تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     14-01-2024

چراغ خود نہیں جلتا‘ جلایا جاتا ہے

ایک صدی سے بھی زائد مدت کے دوران دنیا کچھ کی کچھ ہو گئی ہے۔ سو سال پہلے جو دنیا تھی‘ وہ اب کہاں دکھائی دے سکتی ہے جبکہ محض تین چار عشروں پہلے کی دنیا بھی ہمیں کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ تبدیلیاں اتنی تیزی سے رونما ہو رہی ہیں کہ انسان محض دیکھتا اور سوچتا ہی رہ جاتا ہے۔ 1970ء کے بعد دنیا بھر میں تبدیلیوں کے رونما ہونے کا عمل تیز ہوا اور اب معاملہ یہ ہے کہ دنیا دیکھتے ہی دیکھتے بدل جاتی ہے اور ہم محض سوچتے رہ جاتے ہیں کہ اب کیا کریں‘ یہاں سے کہاں جائیں۔ تبدیلیوں کو تو واقع ہوتے رہنا ہے۔ ہم چاہے جتنی کوشش کر لیں تبدیلیاں تو رُکنے والی نہیں۔ ایسے میں ہمارے پاس صرف ایک آپشن بچا ہے‘ یہ کہ ہم زندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں یعنی تبدیلیوں کا ساتھ دیں‘ اپنے آپ کو اس طور بدلیں کہ زندگی کی معنویت میں اضافہ ہو۔
بیسویں صدی کے دوران انسان کیلئے سب سے بڑا چیلنج تبدیلیوں کی شکل میں پیدا ہوا۔ فطری علوم و فنون میں پیش رفت کا بازار ایسا گرم ہوا کہ اس نے پھر کبھی ٹھنڈا ہونے کا نام نہیں لیا۔ ٹیکنالوجیز کی آمد نے دماغ کی چُولیں ہلا دی ہیں۔ تقریباً پانچ عشروں سے یہ ہو رہا ہے کہ ہم ایک خاص طرزِ زندگی اپنانے کے بارے میں سوچتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ اس طور بدل جاتا ہے کہ کسی اور طرزِ فکر و عمل کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی بھرمار نے انسان کو انتخاب کے مرحلے میں پھنسا دیا ہے۔ ایلون ٹوفلر نے ایک ایسی ہی دنیا کی پیش گوئی کی تھی جس میں سب کچھ دیکھتے ہی دیکھتے بدل جائے گا اور قدم قدم پر انتخاب کا مرحلہ درپیش ہوگا۔ اسی کو ٹوفلر نے ''فیوچر شاک‘‘ کا نام دیا تھا یعنی ہم ابھی ایک چیز کے عادی ہو رہے ہوتے ہیں کہ کوئی اور چیز وارد ہو جاتی ہے اور ہم حیران و پریشان رہ جاتے ہیں۔
تین عشروں کے دوران تبدیلیوں کے رونما ہونے کا عمل مزید تیزی ہوا ہے۔ مشین لرننگ کا زمانہ کب کا آچکا تھا مگر وہ ہماری زندگی کا ناگزیر حصہ اب بنا ہے۔ آج کی دنیا میں کوئی بھی شخص ٹیکنالوجیز سے دور رہنے کو آپشن کے طور پر نہیں اپنا سکتا۔ اگر معاشی‘ معاشرتی اور نفسی طور پر ترقی سے ہم کنار رہنا ہے تو لازم ہے کہ مشین لرننگ کو وسعتِ قلب کے ساتھ اپنایا جائے۔ مشین لرننگ نے ہمیں مصنوعی ذہانت کی بھول بھلیوں تک پہنچا دیا ہے۔ اب اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں سُوجھ رہا۔ جسے ڈھنگ سے جینا ہے اسے اس بھول بھلیاں کو زندگی کی بنیادی قدر کے طور پر قبول کرنا پڑے گا‘ اپنانا پڑے گا۔ اور اس میں بھی حیرت کی بات کیا ہے؟ بہت کچھ ایسا ہے جو ہم سے ذرا بھی تعلق نہیں رکھتا مگر ہماری زندگی کا حصہ ہے۔
مصنوعی ذہانت ہمارے لیے ایک بہت بڑے چیلنج کے روپ میں وارد ہوئی ہے۔ یہ کوئی نیا معاملہ ہیں۔ کئی عشروں کے دوران مشینوں کو جس انداز سے ترقی دی جاتی رہی تھی اُس کے نتیجے میں مصنوعی ذہانت کا یوں ہماری زندگی کا ناگزیر حصہ بن جانا لازم تھا۔ ہمیں اپنے آپ کو اس کیلئے بہت پہلے سے تیار کرنا چاہیے تھا۔ ٹیکنالوجیز آتی ہیں تو اپنے ساتھ نئے امکانات بھی لاتی ہیں۔ امکانات کے پہلو بہ پہلو چند ایک معاملات کی تباہی بھی ہوتی ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ یہ تو ہونا ہی ہوتا ہے۔ ہر نئی ٹیکنالوجی انسان کو بہتر کارکردگی کی طرف بھی لے جاتی ہے اور بعض معاملات میں ایسی خرابی کی راہ بھی ہموار کرتی ہے جس سے بچنے کیلئے کچھ نہ کچھ کرنا لازم ہوتا ہے۔ مصنوعی ذہانت سے بہت پہلے یعنی کم و بیش تین عشروں کے دوران ایسا بہت کچھ ہوا ہے جس نے ہمیں ہلاکر رکھ دیا ہے۔ کئی شعبے نئی ٹیکنالوجیز کی چوکھٹ پر قربان ہو گئے۔ بعض شعبوں سے وابستہ افراد کو وقت کے ساتھ چلنے کیلئے غیر معمولی تگ و دَو کرنا پڑی ہے۔ یہ سب کچھ نیا ہے نہ انوکھا۔ انسان کو ہر دور میں تبدیلیوں کیلئے تیار رہنا ہی پڑتا ہے۔ تکنیکی یا مادّی ترقی انسان کو بدلتی رہتی ہے۔ صدیوں کے عمل میں انسان نے جو کچھ کیا اور پایا اُس کا مجموعہ آج ہمارے سامنے ہے۔ آج کے انسان پر دباؤ غیرمعمولی ہے۔ یہ بالکل فطری امر ہے۔ زندگی کے دامن میں جو کچھ بھی ہے وہ یونہی نہیں مل جاتا‘ تگ و دَو کرنا پڑتی ہے۔ ہر دور کے انسان کو اس مرحلے سے گزرنا پڑا ہے۔ ہماری تگ و دَو بھی ناگزیر ہے۔
مصنوعی ذہانت اب زندگی کے ہر شعبے‘ ہر معاملے پر محیط ہے۔ ہمیں قدم قدم پر اس کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور اس سے مستفید بھی ہونا پڑتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجیز نے انسان کو عجیب دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ کچھ طے ہی نہیں کر پاتے کہ کیا کرنا ہے‘ کس طرف جانا ہے۔ زندگی بسر کرنے کا ڈھنگ تبدیل ہو چکا ہے۔ آج ہماری زندگی میں ایسا بہت کچھ ہے جو ہماری مرضی کا نہیں۔ بعض معاملات میں انتہائی نوعیت کی پیچیدگی کا سامنا ہے اور ہم اُس سے جان بھی نہیں چھڑا سکتے۔ زندگی صرف اور صرف عمل سے عبارت ہو تو زندگی ہے۔ ہر دور میں زندگی کا بنیادی تقاضا عمل رہا ہے اور آج یہ معاملہ غیرمعمولی شدت کا ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ غیرمعمولی عمل پسندی ہماری فکر ساخت کا حصہ ہونی ہی چاہیے۔ آج کی دنیا بھی گزری ہوئی دنیاؤں سے مختلف نہیں کہ عمل کو ترجیح نہ دی جائے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ آج کی دنیا میں ترجیح صرف عمل کو حاصل ہونی چاہیے۔ زندگی کا عملی پہلو دیگر تمام پہلوؤں پر حاوی اور محیط ہے۔
مصنوعی ذہانت کی آمد نے لازم کر دیا ہیے کہ تعلیم و تربیت کا پورا نظام تبدیل کردیا جائے۔ روایتی نوعیت کی تعلیم و تربیت آج کی نئی نسل کو بہتر طور پر جینے میں کسی بھی سطح پر قابلِ ذکر حد تک مدد نہیں دے سکتی۔ مصنوعی ذہانت ایسا چیلنج ہے جس کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ اس معاملے میں SKIPکا آپشن ہے ہی نہیں۔ جو کچھ بھی درپیش ہے اُس سے نپٹنا ہی پڑے گا۔ اور اگر غور کیجیے تو اسی میں زندگی کا حقیقی لطف بھی پوشیدہ ہے۔ مصنوعی ذہانت نے ہمیں بہت کچھ کرنے کی تحریک دی ہے۔ نئی نسل مصنوعی ذہانت کو زندگی کا حصہ بنانے پر آمادہ دکھائی دیتی ہے۔ معمر نسل کیلئے وقت کی رفتار سے ہم آہنگ رہنا ہر دور میں ناممکن رہا ہے۔ یہی معاملہ آج بھی ہے۔ اب ایک اضافی مشکل یہ ہے کہ جو کچھ بھی معیاری زندگی بسر کرنے کیلئے رکھنا اور استعمال کرنا لازم ہے وہ معمر یا سینئر نسل کو بھی اپنانا ہی ہے‘ سیکھنا ہی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے حامل آئی ٹی ٹولز سے بطریقِ احسن مستفید ہونے کیلئے ناگزیر ہے کہ انسان اس حوالے سے اپنا ذہن تیار کرے۔ یہ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ذہن کو قبولیت پر آمادہ کیا جائے۔
جدید ٹیکنالوجیز ہمارے لیے چیلنج ہی نہیں‘ مواقع بھی تو ہیں۔ اور ہمیں یہ نکتہ ہر قدم پر ذہن نشین رکھنا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے چُھٹکارا ممکن نہیں۔ یہ اب زندگی کے ساتھ مکمل طور پر Embedded ہے۔ جو چیز زندگی کا حصہ بن کر رہ جائے اُسے قبول کرنے سے انکار کا آپشن ہوتا ہی نہیں۔ ہمیں وہ دور ملا ہے جس میں ہر طرف امکانات ہیں اور مشکلات بھی کم نہیں۔ بہت کچھ ہے جو ہم پا چکے ہیں اور مزید بہت کچھ پا سکتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ ہمیں بہت کچھ کرنا بھی ہے۔ سیکھنے کا عمل جاری رکھنا ہے۔ سیکھے ہوئے کی مشق بھی لازم ہے۔ مصنوعی ذہانت‘ باقی دنیا کی طرح ہمارے ہاں بھی بہت سے شعبوں کو ڈکار جانے کے فراق میں ہے۔ اس کے آگے بند باندھنا ہی پڑے گا۔ بند باندھنے کی معقول ترین صورت ہے اپنے آپ کو تبدیلی کیلئے تیار کرنا۔ ہر تبدیلی سب سے پہلے ذہن کے پردے پر نمودار ہوتی ہے۔ وہاں سے یہ عملی یعنی حقیقی دنیا کا حصہ بننے کی طرف مائل ہوتی ہے۔ مصنوعی ذہانت ہم سے قدم قدم پر مطالبہ کر رہی ہے کہ ہم اپنے وجود کو‘ فکری ساخت کو بدل ڈالیں اور وہ سب کچھ کریں جو آج کی تمام ٹیکنالوجیز سے مستفید ہونے کیلئے لازم ہے۔ اس سمت پہلا قدم تعلیم و تربیت کا ڈھانچا بدلنے کا ہے۔ تحریک پانا اور عمل پسند ہونا لازم ہے کیونکہ چراغ خود نہیں جلتا‘ جلایا جاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved