آپ کسی عزیز یا مہمان کو رخصت کرنے اسلام آباد ایئر پورٹ جائیں تو مسافروں اور انہیں رخصت کرنے والوں کے ہجوم میں ایک شخص نظر آئے گا جو اپنے سامنے میز رکھے کرسی پر بیٹھا ہو گا۔اس کی میز کے آگے لکھا ہے کہ چار سو یا پانچ سو روپے فیس ادا کر کے آپ پورٹر ( قلی) لے سکتے ہیں۔ اگر سامان زیادہ ہو تو مسافر‘ خاص طور پر خواتین مسافروں کو مشکل پیش آتی ہے۔ پورٹر کی مدد سے مراحل ذرا سہولت سے طے ہو جاتے ہیں!
گزشتہ اڑھائی تین ماہ کے دوران‘ مہمانوں اور اعزہ کو رخصت کرنے کے لیے مجھے تقریباً دس بار ایئر پورٹ جانا پڑا۔ میز کرسی لگا کر بیٹھنے والے اہلکار سے ہر بار پورٹر کا تقاضا کیا۔ ہر بار اس کا ایک ہی جواب تھا کہ پورٹر دستیاب نہیں ہے۔ایک دو بار یہ بھی بتایا گیا کہ پورٹر ٹرالیوں کی قطار کو اندر لے جانے میں مصروف ہیں! یہ اور بات کہ ڈیپارچر والی سائڈ پر خالی ٹرالی حاصل کرنا بھی جوئے شِیر لانے کے برابر ہے۔ یہ سارے معاملات جس ادارے کے سپرد ہیں اس کا نام '' سول ایوی ایشن اتھارٹی‘‘ ہے !
گزشتہ ہفتے ایک بار پھر یہی تجربہ ہوا تو سوچا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی والوں سے بات کر کے پتہ چلا یا جائے کہ اس تکلیف دِہ صورت حال کا سبب کیا ہے اور اس کا حل کیا ہے۔ چنانچہ ایئر پورٹ کے ٹیلی فون ایکسچینج پر فون کیا۔ایک خاتون نے فون اٹھایا۔پوچھا ایئر پورٹ پر سول ایوی ایشن اتھارٹی کا بڑا افسر کون ہوتا ہے؟ اس نے بتایا ''ڈیوٹی ٹرمینل مینجر‘‘ ( ڈی ٹی ایم ) ہوتا ہے۔ کہا‘ان سے بات کرائیے! کچھ دیر ایکسچینج والی خاتون جیسے زیر زمین غائب ہو گئیں۔ جب ابھریں تو خبر لائیں کہ ڈی ٹی ایم موجود نہیں! ان کی خدمت میں عرض کیا کہ کسی اور ذمہ دار افسر سے بات کرائیے۔ خاتون نے ایک صاحب کو لائن پر لیا۔ ان کا نام بھی بتایا اور ان کے عہدے کا نام بھی ! مگر یہاں ان کا نام اور ان کے عہدے کا نام نہیں لکھا جا رہا اس لیے کہ اعلیٰ حکام نظام کو درست کرنے کے بجائے اس افسر کے پیچھے پڑ جائیں گے کہ پاکستان میں یہی ہوتا ہے اور یہی ہوتا آیا ہے! بہر طور اس ذمہ دار افسر سے جو مکالمہ ہوا‘ آپ اس سے لطف اندوز ہوں :
٭ جناب ! '' روانگی‘‘ والی سائڈ پر پورٹر کبھی نہیں ملتا
٭ ایسی بات نہیں ہے۔
٭ جناب ! ایسی ہی بات ہے۔ میں کئی بار گیا ہوں۔ پورٹر دلانے والے ڈیسک سے بھی پورٹر کبھی نہیں ملا۔ وہ ہر بات معذرت کر دیتے ہیں!
٭ کس نے معذرت کی ؟ اس کا نام بتائیے !
٭نام نہیں پوچھا۔ نام لے کر آپ کریں گے بھی کیا۔ آپ اپنا سسٹم ٹھیک کیجیے۔ مسافروں کو پورٹر دستیاب ہونے چاہئیں!
٭پورٹر موجود ہوتے ہیں۔
٭ میں غلط نہیں کہہ رہا۔ کئی بار تجربہ ہوا ہے۔ کبھی نہیں میسر ہوا۔
٭ہو سکتا ہے رش میں ایک آدھ بار ایسا ہو گیا ہو۔
٭ نہیں جناب! ایک آدھ بار نہیں! آٹھ دس بار ایسا ہوا ہے!
٭ میں نے کہا نا کہ رش میں ایسا ہوا ہو گا۔
٭جناب! جب بھی فلائٹ جانے والی ہو گی‘ رش ہی ہو گا! رش ہی کی بات کر رہا ہوں! جب رش نہیں ہو گا تو فلائٹ بھی نہیں ہو گی اور پورٹر کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔
٭ ایسی بات نہیں ہے۔ پورٹر موجود ہوتے ہیں۔
٭کیا کبھی رش کے دوران آپ نے خود آکر صورت حال کا معائنہ کیا ہے ؟
٭ میں آپ کو بتا رہا ہوں ! پورٹر وہاں ہوتے ہیں۔
٭اگر ہوتے تو مجھے آپ کے نوٹس میں لانے کی اور شکایت کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
٭ میں آپ کو بتا رہا ہوں۔ پورٹر موجود ہوتے ہیں۔
یہ ہے سرکاری اداروں کی کارکردگی کی ایک جھلک! اور عام شہری کی بات کی اہمیت! بجائے اس کے کہ حقیقت تسلیم کی جائے اور مسئلہ حل کیا جائے‘ شکایت کرنے والے کو جھٹلایا جاتا ہے۔ بیروزگاری ملک کے منہ کو آرہی ہے۔ پورٹر کم ہیں تو مزید بھرتی کرنے چاہئیں! مسافروں کو بھی سہولت ہو گی اور کچھ شہریوں کو روزگار بھی مل جائے گا۔ مگر آپ جب یہ تجویز دیں گے تو آگے سے بجٹ کا اور فنڈز کی کمی کا رونا رویا جائے گا۔ اپنی مراعات کی بات کوئی نہیں کرے گا۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی جیسے ادارے سونے کی مرغی سے کم نہیں۔ اہلِ روابط ہی ان اداروں میں تعینات ہو سکتے ہیں۔ یہ ہری بھری‘ سر سبز و شاداب پُر کشش چراگاہیں ہیں! اعلیٰ افسران کی تنخواہوں اور مراعات کی تفصیل سن کر دماغ گھوم جاتا ہے! ادارے کے اصحابِ قضا و قدر کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ مسافر ہوائی اڈوں پر کن حالات کا سامنا کر رہے ہیں!! دو متوازی لکیریں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ کبھی آپس میں نہیں ملتیں! ایک طرف ایئر کنڈیشنڈ دفاتر ہیں اور رہنے کے لیے محلات! بڑی بڑی گاڑیاں! مفت پٹرول! مفت علاج! نوکروں کی فوج ظفر موج! دوسری طرف ایئر پورٹوں پر دھکے کھانے والے مسافر! یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کبھی کوئی شکایت نہیں آئی! بھئی! شکایت کرے گا کون؟ اول تو اس ملک میں شکایت کرنے کا اور اپنا حق مانگنے کا رواج ہی نہیں! یہاں تو یہ سکھایا جاتا ہے کہ مٹی پاؤ! روٹی شوٹی کھاؤ اور چلتے بنو! شکایت کوئی کرنا بھی چاہے تو متعلقہ افسر یا اہلکار کا فون نمبر یا ای میل ایڈریس ہی نہیں ملتا! مل جائے تو شکایت کرنے کا انجام اوپر دیے ہوئے مکالمے میں آپ دیکھ چکے ہیں!
یہ صرف ایک ادارے کی بات نہیں! ہر محکمے میں‘ ہر ادارے میں‘ ہر دفتر میں یہی چلن عام ہے! سائل کو اپنے حضور بلایا جاتا ہے۔ حکومت جس ٹیلی فون کا بل عوام کے ٹیکسوں سے ادا کرتی ہے‘ اُس ٹیلی فون کو عوام کی سہولت کے لیے کم ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ زیادہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ سائل حاضر ہو‘ عرضی دے اور پھر چکر لگاتا رہے! ایک بزرگ بتا رہے تھے کہ ان کی کچھ رقم '' قومی بچت‘‘ کے ادارے میں جمع تھی۔ ایک ملک کا ویزا لینا تھا اور ویزا لینے کے لیے بتانا تھا کہ قومی بچت کے مرکز میں وہ اتنی رقم کے مالک ہیں! انہوں نے قومی بچت کی متعلقہ برانچ میں فون کیا اور افسر انچارج سے کہا کہ ایک سٹیٹمنٹ ان کے وٹس ایپ پر بھیج دیں ! افسر نے فوراً کہا کہ درخواست لے کر آئیے! انہوں نے متعلقہ وزارت سے فون کرایا تو مطلوبہ سٹیٹمنٹ وٹس ایپ پر چند منٹوں ہی میں موصول ہو گئی۔
ہمارے سرکاری محکموں کی بنیادی پالیسی یہ نہیں کہ عوام کو سہولت بہم پہنچانی ہے۔ غیر تحریری بنیادی پالیسی یہ ہے کہ اپنی اہمیت جتاؤ ! اپنی اہمیت جتانے کا بہترین نسخہ یہ ہے کہ لوگ حاضر ہوں! عرضی گزاریں! اس کے بعد چکر لگائیں! ترقی یافتہ دنیا میں انسانی رابطہ کم سے کم کر دیا گیا ہے۔ کام مشینوں پر ہو رہے ہیں۔ ای میل اور وٹس ایپ کو عوام کی راحت کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ آپ ای میل پر‘ یا وٹس ایپ پر یا فون پر‘ متعلقہ اہلکار کو بتائیں کہ آپ اتنے بجے ایئر پورٹ پر پہنچیں گے۔ آپ کو پورٹر الاٹ کر دیا جائے اور اس کا فون نمبر دے دیا جائے۔ فیس آپ بینک میں آن لائن ٹرانسفر کر دیں اور رسید یعنی ثبوت‘ ادارے کو بھیج دیں۔ ایئر پورٹ پہنچ کر آپ فون کر کے پورٹر سے رابطہ کر لیں! دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں کام اسی طرح ہو رہے ہیں! مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ ! محنت ہم بہت کرتے ہیں مگر ذاتی فائدے کے لیے ! ملک‘ قوم اور عوام کے لیے محنت کرنے سے کیا حاصل ؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved