تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     15-01-2024

سب سے بڑی عدالت سے حوثی مجاہدین تک …(2)

جس ملک کی سپریم کورٹ میں ہیجان پیدا ہو وہ آئینی بحران سے بھی بڑا مسئلہ ہے۔ تازہ ہیجان کا طوفان یکے بعد دیگرے سپریم کورٹ کے دو سینئر جج حضرات‘ جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن کے استعفوں نے اٹھایا۔ ویسے توپورے ملک کو اہلِ قیادت نے ہیجانستان بنا رکھا ہے جس کی وجہ سے زندگی کا کوئی بھی شعبہ ایسا باقی نہیں بچا جہاں ہیجان نہ ہو۔ کوئی بھی طبقہ ایسا نہیں بچا جس کے لوگوں کی زندگی خلجان سے بھرپور نہ ہو۔ ماسوائے اُن کاروباری سیاست کاروں کے‘ پاکستان جن کیلئے صرف چراگاہ ہے۔ لُٹو تے پُھٹّوجن کا ایمان اور ونڈّ کھائو‘ کھنڈّ کھائو جن خاندانوں کی مستقل سٹریٹجی ہے۔ آج یہ سٹریٹجی باقاعدہ ملکی ایجنڈا بن چکی ہے۔ جس کیلئے بینر ہیڈ لائن کہتی ہے‘ وہ کھاتے ہیں تو لگاتے بھی تو ہیں۔ اب اس میں بھی کوئی شک باقی نہیں رہا کہ وہ صرف اُنہی پر لگاتے ہیں‘ جو ان کو کھانے کے قابل بناتے ہیں۔ پچھلے 21 ماہ سے اس ہیجان کے نہ ختم ہونے والے دو میدان ملاحظہ کر لیں۔
جاری ہیجان کا پہلا میدان: یہ ہے 1973ء کے آئین کا دیا ہوا وہ بنیادی حق‘جو دستوری سکیم میں انتہائی ضروری اور پہلا پتھر کہلاتا ہے۔ یہ حق Right to Lifeکے بعد سب سے بڑا انسانی اور شہری حق ہے۔اس حق کے ذریعے ہر پاکستانی کو 8 فروری 2024ء کے دن ایک پرچی ملنے کی امید ہے۔ چاہے صدر ہو‘ کوئی چیف‘ منڈی مزدور یا دیہاڑی دار۔ ہر ایک کو صرف ایک پرچی دی جائے گی۔اکلوتی پرچی دینے کا مقصد ریاست کے اگلے پانچ سال کا اختیار عام آدمی کے ہاتھ آنا ہے۔وہ بھی ہر پانچ سال کے عرصے کے بعد۔ پچھلے 21ماہ میں پبلک سے یہ پرچی چھیننے کی صرف کوشش نہیں بلکہ گلی‘گلی میں اس چھینا جھپٹی کی جنگ چھڑی ہوئی ہے۔صوبہ پنجاب اورخیبر پختونخوا کے صوبے‘9 اپریل 2022ء سے دونوں ہی پرچی ہاتھ میں لینے کیلئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ کبھی نامعلوم افراد‘ کبھی معلوم افراداور کبھی کبھی عدل گاہیں25کروڑ لوگوں کو ا س پرچی کی تلاش کے پیچھے گھما رہی ہیں۔ ایک عدالت ہاتھ میں پرچی پکڑاتی ہے جبکہ دوسری عدالت یہ پرچی واپس لے جاتی ہے۔ان 21ماہ سے بلّی چوہے کا یہ کھیل مسلسل چل رہا ہے۔ہر روز وہی فتویٰ تازہ سیاہی سے لکھ کربرسرِبازار سجایا جاتا ہے۔ایک لفظ کبھی ادھر اُدھر نہیں ہوتا۔بس پرچی ادھر اُدھر ہو جاتی ہے۔تمام فتویٰ گر اور سارے فتویٰ فروش کہہ رہے ہیں الیکشن ہونا چاہیے۔صاف اور شفاف الیکشن ہوگا‘ لیول پلینگ فیلڈ اور سب کو برابر حقوق ملیں گے۔ کسی کے خلاف کوئی امتیازی حکم نہ ہوگا اور نہ ہی امتیازی کارروائی کی جائے گی۔ آنے والے جنرل الیکشن جمہوریت کی روح ہے۔ہم جمہوریت کوڈی ریل نہیں ہونے دیں گیـ۔کسی بھی قیمت پر Derail نہیں ہونے دیں گے۔
سوال یہ ہے‘کیا دنیا کے کسی دوسرے ملک میں الیکشن اور قیمت‘ دونوں کا ذکر کبھی ساتھ ساتھ آیا ہے؟ جواب ہے‘کبھی بھی نہیں۔اس لیے کہ جس ملک نے اپنے لوگوں کے لیے الیکشن کروانا ہوتا ہے اُس ملک میں الیکشن کی تاریخ آئین کا باپ بھی نہیں تبدیل کر سکتا۔ لیکن جہاں پہ الیکشن کے حق میں صرف فتّوے صادر ہوں‘ وہاں آئین بھی بروقت الیکشن نہیں کروا سکتا۔وہاں پہ قوتِ اخوتِ عوام والاقومی ترانہ بھی بروقت الیکشن کروانے کی گارنٹی دینے سے معذور ہے۔ایسے سماج کا شاعر خاموش ہے اوراندھیرے فروشوں کو صرف سرکاری سچ بولنے کی کھلی چھٹی ہے۔ جاری ہیجان کا دوسرا میدان: دوسرے میدان کی سب سے بڑی پہچان آپ کے سامنے لگا ہوا وہ بل بورڈ ہے جس پر 2024ء کے الیکشن کے حتمی مثبت نتائج لکھے ہوئے ہیں۔ چونکہ سب اچھا ہے اس لیے آنے والے الیکشن 25 کروڑ پاکستانیوں کی تقدیر سنوارنے کیلئے سب سے اچھے ثابت ہوں گے۔ان نتائج کو حاصل کرنے کیلئے الیکشن سے متعلقہ کچھ ادارے اور الیکشن سے غیر متعلقہ سارے ادارے پوری طرح سرگرم ہیں۔اس الیکشن سے نکلنے والے مثبت نتائج کی جھلکیاں اور ٹریلر‘دونوں آپ دیکھ چکے ہیں۔سرکاری گزٹ نوٹیفکیشن آنے کی دیر ہے‘ راوی ہر طرف چین کی بانسری بجائے گابلکہ مثبت نتائج کے لیے بانسری کی شرپسندی کوبھی جڑ سے بھی اکھاڑا جا رہا ہے۔تا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔بالکل ویسے ہی جیسے پڑوسی برادر ملک افغانستان میں کرپشن اور بدمعاشی کو جڑ سے اکھاڑا جا رہا ہے۔بلکہ ویسے ہی جیسے یمن کی حوثی حکومت نے اسرائیل کے رعب کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے۔ 14بڑی طاقتوں کی فائر پاور‘ بحری بیڑوں اور بمبار لڑاکا طیاروں کے مقابلے میں بھوکے ننگے اور پابندیوں کے مارے ہوئے یمن کے حوثی مجاہدین نے حماس کے فلسطینی مجاہدین کی طرح بین الاقوامی بدمعاشی کے چھکے چھڑا دیے ہیں۔جس کی ایک مثال صنعا پورٹ کے اردگرد اسرائیل کو اسلحہ سپلائی کرنے والے جہازوں پر انتہائی دلیرانہ حملے ہیں۔ جبکہ اس سلسلے کی دوسری مثال یمن پر مغربی ملکوں کے ففتھ جنریشن میڈیا وار سے ملتی ہے۔ممتاز برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک میزبان نے آزاد یمن کی انقلابی حکومت کے ترجمان محمد علی الحوثی سے تازہ انٹرویومیں بڑا چبھتا ہوا سوال پوچھا۔ محمد علی بتائیں !یمن کا ملک غزہ سے میلوں دور واقع ہے‘ پھر آپ فلسطینیوں کی حمایت کیوں کر رہے ہیں؟اس سوال پہ حوثی ترجمان نے گوری میزبان پہ جوابی سوال داغ دیا۔محمد علی نے ٹی وی اینکر سے ہی پوچھ لیا کیا جو بائیڈن اور نیتن یاہو‘ دونوں ایک اپارٹمنٹ میں اکٹھے رہتے ہیں؟ کیا وہ قابض ملک سے سینکڑوں میل دور ہیں یا نہیں؟یہ سن کر برطانوی میزبان لاجواب ہوگئی۔
بڑی عدالت سے بلّے کی واپسی کے فیصلے پہ کیا لکھنا۔ بلّا چلا گیا مگر اللہ تو ہے۔ جو تمنائیں جان لیتا ہے‘ سازشوں کو دیکھ سکتا ہے اوردعائیں سنتا ہے۔دل میں اُتر جانے والی ایک دعا پڑھتے ہیں:
لب پہ آتی ہے دعا بن کر تمنا میری
سن لے تو آج یہ فریاد‘ خدایا میری
تیرے محبوب نے جس سمت کئے تھے سجدے
حکم سے تیرے وہ اصحابِ نبیﷺ کے سجدے
سینکڑوں غم لیے سینے میں ہے غمگین کھڑا
اب فقط تیرے سہارے ہے فلسطین کھڑا
کاش دنیا یہ سمجھ پاتی یہ جھگڑا کیا ہے
آپ کے گھر پہ کسی غیر کا قبضہ کیا ہے
تُو جو چاہے تو ہر اک بات کو بہتر کر دے
اک نظر ڈال کے حالات کو بہتر کر دے
اب کہیں پہ نہیں شنوائی ہے میرے مولا!
ساری دنیا ہی تماشائی ہے میرے مولا!
جو تیرے نام پہ لڑتے ہیں اگر ہارے تو
اُس میں سچائی کی بھی تو رسوائی ہے میرے مولا!
اُن کی اجڑی ہوئی بستی کی صدائیں سُن لے
اے خدا قبلۂ اوّل کی دعائیں سُن لے
تُو چاہے تو بُرا وقت بھی ٹَل جائے گا
رات کی کوکھ سے سورج بھی نکل آئے گا
ہم نہیں کہتے ہمیں اُڑنے کو تُو پَر دے دے
تیرے ہی آگے جھکے ہم کو وہ سَر دے دے
لشکرِ فیل جہالت پہ اُتر آیا ہے
اے خدا پھر سے ابابیلوں کو کنکر دے دے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved