تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     15-10-2013

سب سے پہلے پاکستان

آپ کو بخوبی یاد ہوگا کہ’ سب سے پہلے پاکستان ‘کا نعرہ جنرل پرویز مشرف نے بڑے فخر سے دیا تھا‘ لیکن اس پر وہ عمل نہ کر سکے اور یہ ایک خالی خولی نعرہ ہی رہا۔ ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا مطلب ہے کہ پاکستان اور اس کے عوام کے مفادات سب سے اعلیٰ اور ارفع ہیں اور ان مفادات کا سودا نہیں کیا جا سکتا۔ اصل صورت حال اور زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ہمارے متعدد حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے بیرونی طاقتوں کو وطن عزیز میں کھل کھیلنے کا موقع دیا اور آج کا پاکستان بین الاقوامی اور علاقائی قوتوں کا اکھاڑہ بن چکا ہے۔ آج کی اس بحث کی خاطر میں نے ان چار ملکوں کا انتخاب کیا ہے جن کی پاکستان میں دلچسپی دوسرے ملکوں سے زیادہ ہے… وہ ہیں امریکہ‘ بھارت‘ ایران اور خلیجی ممالک۔ بحث کو سود مند بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ان ممالک کے پاکستان میں مفادات کی تشریح ہو جائے۔ امریکہ کے لیے پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کے حوالے سے اور افغانستان‘ بھارت‘ چین اور ایران کا ہمسایہ ہونے کے ناتے سے اہمیت رکھتا ہے‘ تاہم امریکہ کی نظر میں پاکستان کی اہمیت بھارت کی اہمیت کے تابع ہے۔ امریکہ کو یہ ڈر بھی ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے اگر جزوی طور پر بھی انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ گئے تو یہ عالمی دہشت گردی کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں، اس لیے امریکہ کی خفیہ ایجنسیاں بہت زیادہ مالی وسائل ہمارے ایٹمی اثاثوں کی نقل و حرکت معلوم کرنے کے لیے لگا رہی ہیں۔ اسی طرح سے ہمارے قبائلی علاقوں میں امریکہ نے اپنے مخبروں کا جال بچھایا ہوا ہے جو افغانستان میں کارروائی کرنے والے گروہوں کے ٹھکانوں کی خبر دیتے رہتے ہیں۔ ڈرون حملے ایسی ہی اطلاعات کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ اس سے عجلت میں یہ نتیجہ اخذ نہیں کر لینا چاہیے کہ امریکہ پاکستان کی بربادی کی قسم کھائے بیٹھا ہے۔ امریکہ کو مستحکم مگر تابعدار پاکستان کی ضرورت ہے۔ بیس کروڑ آبادی کی ایٹمی طاقت کو غیر مستحکم کرنا دانش مندی نہ ہوگی اور امریکہ کو اس بات کا ادراک ہے۔ بھارت بھی اب پاکستان کا خاتمہ نہیں چاہتا۔ اُس سے اپنے مسلمان ہی نہیں سنبھالے جاتے۔ پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کے بعد اکھنڈ بھارت کا خواب متروک ہو چکا ہے لیکن بھارت کو بھی ایک تابع فرمان پاکستان چاہیے جو بنگلہ دیش اور نیپال کی طرح ہر بات پر آمنا و صدقنا کہے۔ بھارت کے لیے پاکستان کا محل وقوع انتہائی اہم ہے۔ سنٹرل ایشیا اور مشرقی یورپ کے ساتھ تمام زمینی تجارت کے راستے پاکستان ہی سے گزریں گے۔ اسی طرح سے بھارت کا تیل اور گیس بھی پاکستان کے سمندری راستے سے گزرتے ہیں اور مستقبل کی پائپ لائنیں بھی پاکستانی سرزمین کے ذریعے آئیں گی۔ لہٰذا ایک طاقتور اور آنکھیں دکھانے والا پاکستان بھارت کے مفاد میں نہیں۔ ایران کے لیے پاکستان گیس کی بڑی مارکیٹ ہوگا۔ ایران یہ بھی چاہتا ہے کہ انتہا پسند تنظیم جنداللہ کو کمزور کرنے میں پاکستان نے گزشتہ سالوں میں جو تعاون کیا ہے وہ جاری رہے۔ سعودی عرب کی خواہش ہے کہ پاکستانی مسلح افواج مضبوط رہیں۔ ماضی میں سعودی عرب کو جب بھی اندرونی یا بیرونی خطرہ محسوس ہوا پاکستانی افواج کو وہاں بلایا گیا۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ یہ چاروں ملک پاکستان میں اپنی اپنی لوبی (Lobby) مضبوط کرنے میں لگے ہیں۔ اور ہمارے ہاں کئی ایسے میاں مٹھو پیدا ہو گئے ہیں جو بیرونی آقائوں کی زبان بڑی روانی سے بولتے ہیں اور اب یہ بولیاں میڈیا میں بھی سنی جانے لگی ہیں۔ پاکستان بے چارہ غریب کی جورو کی طرح سب کی بھاوج بنتا جا رہا ہے۔ ہر کوئی اُسے عقل دے رہا ہے۔ پاکستان کی اپنی آواز اس سارے شور میں ڈوب رہی ہے۔ جو لوگ پاکستان کے لیے مخلص ہیں وہ حیران ہیں اور اکثر نے چپ سادھ لی ہے۔ جس معاشرے میں بندوق منطق پر غالب آ جائے وہاں شرفا خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ پُرامن معاشروں میں تیرو تفنگ کی قوت حکومت کے پاس ہوتی ہے‘ نان سٹیٹ ایکٹرز (Non State Actors) کے پاس نہیں۔ ایک حالیہ انٹرنیشنل سروے کے مطابق جنگ و جدل کے حوالے سے پاکستان دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔ ہم سے زیادہ شدت پسند ممالک میں عراق‘ افغانستان‘ صومالیہ اور سوڈان شامل ہیں۔ تو کیا ہر مسلم ملک شدت پسند ہوتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا بھی تو مسلم ممالک ہیں۔ سعودی عرب‘ ایران اور ترکی میں بھی تو مسلمان بستے ہیں۔ پاکستان میں شدت پسندی کی ایک صائب توجیہ یہ ہے کہ یہ افغانستان کی صورت حال کا شاخسانہ ہے لیکن صرف اتنا کہہ کر ہم بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ پاکستانی ریاست بتدریج کمزور ہوئی ہے۔ ہم نے شدت پسندوں سے نپٹنے میں تساہل سے کام لیا ہے۔ ایک معاصر کالم نگار کے بقول ہمارے قبائلی علاقوں میں اس وقت بیس ہزار غیر ملکی جنگجو بیٹھے ہوئے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد غیر ملکیوں کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے ملک کے ایک حصے پر غیر ملکیوں کی عمل داری ہے۔ یہ لوگ کون سے ویزے پر یہاں آئے اور اسامہ بن لادن کس کی اجازت سے سالہا سال تک لمبے چوڑے خاندان کے ہمراہ پاکستان کی سرزمین پر رہا؟ پاکستان کو بین الاقوامی شاملات کس نے بنا دیا ہے؟ کتنے ریمنڈ ڈیوس ہیں جو آج بھی ہماری پاک سرزمین پر بڑی تسلی سے اپنا اپنا کام کر رہے ہیں؟ وزیراعظم نوازشریف کا کہنا ہے کہ پشاور کے خونیں واقعات میں بیرونی ہاتھ ہے‘ تو جناب آپ اُن بیرونی ہاتھوں کو بے نقاب کیوں نہیں کرتے؟ سب کہتے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں اور بلوچستان میں بھارتی دخل اندازی ہو رہی ہے لیکن اس دخل اندازی کو ہم پکڑ کیوں نہیں پا رہے؟ ہماری ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں؟ دہشت گرد افغانستان میں بیٹھ کر ہمارے فوجی افسروں کو شہید کرواتے ہیں‘ معصوم بچیوں پر حملے کراتے ہیں لیکن ہمیں اتنی جرأت نہیں ہوتی کہ افغانستان سے ان دہشت گردوں کو حوالے کرنے کا مطالبہ کر سکیں۔ غیر ملکی این جی اوز ہمارے ہاں اپنے اپنے نظریات کا پرچار کرتی ہیں اور ہم انہیں کھلی چھٹی دے دیتے ہیں۔ بے تحاشا مغربی پیسہ ہے جو سویڈن‘ ڈنمارک اور ناروے کے ذریعے ایسی تنظیموں کو ملتا ہے اور ہم اتنے بااخلاق ہیں کہ سوال تک نہیں پوچھتے کہ یہ پیسہ کہاں سے آ رہا ہے اور اس کا مصرف کیا ہے؟ عام تاثر یہ ہے کہ بعض ممالک سے آنے والے عطیات شدت پسندی کو ہوا دے رہے ہیں۔ ہمارے قبائلی علاقے اور بلوچستان ترقی کے لحاظ سے پس ماندہ ہیں لیکن وہاں ایسے ایسے ماڈرن ہتھیار ہیں جو حکومت کے پاس بھی نہیں۔ یاد رکھیے‘ بھارت کو لنگڑا لولا پاکستان چاہیے جو اس کی ہر بات مانے۔ اپنے اہداف کی تکمیل میں وہ یکسوئی سے لگا ہوا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری آنکھیں کیوں بند ہیں؟ اگر آپ کو یہ علم نہیں کہ ہمارے بلوچستان کے جنگجو مختلف ممالک میں جا کر چندہ اکٹھا کرتے ہیں تو میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ حقیقت ہے۔ وہاں کے سادہ لوح بلوچ پاکستان دشمن ہرگز نہیں‘ انہیں بے وقوف بنایا جاتا ہے اور بلوچ زبان اور ثقافت کی ترویج کے حوالے سے پیسے بٹورے جاتے ہیں۔ چند سال پہلے میں ایران گیا اور دو ہفتے وہاں رہا۔ کافی لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ من جملہ دوسری باتوں کے پتا چلا کہ فارسی زبان کی ترویج کے لیے پاکستان میں ایرانی یونیورسٹیوں کے لیے وظائف خاصی حد تک ایک ہی مسلک والوں کو دیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں چلنے والے تمام دینی مدارس کو ریگولیٹ کرنا ضروری ہے۔ حکومت کو ان کے عطیات اور اخراجات کا علم ہوناچاہیے بلکہ چیک کے ذریعے دیے جانے والے عطیات ٹیکس سے مبرا ہونے چاہئیں۔ اس طرح دین کی خدمت بھی ہوگی اور مدارس کے نظام میں شفافیت بھی آئے گی۔ جب تک ہم باہر سے آنے والی پائی پائی پر نظر نہیں رکھیں گے‘ پاکستان انٹرنیشنل شطرنج کا میز بنا رہے گا اور ہم فقط مہرے۔ پاکستان کو بچانا ہے تو ’سب سے پہلے پاکستان ‘کے نعرے پر عمل کیجیے اور پھر پاکستان توانا بھی ہوگا اور مستحکم بھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved