ایسا عالمی بائیکاٹ شاید ہی دنیا نے اس طرح کبھی دیکھا ہو۔ یہ ایک ملک ، ایک علاقے، ایک مذہب اور ایک نسل کی طرف سے بائیکاٹ اور مقاطعہ نہیں ، یہ عالمی لہرہے ۔ اس نیلے سیارے نے بائیکاٹ پہلے بھی بہت سے دیکھے ہیں لیکن یہ اپنی نوعیت کا منفرد مقاطعہ ہے ۔ جب نئے سورج کی کرنیں دنیا پر پڑتی ہیں اور ہمارے انتہائی مشرق میں موجود ملکوں سے ہوتی ہوئی انتہائے مغرب میں بحر الکاہل کے جزیروں تک پہنچتی ہیں تو وہ ہر ملک، ہر علاقے اور ہر برا عظم میں ان عالمی کمپنیوں کے سنسان یا بے رونق سٹورز اور ریسٹورنٹس وغیرہ کا مشاہدہ کرتی جاتی ہیں جو اس بائیکاٹ کی زد میں ہیں ۔ میری طرح آپ کو بھی ایسی بہت سی وڈیوز ، تصاویر مسلسل موصول ہوتی ہوں گی جن میں اس بائیکاٹ کے نتائج عینی شاہدوں کی نظروں سے دکھائے جارہے ہیں ۔ مسلم اور غیر مسلم ممالک میں بے شمار شہروں کی وہ وڈیوز موجود ہیں جن میں ان طعام گاہوں ،دکانوں اور سٹورز کو ویران دکھایا گیا ہے جبکہ یہاں رات دن کھوا سے کھوا چھلتا تھا اور آرڈر کے لیے قطاروں میں لگنا پڑتا تھا۔ ایسی خبریں بھی چھپ رہی ہیں اور سوشل میڈیا پر بھی تفصیلات آرہی ہیں۔ ان سب میں مصدقہ اعداد و شمار کیا ہیں ،یہ ایک اہم سوال ہے ۔ من و عن ہر بات پر یقین کرنا ممکن نہیں ہوتالیکن ان خبروں میں دلچسپی کبھی کم نہیں ہوئی ۔اس لیے کہ ایک تو بطور ایک انسان مجھے 9 ہزارمعصوم بچوں اور اور 14 ہزار فلسطینی مردوں ، عورتوں کے بے رحم قاتلوں سے کوئی ہمدردی نہیں ۔ اور ان سے بھی بالکل نہیں جو ان قاتلوں کی حمایت اور ہمدردی کرتے ہوں۔ دوسرے‘ بطور مسلمان میں اسرائیل کو تمام مسلم ممالک کے لیے بڑا اور مستقل خطرہ سمجھتا ہوں ۔ اس لیے اگر اس کی مصنوعات یا اس کے حامیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ ہوتا ہے اور ان کا کاروبار پوری دنیا میں نیچے آتا ہے تو میری خوشی اور دلچسپی ان خبروں میں کیوں نہیں ہوگی ؟
بطور پاکستانی میں بھی مشاہدہ کرتا ہوں اور خبریں ملتی ہیں کہ ہمارے ملک میں ان کمپنیوں کے کاروبار کو نقصان پہنچا ہے لیکن میں نے وہ مضامین بھی پڑھے ہیں جو ایسے ہر بائیکاٹ پر بتاتے ہیں کہ اتنی بڑے عالمی کاروباری اداروں کو ایسے چھوٹے موٹے بائیکاٹ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔جب ڈنمارک میں گستاخانہ خاکوں کا سلسلہ گرم تھا اُس وقت بھی اس بائیکاٹ اور جوابی رد عمل کا مشاہدہ کیا تھا۔ اس لیے سات اکتوبر کو غزہ کی تازہ جنگ شروع ہوئی اور اسرائیل نے فلسطینیوں کا بے دریغ قتل عام شروع کیا تو ایک بار پھر بائیکاٹ کی اپیلیں اور اس کے طریقے ہر ایک کے پاس پہنچنے لگے۔اب چار ماہ اس جنگ کو ہوچکے ہیں اور اس کے نتائج بھی سامنے آنے لگے ہیں۔ یہ نتائج تو بائیکاٹ کے لیے بہت حوصلہ افزا ہیں ہی اصل بات یہ ہے کہ ثابت ہوگیا ہے کہ بائیکاٹ کا یہ بہت مہلک ہتھیار اگر بڑے پیمانے پر استعمال کیا جائے تو بے شمار چھوٹے ہتھیاروں سے زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتاہے ۔اگر کسی ملک کی ریڑ ھ کی ہڈی معیشت ہو اور اس معیشت کے کئی مہرے اپنی جگہ سے ہل جائیں تو وہ اپنے قدموں پر کھڑا نہیں رہ سکتا۔
یہ دیکھنے سے پہلے کہ بائیکاٹ کی یہ اپیل کس طرح پوری دنیا میں پھیلی ، ذرا ان دو خبروں کی تفصیلات پڑھ لیں جو دو بڑی عالمی کمپنیوں میکڈونلڈز اور سٹار بکس کے بارے میں ہیں اور مصدقہ ہیں ۔سٹار بکس مشہور کافی چین ہے جس کی پوری دنیا میں شاخیں موجود ہیں ۔ اوراس سال پانچ جنوری کی خبر کے مطابق سٹار بکس کو ان چار ماہ میں لگ بھگ گیارہ ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے‘ یعنی اعداد و شمار کے مطابق 10.98بلین ڈالرز۔اس نقصان کی وجہ بائیکاٹ کی وجہ سے کم فروخت اور سٹاف کی ہڑتال بتائی جاتی ہیں ۔ سٹاف کی ہڑتال بھی ایک الگ قصہ ہے لیکن فی الحال ہم نتائج کی بات کر رہے ہیں ۔ پانچ جنور ی ہی کی ایک خبر کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی اور بہت مشہو ربرگر کمپنی اور فوڈ چین ، میکڈونلڈزکے چیف ایگزیکٹو آفیسر کیمپ زنسکی نے اعتراف کیا ہے کہ جنگ کے بعد سے میکڈونلڈز کو مالی بحران کا سامناہے ۔ یہ اعتراف کیمپ زنسکی نے ایک بلاگ میں کیا ہے جو لنک ڈن نامی سائٹ پر شامل کیا گیا ہے ۔ اس اعتراف کے مطابق ''مشرقِ وسطیٰ کے علاقوں میں اور کچھ اس سے باہر کے دیگر علاقوں میں کاروبار کو نقصان ہورہا ہے اور میکڈونلڈز پر براہ راست اثر پڑ رہا ہے‘‘۔ مکڈونلڈز کے بارے میں غم و غصہ اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اس کی اسرائیلی فرنچائز نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا تھا کہ وہ اسرائیلی فوجیوں کو مفت کھانا فراہم کرے گی ۔ اس بیان نے بھی دنیا بھر میں آگ لگا دی ۔ بعد میں بہت سی وضاحتیں کرکے معاملے کو سنبھالنے کی کوشش کی گئی ۔ کہا گیا کہ میکڈونلڈز کا کسی بھی ملک یا سیاست سے تعلق نہیں ہے ۔پھرمیکڈونلڈز کی مصری شاخ نے غزہ کی مدد کیلئے ساڑھے چھ لاکھ ڈالرز کا اعلان بھی کیا لیکن بائیکاٹ کی ایک بڑی لہر جاری رہی اور اونچی ہوتی گئی ۔ ان دونوں کمپنیوں کے یہ اعتراف اس بڑی حقیقت کو بھی ظاہر کرتے ہیں کہ بائیکاٹ کی زد میں آنے والی ان سے نسبتاً چھوٹی کمپنیاں زیادہ مشکلات میں ہیں ۔ بہت عجیب بات یہ ہے کہ عرب ممالک میں بھی یہ بائیکاٹ مؤثر ہوا ہے اور ان میں وہ ہمسایہ ممالک بھی ہیں جو سرکاری طور پر فلسطینیوں کے ساتھ نہیں ہیں، بلکہ ان ملکوں میں فلسطینیوں کی حمایت کے لیے جلسے جلوس بھی نہیں کیے جاسکتے۔مثلاً مصر اور اردن ۔ لیکن جو ممالک عرب علاقوں میں نہیں وہاں بھی یہ بائیکاٹ بڑے پیمانے پر ہوا ہے مثلاً پاکستان اور ترکی ۔ایک اور بڑی مثال ملائیشیا کی ہے جو مشرقِ بعید کا ملک ہے اور وہاں بائیکاٹ نے الگ رنگ جمایا ہوا ہے۔ اس سے بھی زیادہ تعجب خیز بات یوکے اور امریکہ سمیت غیر مسلم ممالک میں بائیکاٹ کا پھیلنا ہے ۔ ان سب ممالک میں بائیکاٹ پرالگ الگ تفصیلی گفتگو کی ضرورت ہے لیکن یہ بڑی لہر پیدا کرنے والی طاقتوں کا پس منظر بھی ذکر کرنا ضروری ہے ۔ ان طاقتوں میں ایک بڑی قوت بی ڈی ایس BDSہے ۔یہ فلسطینی تحریک جو ان تین حروف سے پہچانی جاتی ہے ۔ Boycott, Divestment and Sanctionsیعنی مقاطعہ،تقسیم ، پابندیاں۔یہ اس کے لیے2005 ء سے جدوجہد کر رہی ہے ۔یہ عدم تشدد کی بنیاد پر قائم تنظیم ہے اور ان تینوں حروف سے اس کا مقصد نسل پرست اسرائیل کو مالی ، اخلاقی ، سیاسی اور حکومتی سطحوں پر تنہا کرنا ہے ۔ بنیادی طو رپر اس تحریک کا خیال جنوبی افریقہ کی نسل پرستی کے خلاف تحریک Anti-Apartheidسے ماخوذ ہے ۔ بی ڈی ایس کا سادہ سا اور عام فہم اصول یہ ہے کہ فلسطینیوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہونے چاہئیں جو دنیا بھر کے باقی انسانوں کو حاصل ہیں ۔ بی ڈی ایس انصاف ، آزادی اور برابری کے لیے جد و جہد کا نام ہے ۔ آغاز میں بی ڈی ایس تنہا تھی لیکن یہ تحریک فلسطینیوں کی مظلومیت اور ان کا قتل عام دیکھتے ہوئے دنیا بھر میں تعلیمی اداروں ، گرجا گھروں ، یونینوں اور حقوق کے لیے جد و جہد کرنے والی تنظیموں میں مقبولیت حاصل کرتی گئی اور وہ اس تحریک میں شامل ہوتے گئے اور اب یہ پوری دنیا میں ایک بڑی تحریک کا روپ دھار چکی ہے ۔اس تحریک کے لوگ دنیا بھر میں اس بائیکاٹ کو اس موجودہ جنگ میں مؤثر بنانے میں بہت کامیاب رہے ہیں ۔ اس کی کامیابی کا اندازہ اس سے کریں کہ بہت سے اسرائیل نواز گروپ بی ڈی ایس کو بہت بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں ۔
بوڈا پسٹ ہنگری میں زیر تعلیم غزہ کے رہنے والے فلسطینی آئی ٹی انجینئر احمد بشباش نے اپنے دل پر اسرائیل کے لگائے ہوئے زخموں کو ایک نہایت کامیاب ایپلی کیشن بنا کر دنیا کے ہاتھ میں بائیکاٹ کا ایک اور ہتھیار دیا ہے ۔ اس ایپلی کیشن کا نام'' No Thanks‘‘ ہے اور یہ لاکھوں کی تعداد میں ڈاؤن لوڈ کی جاچکی ہے ۔ یہ ایپلی کیشن گوگل پلے سٹور پر عام دستیاب ہے اور میرے موبائل میں بھی موجود ہے ۔ یہ کس طرح کام کرتی ہے ۔ آئیے بتاتا ہوں ۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved