میرا منصب نہیں مخالفین کی باتوں کا جواب
دوں‘ وہ الزام لگاتے رہ جائیں گے: پرویز اشرف
سابق وزیراعظم اور سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ ''میرا منصب نہیں مخالفین کی باتوں کا جواب دوں‘ وہ الزام لگاتے رہ جائیں گے‘‘ کیونکہ الزامات کا جواب دینا ویسے بھی کوئی اچھی بات نہیں اور محض وقت کا ضیاع ہے اور سیاست میں جھوٹے سچے الزامات تو لگتے ہی رہتے ہیں اور آدمی اگر ان کا جواب دینے بیٹھ جائے تو پھر اور کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہتا بلکہ اس میں آپ کا قیمتی وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور زندہ قومیں اپنا وقت بچا کر رکھتی ہیں اور اسے فروعی باتوں میں ضائع کرنے سے احتراز کرتی ہیں، اس کے علاوہ میرا خیال اور ارادہ یہ بھی ہے کہ مخالفین ایک بار اپنے سارے الزامات لگا لیں‘ اس کے بعد اگر مناسب سمجھا تو ان کا جواب دے دوں گا۔ آپ اگلے روز گوجر خان میں ایک انٹرویو کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
(ن) لیگ ڈکیتی سے اقتدار میں
آ رہی ہے: شاہد خاقان عباسی
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''(ن) لیگ ڈکیتی سے اقتدار میں آ رہی ہے‘‘ اور اقتدار میں آ کر کیا کچھ کرے گی، اس کا اندازہ لگانا اب کوئی مشکل کام نہیں ہے جبکہ اس کا آغاز پارٹی کی سینئر نائب صدرات کا عہدہ چھین کر کیا گیا تھا اور اس کی وجہ بھی نہیں بتائی گئی تھی جیسے انہیں حکومت سے بار بار نکالنے کی وجہ نہیں بتائی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان میں کرسی کی کوئی حیثیت نہیں، میں بھی وزیراعظم نہیں‘ ملازم تھا‘‘ اگرچہ میں نے وزارتِ عظمیٰ آئینی طور پر حاصل کی تھی بلکہ مجھے یہ پارٹی کی طرف سے تحفتاً مل گئی تھی لیکن اب ان تحفوں کا سلسلہ ہی بند کر دیا گیا ہے۔آپ اگلے روز ایک مباحثے میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
لیول پلینگ فیلڈ ملے نہ ملے‘ 8فروری
کو سرپرائز دیں گے: بلاول بھٹو
سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''ہمیں لیول پلینگ فیلڈ ملے نہ ملے‘ ہم 8فروری کو سرپرائز دیں گے‘‘ اگرچہ کامیاب ہونا کوئی سرپرائز ہوگا نہ ناکام ہونا بلکہ صرف الیکشن میں آخر تک کھڑے رہنا ایک سرپرائز ہوگا کیونکہ الیکشن کے دوران بھاگیں گے نہیں حتیٰ کہ یہ بھی کوئی سرپرائز نہیں ہوگا کیونکہ یہ بھی ایک معمول کی بات ہوگی کہ قدرت نے دو ٹانگیں دی ہی اس کام کے لیے ہیں اور ان سے فائدہ نہ اٹھانا کفرانِ نعمت کے مترادف ہے کیونکہ اگر ان سے مناسب کام نہ لیا جائے تو یہ ویسے بھی بے کار ہوتی جاتی ہیں۔ آپ اگلے روز ہاکی سٹیڈیم بہاولپور میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
اپنے منشور کا ہر وعدہ پورا کروں گا: پرویز خٹک
سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز کے صدر پرویز خٹک نے کہا ہے کہ ''میں اپنے منشور کا ہر وعدہ پورا کروں گا‘‘ اور یہ وہ بات ہے جو ہر منشور کے بارے میں کہی جاتی ہے مگر کبھی پوری نہیں ہوتی جبکہ اصل مسئلہ یہ بھی ہے کہ منشور کے وعدے اقتدار حاصل کرنے کے بعد ہی پورے کیے جا سکتے ہیں کیونکہ اقتدار حاصل کیے بغیر وعدے پورے کرنے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا مگر حقیقت یہ ہے کہ اقتدار حاصل ہونے کے بعد وعدے پورے کرنے کے بجائے اور کئی کام آ جاتے ہیں اور وعدے اگلی بار پورے کرنے کے لیے رکھ لیے جاتے ہیں جبکہ ان حالات میں اقتدار حاصل کرنا دیوانے کی بڑ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے جبکہ یہ بھی سامنے کی حقیقت ہے کہ گزشتہ ادوار میں اقتدار حاصل کرنے کے باوجود وہ وعدے پورے نہیں کیے تھے جو اس وقت پورا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آپ اگلے روز نوشہرہ میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
ہمیں خود کو بھیک منگوں کی قوم کے
طورپر متعارف نہیں کرانا: سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''ہمیں خود کو بھیک منگوں کی قوم کے طورپر متعارف نہیں کرانا‘‘ کیونکہ پہلے ہی دنیا میں متعارف ہو چکے اور مزید کسی تعارف کی ضرورت ہی نہیں اور دنیا ہمیں جس نام سے جانتی اور پہچانتی وہ محتاجِ وضات نہیں اور کسی کے بیان سے کوئی فرق بھی نہیں پڑنے والا جبکہ یہ بیان بھی محض رسمی کارروائی کے طور پر دیا جا رہا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس سے بھی کوئی تبدیلی واقع ہونے والی نہیں لیکن یہ رسم پورا کرنا بھی از حد ضروری ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں کارکنوں کے ایک اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اوکاڑا سے امتیاز انجم کی شاعری:
ہر چیز پیار میں ہے نئی‘ مسئلہ نہیں
سب ٹھیک چل رہا ہے ابھی مسئلہ نہیں
کب تک رہیں گے ٹھیک یہ سارے معاملات
ہاں ٹھیک ہے کہ اب تو کوئی مسئلہ نہیں
اس عاشقی میں اور بھی ہیں مسئلے بہت
جو تو سمجھ رہا ہے وہی مسئلہ نہیں
میں بھی کسی کو چھوڑ کے آیا تھا اس کے پاس
مجھ کو اگر وہ چھوڑ گئی‘ مسئلہ نہیں
میں تیرا انتظار کروں گا تمام عمر
یہ دن مہینے سال صدی مسئلہ نہیں
میں جس کے ساتھ ہوں وہ کوئی اور چیز ہے
میرے لیے تو حور و پری مسئلہ نہیں
٭......٭......٭
جاڑا تو وہ نہیں ہے مگر دھند ہے بہت
پھر جانا بھی ہے تم کو‘ جدھر دھند ہے بہت
اس دل میں کون آیا گیا کیا خبر‘ مجھے
آتا نہیں ہے کچھ بھی نظر‘ دھند ہے بہت
کچھ دن تو میرے پاس رہو‘ میرے آس پاس
آتے ہی چل پڑے ہو کدھر‘ دھند ہے بہت
آ جاؤ کہ ہم ان کا سہارا بنے رہیں
ہوں گے بہت اداس شجر‘ دھند ہے بہت
جیسے ملیں‘ جہاں بھی ملیں کوئی ڈر نہ ہو
اچھا ہے یہ تو اور‘ اگر دھند ہے بہت
دَھندے تمام جاری و ساری ہیں ہر طرف
اب ہے کسی کا خوف نہ ڈر‘ دھند ہے بہت
اب بھی تمہارے چاہنے والے نہیں ہیں کم
لیکن ابھی جنابِ ظفرؔ دھند ہے بہت
آج کا مقطع
مایوس ہونے والے نہ تھے ہم بھی اے ظفرؔ
آیا نہیں تو بارِ دگر انتظار تھا
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved