کوئی بھی کھیل اُسی صورت شفاف ہو سکتا ہے جب دونوں طرف کی ٹیموں کو برابر کے مواقع میسر ہوں‘ ٹیم کے ہر کھلاڑی کو اپنی قابلیت کے مطابق کھیلنے کی اجازت اور آزادی حاصل ہو۔ ریفری بھی غیر جانبدار ہو اور کسی جانبداری کا مظاہرہ نہ کرے۔ ایسے کھیل میں ہار یاجیت کسی بھی ٹیم کی ہو‘ تماشائی اُسے کھلے دل سے قبول کرتے ہیں۔ دوسری جانب اگر کسی ٹیم کو مکمل سہولیات دی جائیں‘ اُسے پریکٹس کا بھرپور موقع فراہم کیا جائے‘ ریفری بھی جانبدار ہو تو کھیل کو فیئر پلے کیسے کہا جا سکتا ہے؟ ایسے کپ یا ٹرافی کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کیا ہو گی؟کیا یہ ٹرافی حاصل کرنے والی ٹیم کو اس پر فخر ہو گا؟ کیا وہ اس کھیل سے تعلق رکھنے والے دنیا بھر کے کھلاڑیوں کا سامنا کر سکیں گے؟کیاا س طرح ریفری اور کھیل انتظامیہ کی بد نامی نہیں ہو گی؟ایسے ہتھکنڈوں سے ٹرافی تو جیتی جا سکتی ہے لیکن اس کھیل کے تماشائیوں سے عزت حاصل نہیں کی جا سکتی۔
ان دنوں ملکِ عزیز میں بھی ایک کھیل جاری ہے اور وہ ہے انتخابات کا کھیل۔ یہ کھیل جس انداز میں کھیلا جا رہا ہے اُس کے پیشِ نظر تو یہی بہتر ہے کہ ملک بھر میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرا دیے جائیں تاکہ کسی کو کوئی شکوہ نہ رہے اور نہ ہی کسی کی زبان پر کوئی شکایت آ ئے۔فروری 1985ء میں منعقد ہونے والے عام انتخابات غیر جماعتی ہی تھے۔ تب صدر ضیا الحق نے سیاسی پا رٹیوں پر انتخا بات میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی تھی جبکہ سیاسی جماعتیں1973ء کے آئین کی بحالی کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ان انتخابات میں 207 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے‘ خواتین اور اقلیتوں کی 30مخصوص نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی میں کل 237 نشستیں تھیں۔ان انتخابات کے نتیجے میں محمد خان جو نیجو وزیراعظم جبکہ نواز شریف پہلی مرتبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے تھے اور تقریباً تین سال بعد 29مئی 1988ء کو صدر ضیا الحق نے جونیجو کی حکومت ختم کر دی تھی اور وہ خود اگست 1988ء کو ایک طیارہ حادثے کا شکار ہو گئے۔لیکن یہاں یہ واضح رہے کہ 1985ء کے انتخابات نے ملک کی سیاسی و انتخابی حرکیات کو یکسر تبدیل کر دیا تھا۔
مہذب ممالک میں جہاں بھی عام انتخابات کرائے جاتے ہیں‘اُن کی شفافیت یقینی بنانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی جاتی۔ان انتخابات میں معاشرے کے ہر اُس فرد کو حصہ لینے کی اجازت ہوتی ہے جو بالغ اور صاحبِ عقل ہو‘ جو اس ملک اور ریا ست کا شہری ہو۔ اُس ملک کے عوام ملک اور ریاست کی بہتری کے لیے اپنا حقِ رائے دہی آزادانہ طور پر استعمال کرتے ہیں اور ایک ایسے شخص کا انتخاب کرتے ہیں جو ان کے نزدیک ملک کو بہتری کی جانب گامزن کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جو انہیں وہ سہولیات اور آسانیاں فراہم کرے جو اس سے پہلے آنے والے سربراہِ مملکت انہیں فراہم نہیں کر سکے۔ اس کے برعکس ہمارے ملک میں اگلے مہینے منعقد ہونے والے عام انتخابات کی شفافیت پر ابھی سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ نہ صرف عام انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار بلکہ عوام بھی انتخابات کے انعقاد سے قبل ہی انہیں جانبدار قرار دے رہے ہیں۔ان انتخابات کے شفاف انعقاد کے لیے ذمہ دار ادارے کی کارکردگی سیاسی جماعتوں سے انتخابی نشان واپس لینے تک محدود نظر آ رہی ہے۔کوئی اُس تک انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے عوام کی طرف سے اٹھائے جانے والے سوالات بھی پہنچائے تاکہ اُسے یہ احساس ہو سکے کہ عوام کو اس ادارے کے ذمے جو شفاف انتخابات کے انعقاد کی واحد ذمہ داری ہے وہ بھی پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی۔
اس سے توغیر جماعتی انتخابات ہی بہتر ہیں کہ کم از کم یہ بھرم تو باقی رہ جائے گا کہ کسی جماعت کی طرف جانبداری نہیں دکھائی گئی۔ جس شخص کو جو انتخابی نشان ملے گا وہ اُسی پر الیکشن لڑنے کو تیار ہو جائے گا۔ کسی کو کوئی شکوہ نہیں ہوگا۔ کسی کو عوام کے پاس جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ لیکن اس کے برعکس اگر یہ عام انتخابات جماعتی بنیادوں پر کروائے جاتے ہیں اور کسی ایک جماعت کو الیکشن سے باہر رکھا جاتا ہے تو ان انتخابات کے بعد بھی سیاسی استحکام کی راہ ہموار نہیں ہو سکے گی۔ اور اگر ملک سیاسی استحکام کی جانب گامزن نہ ہو سکا تو معاشی طور پر مستحکم ہونا بھی بہت مشکل ہو جائے گا۔ پھر نہ آئی ایم ایف پروگرام کام آئے گا اور نہ عوام پر معاشی فیصلوں کا بوجھ ڈالنا کارگر ثابت ہو سکے گا۔ تب عوام کو بھی احساس ہوگا کہ وہ غلط فیصلہ کر بیٹھے ہیں۔یہ پچھتاوا تو رہا ایک طرف‘ اصل مدعا تو ملکی مفادات ہیں۔ اگر عام انتخابات پر اربوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی ملک میں سیاسی استحکام قائم نہ آ سکا تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ عوام اپنی مشکلات میں اضافے کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائیں گے؟
گزشتہ کئی ہفتوں سے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان ایک مخمصہ بنا ہوا تھا۔ 22دسمبر کو الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا تھا۔ تب الیکشن کمیشن نے کہا کہ تحریک انصاف پارٹی آئین‘ الیکشن ایکٹ 2017ء اور الیکشن رولز 2019ء کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کروانے میں ناکام رہی ہے‘ اس لیے یہ انتخابات کالعدم قرار دیے جاتے ہیں اور اُس کا انتخابی نشان واپس لیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس پر پشاور ہائی کورٹ نے 26دسمبر کو پاکستان تحریک انصاف سے 'بلے‘ کا انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ معطل کردیا۔پشاور ہائی کورٹ کے تحریری فیصلے میں ریمارکس دیے گئے کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کر نا اس کے ووٹرز کی حق تلفی ہے‘ فریقین کے تفصیلی دلائل سننے کے بعد الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کیا جاتا ہے۔لیکن یہ عبوری فیصلہ تھا جس پر حتمی سماعت نو جنوری کو دو رکنی بینچ میں ہونا طے پائی۔ الیکشن کمیشن نے پشاور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ اس دلیل کے ساتھ چیلنج کر دیا کہ اسے سنے بغیر عدالت نے حکم امتناع جاری کردیا ہے‘ جس پر پشاور ہائی کورٹ نے تین جنوری کو پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے اور بلّے کا انتخابی نشان واپس لینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ پھر بحال کردیا ۔یہ فیصلہ آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے ایک مرتبہ پھر اس فیصلے کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا جس کی سماعت 10 جنوری کو جسٹس اعجاز انور اور جسٹس سید ارشاد علی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی اور فریقین کے دلائل مکمل ہونے پرالیکشن کمیشن کے 22 دسمبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا بحال کر دیا۔لیکن یہ لڑائی یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ الیکشن کمیشن نے پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کر دیا جہاں تادمِ تحریر سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ اُمید ہے کہ جب یہ کالم آپ کی نظروں سے گزرے گا تب تک پاکستان تحریک انصاف کو بلّے کا انتخابی نشان واپس ملنے یا نہ ملنے کے حوالے سے حتمی فیصلہ سامنے آ جائے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved