آڈیو لیک ہوئی تھی جس میں ایسا تاثرتھاکہ پرویز الہٰی اُن سے کوئی ذاتی فائدے لیے ہیں۔ ان کے خلاف کرپشن کی شکایت بھی سامنے آئی اورمعاملہ سپریم جوڈیشل کونسل بھیج دیا گیا۔عام تاثر یہی تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں اگر اُن کے کرپشن کے معاملات آگے بڑھے تو اُن کوسُبکی ہو گی‘ بظاہر یہی وجہ تھی کہ انہوں نے استعفیٰ پیش کر دیا ۔جب کوئی جج استعفیٰ دے دیتا ہے تو روایت کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل میں اس کے خلاف کارروائی رُک جاتی ہے‘لیکن چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم جوڈیشل کونسل کے آخری اجلاس میں جسٹس ریٹائرڈمظاہر نقوی کے خلافف کارروائی جاری رکھنے کافیصلہ کیا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس فی الحال الیکشن ملتوی کردیا گیا ہے اور جسٹس مظاہر علی نقوی کو اپنے دفاع کیلئے مزید وقت بھی مل گیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کہتے ہیں کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی جج استعفیٰ دے کر چلا جائے اور ہم اُس کے خلاف رروائی نہ کریں۔ اُن کا کہنا ہے کہ تمام پاکستان ان کی طرف دیکھ رہا ہے‘ عوام جانناچاہتے ہیں کہ شکایات حقیقی تھیں یا نہیں‘ کونسل نے اب کوئی نہ کوئی فائنڈنگ تو دینی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کا استعفیٰ دینا سمجھ میں آتا ہے ‘ دوسری طرف جسٹس اعجازالاحسن جو 10 مہینے بعد چیف جسٹس بننے جارہے تھے اُن کے استعفے سے ہر کوئی حیران ہے۔سینئر صحافی حامد میر کے مطابق ریٹائر ہونے والے جج صاحب کے خلاف دو ریفرنس آنے والے تھے ‘ ایک ریفرنس میں200 دستاویزی ثبوت بھی لگائے گئے تھے۔ یہ ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں فائل ہونے والے تھے اور اُن کو اس کا اندازہ ہوگیاتھا۔
جسٹس ریٹائرڈاعجازالاحسن کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے متنازع فیصلے کیے۔سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر جو مخصوص بینچ بنانے کا الزام لگتا تھا اُس بینچ میں جسٹس ریٹائرڈ اعجاز الاحسن اور جسٹس ریٹائرڈمظاہر علی اکبر نقوی پیش پیش تھے۔99 فیصد کیسز میں جسٹس اعجازالاحسن شامل ہوتے۔انہوں نے پانامہ کا فیصلہ دیا۔پانامہ جے آ ئی ٹی بنی تو انہیں اس کا نگران جج بنایا گیا‘ لیکن نواز شریف ایک کے بعد ایک کیسز سے سرخرو ہوتے گئے۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا استعفیٰ بہت سے جواب طلب سوال چھوڑ گیا ہے۔ ان کا دور تنازعات سے بھرپور سمجھا جاتا ہے‘ان تنازعات میں پانامہ پیپرز کیس کی احتساب عدالت کی نگرانی سے لے کر تقریباً ہرسیاسی جماعت کے مقدمات سننا‘ گرینڈ حیات ٹاور کیس کی سماعت پراعتراضات اور جسٹس مظہر علی اکبر نقوی کو سپریم جوڈیشل کونسل سے بچانے کی کوششوں جیسے معاملات شامل ہیں۔ جب سے جسٹس میاں ثاقب نثار نے چیف جسٹس کا حلف لیا تھا جسٹس اعجاز الاحسن ہر اہم مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ رہے ہیں‘ حتیٰ کہ سپریم کورٹ کے ججوں نے اس وقت بھی تشکیل دیے جانے والے بینچوں میں ججوں کی شمولیت کے حوالے سے بے شمار خط لکھے تھے کہ کس طرح دوسرے ججوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔بہت سی سیاسی جماعتیں بشمول پیپلزپارٹی‘ مسلم لیگ(ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظہر علی اکبر نقوی کی شمولیت پر اعتراضات کیے تھے۔مسلم لیگ (ن) نے بالخصوص ان جج صاحبان پر اعتراضات کیے اور سینئر ججوں کی غیر جانبداری کے حوالے سے سوالات اٹھائے تھے اور کئی ایسے مقدمات کے حوالے دیے تھے جن میں جسٹس اعجاز الاحسن نے نوازشریف اور شہباز شریف کے خلاف فیصلے دیے تھے۔فروری 2023 میں اُس وقت کے وزیرداخلہ راناثنا اللہ نے ایک پریس کانفرنس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظہر علی اکبر نقوی پر الزام عائد کیا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے خلاف تعصب رکھتے ہیں‘ لیکن ان الزامات کے باوجود انہوں نے اپنے آپ کو کبھی ان بنچوں سے علیحدہ نہیں کیا۔ راناثنا اللہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ جسٹس اعجازالاحسن نگران جج کے طور پر نوازشریف کے خلاف کیس کی نگرانی کرتے رہے ‘ ان سے انصاف کی توقع نہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے تقریباً ہر مقدمے میں نواز شریف اور شہبازشریف کے خلاف فیصلہ دیا اور ان میں پانامہ پیپرز کے علاوہ پارٹی قیادت کیس‘ پاکپتن زمین الاٹمنٹ کیس اور رمضان شوگر ملز کیس وغیرہ شامل ہیں‘پھر اسی طرح گرینڈ حیات ٹاور کیس میں جسٹس اعجاز الاحسن کی شمولیت پر وکلا نے سوال اٹھایا۔ ان وکلا کے مطابق جسٹس اعجازالاحسن گرینڈ حیات ٹاور بنانے والی کمپنی کے لیگل ایڈوائزر تھے۔ مفادات کے اس واضح ٹکراؤ کے باوجود انہوں نے اپنے آپ کو بینچ سے نہیں نکالا اور بالآخر اپنی کلائنٹ کمپنی کے حق میں فیصلہ دیا۔حال ہی میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اعجاز الاحسن کے درمیان اس وقت ایک تنازع کھڑا ہوا جب بینچوں کی تشکیل اور ان میں سینئر ججوں کی شمولیت کا معاملہ زیر غور آیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے چیف جسٹس کو خط لکھاجس میں انہوں نے بینچوں کی تشکیل سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے اپنے عرصے میں تنازعات کا شکار رہے لیکن ان کی صرف استعفیٰ دینے سے معاملے پر مٹی ڈال دینا زیادتی ہوگی۔یہ بات سامنے آنی چاہیے کہ جسٹس اعجازالاحسن نے استعفیٰ کیوں دیا ؟اگر اُن کے خلاف ریفرنس والی بات درست ہے تو حقائق نہ صرف قوم کے سامنے آنے چاہئیں بلکہ تحقیقات بھی ہونی چاہئیں کیونکہ اس وقت عدلیہ ہی ہے جس سے انصاف کی امید ہے۔ اگر وہی بحران کا شکار ہوجائے تو پھر کیا بنے گا؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved