بَلّے کی بحالی اور منسوخی کا ڈراپ سین ہو چکا ہے‘ سپریم کورٹ کی طویل سماعت میں پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم اور الیکشن کمیشن کا مؤقف درست قرار پایا ہے۔ اس فیصلے کے بعد انتخابی مطلع صاف ہوتا دکھائی دے رہا ہے‘ قبل ازیں کہیں دھند چھائی ہوئی تھی تو کہیں گہرے بادلوں کا راج تھا۔ انتخابات کو ملتوی کرانے کے کئی حیلے اور عذر بھی ختم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ تحریک انصاف بالآخر انہی حالات سے دوچار ہو چکی ہے جن کے لیے تگ و دو جاری تھی۔ بَلّے کا نشان واپس ہونے کے بعد تحریک انصاف کے امیدوار غیر جماعتی ہو کر مختلف انتخابی نشانات کے ساتھ میدان میں اتریں گے جبکہ مخصوص نشستوں کا خسارہ بھی تحریک انصاف کو اضافی طور پر برداشت کرنا پڑے گا۔ پارٹی کی باگ ڈور وکلا کے حوالے کر نے کا فیصلہ مطلوبہ نتائج فراہم کرنے سے قاصر رہا ہے جبکہ مستحق امیدواروں کو نظرانداز کر کے وکلا کو امیدوار نامزد کرنے کا حربہ بھی الٹا پڑتا نظر آرہا ہے۔ یہ دونوں فیصلے پارٹی رہنماؤں اور ورکرز میں بددلی پیدا کرنے کے علاوہ کئی حوالوں سے نقصان دہ ثابت ہوں گے۔
اصل حقداروں کو پارٹی ٹکٹ سے محروم کر کے وکلا کو فوقیت دینے سے حلقوں میں سیاسی رابطوں اور جوڑ توڑ کا عمل بھی متاثر ہوگا۔ پارٹی کو ممکنہ نقصان سے بچانے کے علاوہ درپیش قانونی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تحریک انصاف کی سبھی تدبیریں اور حربے بے سود اور ناکام ہوتے جا رہے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی اسی گمان میں تھے کہ وکلا کو فرنٹ لائن پہ کرنے سے دفاع مضبوط ہو گا لیکن ماضی کے واقعات اور تاریخ کو مسلسل نظر انداز کرنے کی پالیسی کا خمیازہ تو بھگتنا ہی پڑے گا۔ مخصوص نشستوں کے ساتھ ساتھ ان آزاد ارکان کی لاٹری نکلنے کا خدشہ بھی بڑھ چکا ہے جو تحریک انصاف کی حمایت کے نتیجے میں اسمبلیوں تک پہنچیں گے۔ دور کی کوڑی لانے والے تو برملا کہتے ہیں کہ عمران خان کی یہ حکمت عملی جہاں بیک فائر کا باعث ہے وہاں پارٹی سے قبضہ چھڑوانا بھی کٹھن مرحلہ ہو سکتا ہے۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ارکان کے پاس یہ کھلا آپشن بھی ضرور ہوگا کہ وہ تحریک انصاف سے وابستہ رہ کر مشکل راستہ اختیار کرتے ہیں یا بطور آزاد امیدوار اچھے دام لگوا کر شریک اقتدار ہوتے ہیں۔
کہانی میں کئی موڑ اور ڈرامائی سین ابھی باقی ہیں‘ حالات عین موافق کرنے کے لیے بچھائی گئی بساط پر نجانے کتنے مہرے اور پیادے چالیں چلتے نظر آئیں گے۔ عمران خان کی طرزِ سیاست اور طرزِ حکمرانی سے لے کر افتادِ طبع کے سبھی کرشمے آشکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ دو صوبوں کی حکمرانی کو لات مارنے کا نتیجہ ختم ہونے کو نہیں آرہا‘ دونوں اسمبلیاں کیا توڑیں‘ پارٹی کو ہی تتربتر کر ڈالا۔ ایک طرف بنے بنائے اور سجے سجائے حلقے وکلا کو پلیٹ میں رکھ کر دے دئیے تو دوسری طرف کیسے کیسے عتابوں اور عذابوں کا شکار پارٹی رہنما بدستور جبر کا شکار ہیں۔ بعد از انتخابات منظر نامہ مزید ڈرامائی اور غیر متوقع ہونے کے اشارے واضح نظر آرہے ہیں۔ عملی طور پر تحریک انصاف پارلیمانی سیاست سے آؤٹ اور اپنے حمایت یافتہ آزاد حیثیت سے الیکشن جیتنے والوں کے رحم و کرم پر ہوگی۔ عمران خان اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ اسمبلی سے بھاگنے کے بجائے اسمبلی میں بیٹھ کر کرتے تو حالات یقینا مختلف اور معاملات سیاسی بساط پر ہوتے۔ سونے پہ سہاگہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں کو کفرانِ نعمت کی بھینٹ چڑھانے سے لے کر ایوانوں کے بجائے سڑکوں اور چوراہوں پر دھمال ڈالنے کا فیصلہ گلے کا طوق اور پاؤں کی بیڑی تو بن ہی چکا ہے‘ دوسری طرف ملک بھر میں ماورائے آئین حکمرانی کے جبر اور ستم نے پارٹی کو پارہ پارہ کر ڈالا ہے۔ ایسے میں نظم اور اتحاد کیونکر اور کب تک قائم رہ سکتا ہے‘ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔ سرکردہ پارٹی شخصیات کاغذاتِ نامزدگی کے مرحلے سے آگے نہ بڑھ سکیں البتہ کوشش کرنے والوں کے کاغذات نہ صرف مسترد بلکہ انہیں کہیں گھروں میں تو کہیں باہر مزہ بھی چکھا دیا گیا۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
مسلم لیگ(ن) نے بَلّے کا نشان واپس لینے کے عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے باور کروایا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ سبھی کو تسلیم کرنا چاہیے۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے‘ جس سپریم کورٹ کو مسلم لیگ(ن) نے حالیہ سالوں میں ہدفِ تنقید رکھا اور اکثر فیصلوں کو انصاف کے منافی اور سیاسی انتقام کا تسلسل قرار دیتے رہے‘ آج وہی پارٹی عدالتی فیصلوں کا خیرمقدم اور تسلیم کرنے کا بھاشن دے رہی ہے۔ کل تک سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سمیت دیگر جج صاحبان کے فیصلوں پر واویلا اور شعلہ بیانیاں کرنے والے آج تحریکِ انصاف کو اسی مقام پہ کھڑا دیکھ کر خوشی سے جھوم رہے ہیں‘لیکن یہ جشن ہمیشہ ہی عارضی رہا ہے۔ مملکتِ خداداد کی تاریخ کے ورق اُلٹائیں تو جشن اور ماتموں کی ایک سیریز برآمد ہوتی ہے۔ محوِ جشن پارٹی اگلے چند سالوں میں ماتم کناں تو ماتم کرتی پارٹی جشن مناتی اور دھمالیں ڈالتی نظر آتی ہے۔ ناجشن مستقل ہے نا ماتم مستقل۔ قبولیت کے بغیر مقبولیت بے کار اور قبولیت ہو تو مقبولیت کی پروا کون کرتا ہے۔
مملکتِ خداداد میں قبولیت اور مقبولیت کے درمیان بھٹکتے سماج سیوک نیتاؤں کے ماضی اور حال کا جائزہ لیں تو سبھی ضرورت مند اور دستِ نگر ہی نظر آتے ہیں۔ ان کی زندگیاں اور نسلیں حصولِ اقتدار اور طولِ اقتدار کے گرد طواف کرتی نظر آتی ہیں‘ نہ نظریات ہیں‘ نہ افکار۔ منشور اور ایجنڈے الفاظ کا گورکھ دھندا اور محض دستاویزات تک محدود ہیں۔ تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن پر اس طرح سوال اٹھایا گیا کہ جواب آنے کے باوجود سوال جوں کا توں کھڑا ہے‘ جبکہ اس سوال کی زد میں راج نیتی کے کھیل میں پیش پیش سبھی پارٹیاں برابر آتی ہیں۔ خاندانی اجارہ داری سے لے کر نسل در نسل حکمرانی اور قیادت کی بدعت تمام بڑی جماعتوں کا خاصہ ہے۔ ویسے بھی ہمارے ہاں قیادت نہیں ورکرز مہرے اور پیادے بدلتے ہیں‘ قیادت تو نہ ماضی میں کبھی بدلی ہے نہ حال میں البتہ اگلی نسلیں مستقبل میں قیادت سنبھالنے کے لیے کہیں بے تاب اور کہیں انڈر ٹریننگ ہیں۔ خدا کرے کہ شیڈول کے مطابق انتخابی عمل مکمل ہو اور ملک پر جاری ماورائے آئین اور من مانی کی حکمرانی سمیت جبر کا جمود اپنے انجام کو پہنچنے۔
چلتے چلتے تختِ پنجاب پر من مانی کی حکمرانی پر تبصرے کے بجائے ایک لطیفہ بطور استعارہ پیش خدمت ہے: چار دوست کسی کام کی تلاش میں تھے۔ سوچ بچار کے بعد مل کر ایک ٹیکسی خرید لی‘ کئی مہینے دن رات ٹیکسی چلاتے رہے لیکن ایک بھی سواری ان کی ٹیکسی میں نہیں بیٹھی۔ تنگ آکر ٹیکسی بیچ ڈالی اور آٹو ورکشاپ کھول لی لیکن یہاں بھی حالات جوں کے توں رہے۔ بہترین اوزاروں اور مستریوں کی ٹیم کے باوجود کوئی گاڑی مرمت کروانے ورکشاپ نہیں آئی۔ ایک شام چاروں دوست سر جھکائے اور منہ لٹکائے چائے خانے پر بیٹھے تھے تو وہاں پہلے سے بیٹھے ایک بزرگ نے سوال کیا کہ خیریت ہے‘ تم چاروں کافی دیر سے خاموش اور پریشان دکھائی دے رہے ہو۔ انہوں نے بزرگ کو سارا ماجرا سنا یا۔ بزرگ نے ان کی کہانی سن کر قہقہہ لگایااور بولے: تمہاری ٹیکسی بھی خوب کمائی کرتی اگر تم چاروں ٹیکسی میں اکٹھے نہ بیٹھتے اور ورکشاپ بھی ضرور چلتی‘ اگر تم گراؤنڈ فلور کے بجائے تیسرے فلور پر ورکشاپ نہ بناتے۔ چاروں اکٹھے ضرور رہو لیکن ہر جگہ نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved