ایک مدت کے بعد ''تدبّر‘‘ کا نیا شمارہ دیکھا تو طبیعت کھِل اُٹھی۔ ایک نئی علمی کتاب کی اشاعت‘ کسی علمی رسالے کا اجرا یا کسی تاریخ ساز جریدے کا احیا‘ کتنی مسحور کُن خبر ہے‘ اس کا اندازہ ایک طالب علم ہی کر سکتا ہے۔ بالخصوص ایسے حالات میں جب علم کے طالبوں کی تعداد سکڑ رہی ہو اور علمی کتب و رسائل کی اشاعت مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہو۔ اس کام کے لیے زہرۂ فرہاد چاہیے۔ برادرم حسان عارف اور ڈاکٹر منصور الحمید نے کدال اٹھا لی ہے اور نہر کھودنے پر لگ گئے ہیں۔
وقت کی پیشانی پر جلی حروف میں لکھا ہے کہ فکرِ اسلامی کا عہدِ جدید امام حمیدالدین الفراہی سے معنون ہے۔ یہ بیسویں صدی کے وہ جلیل القدر عالم ہیں جنہوں نے فہمِ قرآن کے باب میں ایک نئے دور کی بنیاد رکھی۔ 'نیا‘ اور 'پرانا‘ جیسے الفاظ کے معانی موضوعی ہوتے ہیں۔ یہ دور‘ نیا ان معنوں میں ہے کہ علومِ اسلامیہ کی معاصر روایت کے لیے اجنبی ہے۔ ورنہ فہمِ قرآن کے تمام اصول جو امام فراہی بیان کرتے ہیں‘ ہمیں عہدِ رسالت سے براہِ راست مربوط کر دیتے ہیں۔ ان کے اصولوں کا جوہر ہی یہ ہے کہ قرآن مجید کو عہدِ رسالت کی فضا میں رہ کر پڑھا اور سمجھا جائے۔ جیسے صحابہ نے پڑھا اور جیسے انہوں نے سمجھا۔
یہ دعویٰ کہ قرآن مجید زبان و بیان کا معجزہ ہے‘ اُس وقت تک گرفت میں نہیں آ سکتا جب تک یہ ادراک نہ ہو کہ وہ زبان و بیان کی کس روایت میں نازل ہوا اور اس نے کیوں لبید جیسے عربی کو 'عجمی‘ (گُنگا) بنا دیا۔ جو لوگ قرآن مجید کو انسانی کلام سمجھتے تھے‘ ان کے لیے اُس کا چیلنج ہے کہ وہ اس جیسی ایک سورت ہی تخلیق کر کے دکھا دیں۔ اس چیلنج کی معنویت بھی تب ہی سمجھ میں آئے گی جب اس دور کے شعر و ادب پر قرآن مجید کی معجزانہ فصاحت و بلاغت کا تفوق واضح ہو گا۔ یہی نہیں‘ امت کا اجماع ہے کہ قرآن مجید ایک کتاب ہے اور اس کی ترتیب توقیفی ہے۔ یہ ترتیب خالی از حکمت نہیں‘ جسے نظمِ قرآن کہتے ہیں۔ امام فراہی نے بتایا کہ کتاب اللہ کے فہم میں اس نظم کی کلیدی اہمیت ہے اور پھر اسے دریافت بھی کیا۔
امام ان اصولوں کی روشنی میں قرآنِ مجید کی تفسیر کا کچھ حصہ ہی لکھ پائے کہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹ گئے۔ ان کے اس کام کی تکمیل کا بیڑا ان کے ایک جلیل القدر شاگرد امام امین احسن اصلاحی نے اٹھایا اور اپنے استاد کے راہنما اصولوں کی روشنی میں ''تدبّرِ قرآن‘‘ کے عنوان سے تفسیر کا تاج محل کھڑا کر دیا۔ فہمِ قرآن کے اس مکتب میں ان دونوں کو ایک دوسرے سے وہی نسبت ہے جو فقہ کی روایت میں امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف کی ہے۔ یہ ایک دوسرے کے توام ہیں۔ امام امین احسن اصلاحی نے نہ صرف اپنے استاد کے کام کو آگے بڑھایا بلکہ اپنے استاد سے اختلاف بھی کیا اور اس روایت کو مزید توانا بنا دیا۔
مولانا امین احسن اصلاحی کے بعد یہ روایت تین حصوں میں منقسم ہو گئی۔ ایک کی سیادت علامہ خالد مسعود کے حصے میں آئی۔ دوسرے حصے کی قیادت جناب جاوید احمد صاحب غامدی کر رہے ہیں اور تیسرا حصہ وہ ہے جس کی نمائندگی بھارت کے وہ علما کرتے ہیں جو مدرسۃ الاصلاح کے ساتھ نسبت کی وجہ سے 'اصلاحی‘ کہلاتے ہیں۔ ان تینوں کا دائرہ عمل ایک دوسرے سے مختلف ہے۔
علامہ خالد مسعود کو برسوں مولانا امین احسن اصلاحی سے براہِ راست استفادے کا شرف حاصل رہا۔ انہوں نے اپنے احباب کے ساتھ مل کر خود کو اس کام کے لیے وقف کر دیا کہ وہ امام فراہی اور امام اصلاحی کے علمی کام کی شرح و وضاحت کریں گے اور ساتھ ہی اس کی نشر و اشاعت بھی۔ مولانا اصلاحی نے اپنی زندگی میں 'ادارۂ تدبّرِ قرآن و حدیث‘ قائم کیا۔ یہ ان نوجوانوں پر مشتمل ایک حلقہ تھا جو قرآن فہمی کا ذوق رکھتے اور مولانا کے گرد جمع ہو گئے تھے۔ 1980ء میں جب وہ 'تدبّرِ قرآن‘ کی تصنیف سے فارغ ہوئے تو اسی حلقے کو ایک با ضابطہ ادارہ بنا دیا گیا۔ اس ادارے کے تحت جو علمی سرگرمیاں منظم ہوئیں‘ ان میں مولانا کے قرآن و حدیث کے دروس کے ساتھ ایک جریدے 'تدبّر‘ کا اجرا بھی شامل تھا۔ اس کا پہلا شمارہ جنوری1981ء میں شائع ہوا۔ 'تدبّر‘ اس روایت کے اُس حصے کا نمائندہ ہے جو فکر فراہی و اصلاحی کی تفہیم و اشاعت کے لیے خاص ہے۔
اس روایت کا دوسرا حصہ وہ ہے جو اس فکر کا تسلسل ہے اور اس نے خود کو امامین کے علمی ورثے کی تفہیم تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس روایت میں نئے اُفق دریافت کیے۔ جاوید احمدصاحب غامدی اس روایت کا نقشِ ثالث ہیں۔ انہوں نے اس علمی روایت کو اس طرح آگے بڑھایا ہے کہ یہ اب تفہیمِ دین کے باب میں ایک مکمل دبستان ہے۔ اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ اس لیے اجمال ہی پر اکتفا کر رہا ہوں۔
تیسرا حصہ وہ ہے جو بھارت کے اُن علما پر مشتمل ہے جو مدرسۃ الاصلاح کی نسبت سے اصلاحی کہلواتے ہیں۔ اس میں بڑے جلیل القدر علما شامل ہیں۔ ان کا علمی کام اس پر شاہد ہے‘ تاہم انہوں نے بطور گروہ اپنا الگ فکری تشخص قائم نہیں کیا۔ ان میں سے کچھ جدید جامعات سے وابستہ ہیں‘ کچھ جماعت اسلامی میں شامل ہو کر خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور کچھ انفرادی حیثیت میں علمی کام میں منہمک ہیں۔ ان کا معاملہ میرے نزدیک وہی ہے جو مولانا شبلی نعمانی کے بعد ندوی علما کا ہے‘ جس طرح ندوی علما مسلمانوں کی غالب علمی روایت میں ضم ہو گئے‘ اسی طرح یہ اصلاحی بھی اب اس روایت کا حصہ ہیں۔
تفہیمِ فراہی و اصلاحی کی روایت کو جس شخصیت نے اپنے خونِ جگر سے سینچا‘ وہ خالد مسعود صاحب تھے۔ انہوں نے فہمِ فراہی کے باب میں نہ صرف وقیع علمی کام کیا بلکہ احباب کی معاونت سے مولانا اصلاحی کے رحلت تک ان کے دروس کے سلسلے کو منظم کیا اور 'تدبّر‘ کو بھی جاری رکھا یہاں تک کہ وہ اپنے پروردگار کے حضور میں پیش ہو گئے۔ اس چراغ کا روغن ان کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ 'ادارۂ تدبّرِ قرآن و حدیث‘ سے وابستہ مخلصین کی خواہش اور کوشش کے باوجود اس کو تادیر روشن رکھنا ممکن نہ ہو سکا۔ یوں دسمبر 2007ء میں 'تدبّر‘ کے پہلے دور کا آخری شمارہ شائع ہوا۔
آج ایک بار پھر نئے عزم کے ساتھ یہ قافلہ جادۂ پیما ہے۔ جنوری 2024ء سے 'تدبّر‘ کے دوسرے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ دورِ ثانی کے پہلے شمارے کے موضوعات اس کے فکری آفاق کا پتہ دے رہے ہیں۔ امام فراہی کی تفسیر کا ایک حصہ اور 'رفعِ انجیل‘ کے عنوان سے ان کی ایک نادر تحریر۔ امام کے تصورِ حدیث و سنت پر مولانا نسیم ظہیر اصلاحی کا اہم مضمون۔ ان کی معرکہ آرا تصنیف 'مفردات القرآن‘ کا ترجمہ و تلخیص اور 'تدبّرِ قرآن‘ کے دعوتی اسلوب پر برادرم محمد صدیق بخاری کے مضمون سمیت اس میں وہ کچھ شامل ہے جو علومِ اسلامیہ کے ایک طالب علم کو نہال کر دیتا ہے۔
اس کی مجلسِ مشاورت میں ڈاکٹر راشد ایوب اصلاحی‘ ڈاکٹر مستنصر میر اور سید احسان اللہ وقاص جیسے اہلِ علم اور مخلصین شامل ہیں۔ جناب حسان عارف اور ڈاکٹر منصور الحمید کے لیے بہت دعا کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے۔ اس کام میں برکت ہو۔ تدبّرِ قرآن مجید کے فہم کو عام کرنے میں اپنا کردار ادا کرے اور ان بزرگوں کے لیے صدقہ جاریہ بنے جنہوں نے سب سے پہلے یہ شمع جلائی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved