سیاست کی بصری ثقافت کے کئی رنگ ہیں۔ علامتیں اور نشانات کسی بھی سیاسی جماعت کی عوام میں شناخت ہوتی ہیں۔ جو حالات چل رہے ہیں ہم نے حیران ہونا چھوڑ دیا ہے کہ تحریک انصاف سے آزاد‘ جمہوری‘ شفاف اور منصفانہ انتخابات کرانے کی غرض سے وطنِ عزیز کے آزاد اور آئینی اداروں نے بلّا چھیننے کے لیے کیا کیا حربے استعمال نہیں کیے۔ ہر ایک کو یقین ہو جانا چاہیے کہ سب موروثی سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت ہے‘اگر نہیں تو تحریک انصاف میں نہیں۔ اور یہ بھی یقین کر لیں‘ ہم تو کب کے کر چکے‘ کہ میدان سب کے لیے ہموار ہے۔ آپس کی بات ہے‘ میدان کی ہمواری کے بارے میں جو کچھ ہم جانتے ہیں‘اس کے بارے میں جو ہماری سمجھ بوجھ ہے‘ صرف اسے تبدیل کرنا پڑے گا۔ ہم تو بے بس عوام میں سے ہیں‘ مقتدر طبقات کو یہی کہہ سکتے ہیں کہ ' جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔‘ حسن والی بات تو بہ زبانِ شاعر ہے‘ ہم تو خوفناک صورتحال دیکھ رہے ہیں۔ ایک طرف عوام اور دوسری طرف موروثی اور ان کا اثر و رسوخ جو اندھے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ جو پرُسرار اندرونی اور بیرونی طاقتیں اپنی مہربانیوں کی بارش کر رہی ہیں ہمیں سکت نہیں کہ رازداری میں بھی کچھ کہہ سکیں۔ جو نوازشیں کی گئی ہیں‘ کی جا رہی ہے اور جن کے مزید احکامات بہت روشن ہیں‘ ایسے ہی نہیں۔لین دین کی ثقافت میں جو پروان چڑھتے ہیں‘ وہ صرف اسی فن میں طاق ہوتے ہیں۔ انگریزی میں ایک فقرہ اکثر استعمال ہوتا ہے کہ کہیں فری لنچ نہیں ملتا۔ اس نوع کی کاروباری سیاست بند کمروں میں ہوتی ہے‘ مگر جہاں سودے بازی کر کے کردار باہر نکلتے ہیں تو ان کی بدن بولی پرنظر رکھنے والے سمجھ جاتے ہیں۔ اب تو ملک کے کونے کونے میں بسنے والے عوام بھی اتنے صاحبِ نظر ہیں کہ کسی کا منہ کھلنے‘ اور کانفرنس ہونے سے گھنٹوں پہلے سب کو معلوم ہو جاتا ہے کہ نوازشوں کا رُخ کس طرف ہے۔ اگر آپ یہ لفظ کسی نام سے ملتا جلتا دیکھ رہے ہیں تو محض اتفاق ہے یا اُردو زبان کی رنگینی۔ اس درویش کو ہرگز ذمہ دار نہ ٹھہرائیں۔
معافی چاہتا ہوں‘ بات سیاسی جماعتوں کے نشانات کی ہو رہی تھی کہ ان کے بغیر وہ انتخابی سیاست کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ بلے کے انتخابی نشان پر کیوں جھگڑا پڑا ہے‘ کہ عام آدمی جانتا ہے کہ وہ اُس جماعت اور رہنما کی نمائندگی کرتا ہے۔ آج سوشل میڈیا کے پھیلاؤ کی وجہ سے نفرت‘ بے حس مخالفت اور ایذا رسانی کے ذمہ دار کردار عوام کی نظروں میں کھل کر آجاتے ہیں۔ نہ جانے ہم ذاتی مفاد کے لیے کیوں ملک اور قوم کو برباد کرتے جا رہے ہیں۔ جب تک قلم میں سیاہی اور زبان میں سکت ہے‘ ہم یہ سوال اٹھاتے رہیں گے۔ خوف آتا ہے کہ مفاد پرست ٹولے عوام کو دیوار کے ساتھ لگا کر اداروں کو برباد کر رہے ہیں۔ یہ کیسے انتخابات ہیں ؟کیسی آزادی ہے اور کیسی قانون اور آئین کی تشریح ہے کہ سیاسی جماعت اپنی انتخابی شناخت کے ساتھ میدان میں نہیں اُتر سکتی۔
آپ کے سامنے دو انتخابی علامات کی عجیب و غریب تاریخ رکھتا ہوں کہ گدھا کس طرح امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی اور ہاتھی ریپبلکن پارٹی کا نشان بنا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی الیکشن کمیشن نے یہ نشان تجویز نہیں کیے اور نہ ہی ان جماعتوں نے کہیں کوئی درخواست جمع کروائی اور نہ ان نشانات کے بارے میں کوئی کانفرنس ہوئی۔ یہ 19ویں صدی کے ہارپر میگزین کے مشہور زمانہ کارٹونسٹThomas Nastکا کارنامہ ہے جو سیاسی طنزومزاح کے لیے جانوروں کا سہارا لیتے تھے۔
پہلے گدھے کی بات کرتے ہیں کہ اس جانور کے ساتھ لوگ کیا کیا سلوک نہیں کرتے۔ اینڈریوجیکسن امریکہ کا مشہور جنرل‘ قومی ہیرو اور کانگرس کا رکن بھی رہ چکا تھا اور 1824ء کے انتخابات میں وہ صدارت کا امیدوار تھا۔عوام کی اکثریت نے اس کے حق میں ووٹ دیا مگر الیکٹورل کالج کے ووٹ اس کے مخالف کے ساتھ برابر نکلے۔ سپیکر آف دی ہاؤس نے سازش کر کے اسے ہروا دیا کہ اس صورت میں ایوان کے نمائندگان نے ووٹ ڈالنا تھا۔اس انتخابی مہم میں مخالفین نے اینڈریو جیکسن کو گدھا کہنا شروع کر دیا کہ وہ بے وقوف‘ بے مغز اور ضدی ہے۔ اینڈریو جیکسن اپنا مقدمہ عوام کے پاس لے گئے اور نہ صرف عوامی جمہوریت کی بنیاد رکھی بلکہ ڈیموکریٹک پارٹی کو بھی ٹھوس بنیادوں پر تشکیل دیا۔ اگلے انتخابات میں اپنے لیے گدھے کے نشان کو ہی صدارتی انتخابات کے لیے چنا اور دوبار متواتر بھاری اکثریت سے جیتے۔ اس کے بعد آنے والوں نے گدھے کی بجائے مرغ کے نشان کو انتخابی علامت بنا لیا مگر0 187ء کی دہائی میں تھامس ناسٹ نے ڈیموکریٹک پارٹی کا مذاق اڑانے اور اس کی غیر مؤثر پالیسیوں کو نشانے پر رکھنے کے لیے گدھے کو سیاسی کارٹونوں میں بار بار استعمال کیا۔ وہ امریکی سیاست اور حکمرانوں کے نقاد تھے اور ہر ایک کے لیے انہوں نے کسی جانور کا کارٹون مختص کیا ہوا تھا۔ یہ محض ایک منفی کردار کے طور پر علامت تھی‘ لیکن ڈیموکریٹک پارٹی نے بخوشی اپنے لیے قبول کر لی۔ شاید یہ بات امریکہ میں عام آدمی بھی نہیں جانتا‘ سوائے دانشور استادوں کے جو امریکی تاریخ اور سیاست کے طالب علم ہیں۔ بیشک گدھا ضد‘ کم عقلی‘ حماقت اور کند ذہن ہونے کی علامت ہے لیکن انتخابی سیاست کے حوالے سے اس کی تاریخی شناخت ہے۔
یہ 1874ء کے درمیانی مدت کے انتخابات تھے کہ اخباروں میں سرخیاں لگنا شروع ہو گئیں کہ صدر اولیسس گرانٹ تیسری بار صدارت کے امیدوار ہوں گے۔ اس موقع پر تھامس ناسٹ نے ایک بھاری بھرکم ہاتھی کو ایک گڑھے کے کنارے کھڑا دکھایا جس کا مطلب یہ تھا کہ صدر گرانٹ نے انتخابات میں حصہ لیا تو پارٹی اپنے ہی وزن سے تباہ ہو جائے گی۔ یہ کارٹون اتنا مقبول ہوا کہ ابراہم لنکن نے اپنے لیے اسے انتخابی نشان چُن لیا۔ اور تب سے ہاتھی اس کا ساتھی ہے۔ خانہ جنگی کے دوران امریکہ کی یونین فورسز نے'' ہاتھی دیکھا ہے‘‘ کے فقرے کو ایک اور مفہوم میں زبان زدِ عام کیاکہ لڑائی میں حصہ لیا ہے۔ اس طرح ''میں ہاتھی دیکھ رہا ہوں‘‘ کا مطلب یہ تھا کہ لڑائی ہونے والی ہے۔ اس زمانے میں ہی تھامس ناسٹ نے گدھے کے کئی کارٹون ڈیموکریٹک پارٹی سے منسوب کیے۔تاریخی روایات کو جہاں کہیں بھی احترام کی نگاہ سے دیکھا گیا‘ وہاں مقبولیت اور بلندی دیکھی گئی۔ کسی سیاسی رہنما ادارے اور شخص نے تھامس ناسٹ کے خلاف مقدمہ درج کرایا نہ اسے اپنی اس حرکت پر شرمندہ کرنے کے لیے کوئی پریس کانفرنس کرنے پر مجبور کیا۔ اس کا نام نہایت احترام سے لیا جاتا ہے اور تاریخ اس کی آزادیٔ رائے اور جرأت کی‘ جانوروں کی صورت میں دنیا کی مضبوط جمہوریت کی دو سیاسی جماعتوں کے انتخابی نشانات کی صورت میں گواہی دیتی ہے۔ اپنی قومی صورتحال اور جو بڑے بڑے دماغ‘بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے یہ کر رہے ہیں‘ ہم ان کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے‘ بہرحال کہیں جبر اور بے رحمی کا دور ہو اور خاموشی اختیار کر لیں‘ یہ بھی ہمارے کمزور دل کو گوارا نہیں۔ ابھی تو پٹی چل رہی ہے‘ کہانی جا ری ہے‘ ڈرامہ دیکھ رہے ہیں‘ کیا عجیب کیفیت ہمارے ملک کے اکابرین نے بنا دی ہے کہ بلا ہے تو سر نہیں اور سر ہے تو بلا نہیں۔ ہمارے خیال میں سر اور بلا دونوں سلامت رہ سکتے ہیں اگر بغض‘ نفرت خوف اور ذاتی مفادات کو کوڑے دان میں پھینک دیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved