آئی ایم ایف نے رواں مالی سال کے دوران پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافے جبکہ بجٹ خسارے‘ بے روزگاری اور مہنگائی میں کمی کی توقع ظاہر کی ہے۔ آئی ایم ایف نے گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں مالی سال معاشی شرحِ نمو میں اضافے کی پیش گوئی بھی کی ہے۔ محصولات اورگرانٹس میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے لیکن اخراجات بڑھنے کا امکان بھی ہے۔رواں مالی سال محصولات اور گرانٹس بڑھ کر جی ڈی پی کے 12.5فیصد کے برابر رہ سکتی ہیں‘ گزشتہ مالی سال میں محصولات اور گرانٹس جی ڈی پی کے 11.5 فیصد کے برابر تھیں۔ ساتھ ہی رواں مالی سال ملک میں مہنگائی کی اوسط شرح 18.5فیصد پر آ سکتی ہے جو گزشتہ مالی سال کے دوران 29.4 فیصد رہی تھی۔ رواں مالی سال پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 8فیصد رہ سکتی ہے جو کہ گزشتہ مالی سال کے دوران 8.5فیصد تھی۔رواں مالی سال بجٹ خسارہ کم ہو کر جی ڈی پی کا 7.6فیصد رہ سکتا ہے جو کہ گزشتہ مالی سال 7.7فیصد رہا۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ رواں مالی سال جی ڈی پی کے 1.6فیصد تک رہ سکتا ہے جو گزشتہ مالی سال جی ڈی پی کا 0.7 فیصد تھا۔ معیشت میں بہتری کی پیش گوئی کی وجہ آئی ایم ایف کا سٹینڈ بائی معاہدہ ہے۔ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے سٹینڈ بائی معاہدے کے تحت پاکستان کیلئے 70کروڑ ڈالر کی دوسری قسط کی منظوری دے دی ہے۔ یہ معاہدہ گزشتہ سال جون میں طے پایا تھا۔ ستر کروڑ ڈالر کی قسط ملنے کے بعد اس پروگرام کے تحت پاکستان کو اب تک 1.9ارب ڈالرز مل چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے دوسری قسط کے اجرا کے بعد نہ صرف پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر بہتر ہوں گے بلکہ روپے کی قدر بھی مزید مستحکم ہو گی۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب پاکستان کو ایک ایک ڈالر کی ضرورت ہے‘ 70 کروڑ ڈالر ملنا ملکی معیشت کیلئے فائدہ مند ثابت ہو گا۔ سٹینڈ بائی معاہدے کے تحت پاکستان آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف نے یہ قسط جاری کر دی ہے۔
آئی ایم ایف کے نویں جائزہ پروگرام کے دوران پاکستان کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور یہی وجہ تھی کہ سٹینڈ بائی معاہدے میں بہت زیادہ وقت لگا۔ اس معاہدے کی دوسری قسط ملنے سے یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہوم ورک مکمل ہو تو پھر آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام جاری رکھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ مارچ میں سٹینڈ بائی معاہدے کی آخری قسط کے حصول کیلئے کاوشیں بہت معنی خیز ہوں گی کیونکہ اگر پاکستان میں فروری میں الیکشن ہو جاتے ہیں تو الیکشن کے بعد نئی حکومت کو ملکی معیشت کو سنبھالنے کیلئے فوری طور پر ایک نئے آئی ایم ایف پیکیج کی ضرورت پڑ سکتی ہے جس کیلئے سٹینڈ بائی معاہدے کی کامیابی کو بنیاد بناتے ہوئے آئی ایم ایف ٹیم کے ساتھ مثبت مذاکرات کیے جا سکتے ہیں جس سے ملک کو درپیش معاشی عدم استحکام پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے تناظر میں 70کروڑ ڈالر کی یہ رقم بظاہر ناکافی ہے لیکن اس کی وجہ سے مزید قرض ملنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ جب تک پاکستان اپنی درآمدات کم اور برآمدات زیادہ نہیں کرتا‘ معیشت کو بہتر کرنا مشکل ہے۔ پاکستان کی معیشت کو سنبھالنے کیلئے ضروری ہے کہ گروتھ ریٹ کو چھ فیصد تک بڑھایا جائے جو اس وقت دو فیصد ہے۔ آئی ایم ایف سے دوسری قسط کی منظوری کے بعد سٹاک ایکسچینج بھی بہتر پرفارم کر رہا ہے۔ 100انڈیکس میں 733پوائنٹس اضافے کے بعد 65ہزار کی حد دوبارہ عبور ہو چکی ہے۔ ڈالر ریٹ بھی مسلسل گر رہا ہے جو کہ معیشت کیلئے مثبت اشاریہ ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کے حوالے سے بھی اچھی خبریں سننے میں آ رہی ہیں۔ عالمی سطح پر قیمتوں میں کمی‘ شرحِ مبادلہ میں اضافے اور پریمیم کم ہونے کے سبب 15جنوری سے آئندہ 15 روز کیلئے پٹرول تقریباً 9سے 10روپے فی لٹر جبکہ ڈیزل دو روپے فی لٹر تک سستا ہو سکتا ہے۔ مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل آئل کی قیمتوں میں بھی تقریباً 2 روپے فی لٹر کمی متوقع ہے۔ گزشتہ 15 روز کے دوران عالمی مارکیٹ میں تمام پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بھی اضافہ ہوا ہے جبکہ پٹرول کی خریداری پر پریمیم بھی کم ہوا ہے۔ حکومت اس وقت پٹرول اور ڈیزل پر 60روپے فی لٹر پٹرولیم لیوی وصول کر رہی ہے جوکہ بہت زیادہ ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ مالی سال 2024ء کے دوران پٹرولیم لیوی کی مد میں 869ارب روپے جمع کرنے کا بجٹ ٹارگٹ مقرر کیا تھا لیکن اب توقع کی جارہی ہے کہ یہ ٹارگٹ 950ارب روپے سے زائد ہو سکتا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتیں مہنگائی کی شرح میں اضافے کا اہم محرک ہیں جوکہ دسمبر میں 29.7فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ فی الوقت حکومت پٹرول اور ڈیزل دونوں پر تقریباً 82روپے فی لٹر ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ اس وقت تمام پٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس صفر ہے‘ تاہم حکومت پٹرول پر 60روپے فی لٹر پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی اور ڈیزل‘ ہائی آکٹین بلینڈنگ کمپوننٹ اور 95ریسرچ آکٹین نمبر پٹرول پر 50روپے فی لٹر لیوی وصول کر رہی ہے۔
آنے والے دنوں میں مہنگائی میں کمی کے حوالے سے مثبت خبریں آنے کی امید ہے لیکن عالمی بینک نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں انتخابات کے حوالے سے پائی جانے والی بے یقینی غیرملکی سرمایہ کاری کو متاثر کر سکتی ہے۔ اگر خدانخواستہ سیاسی و سماجی بے چینی کے ساتھ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا تو اس سے کمزور معیشت اور معاشی ترقی کی شرح مزید خراب ہو سکتی ہے۔ تاہم اس بے یقینی کے خاتمے اور انتخابات کے بعد ترقی کے امکانات سے حالات بہتر بھی ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کا جولائی 2023ء سے جون 2024ء تک کا اکنامک آؤٹ لُک غیرفعال ہے اور معاشی ترقی کی شرح کا تخمینہ صرف 1.7فیصد ہے۔ عالمی بینک کے مطابق افراطِ زر کا دباؤ کم ہونے سے امکان ہے کہ مالی سال 2024-25ء میں ترقی کی شرح 2.4 فیصد پر جا پہنچے۔ مالیاتی پالیسی کے بارے میں توقع ہے کہ یہ مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے سخت رہ سکتی ہے۔ سال 2024ء میں غریب گھرانوں کو خوراک پر اضافی رقم خرچ کرنا ہو گی یعنی غذا کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے اور اس سے غربت اور عدم مساوات مزید بڑھ سکتی ہے۔
میں نے پچھلے کالموں میں ذکر کیا تھا کہ ایف بی آر کی سٹرکچرنگ کی منظوری دے دی گئی ہے۔ اس کے مثبت نتائج سامنے آتے ہیں یا منفی‘ اس بارے میں پالیسیاں بننے اور ان پر عمل درآمد ہونے کے بعد ہی کوئی بات کی جا سکتی ہے۔ فی الحال ایف بی آر ملازمین نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج شروع کر رکھا ہے۔ اس کا آغاز سب سے پہلے ایف بی آر کراچی آفس سے ہوا ہے۔ ان کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے ایف بی آر آفس کو اتنے بڑے فیصلے سے پہلے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ وزیر خزانہ نے بھی اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ شنید ہے کہ اِن لینڈ ریونیو اور کسٹمز حکام کے درمیان شدید اختلافات ہیں۔ کسٹمز ڈپارٹمنٹ نئی پالیسی کے حق میں ہے کیونکہ نئی پالیسی کے تحت کسٹمز ڈپارٹمنٹ اِن لینڈ ریونیو سے آزاد ہو جائے گا۔ ابھی تک کیبنٹ نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے اس فیصلے کی منظوری نہیں دی ہے‘ اس لیے ابھی تک اس پر عمل درآمد کیلئے کمیٹیاں تشکیل نہیں دی جا سکی ہیں۔ امکان ہے کہ نگران حکومت جانے سے پہلے اس کی منظوری دے دے گی اور ہڑتال کرنے والے ایف بی آر ملازمین کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا‘ چونکہ یہ فیصلہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا ہے‘ اس لیے وہ اس حوالے سے زیادہ دیر تک رکاوٹ پیدا نہیں کر سکیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved