ایک طرف الیکشن کا بگل بج چکا ہے اور سیاسی ریلیوں اور جلسے جلوسوں کے سبب پولیس کی مصروفیات زیادہ ہو گئی ہیں اور دوسری جانب چوری چکاری‘ ڈکیتی اور سٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں ہوشربا اضافے نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پورا ملک اب ان چوروں‘ ڈکیتوں اور رہزنوں ہی کے رحم وکرم پر ہے۔ چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک وڈیو دیکھنے کو ملی جس میں ایک سابق وزیر صاحب اپنی الیکشن کمپین کرتے دکھائی دیے‘ محسوس ہوتا تھا کہ پورے شہر کی پولیس عالیجاہ کی حفاظت اور الیکشن کمپین کے لیے ہی مختص کر دی گئی ہے۔ آگے پیچھے پولیس موبائل اور بیسیوں پیدل اہلکاروں کے جلو میں محترم سابق وزیر صاحب گھر گھر جا کر ووٹ مانگ رہے تھے۔ ہمارے دوست گوگا دانشور کا کہنا ہے کہ ویسے تو اس طرح کے تام جھام اور پروٹوکول کے ساتھ الیکشن کی کمپین کرنا انتخابی ضابطے کے خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے مگر یہ گمان رکھنا چاہیے کہ یہ وڈیو ابھی تک الیکشن کمیشن کی نظروں سے نہیں گزری وگرنہ اس پر نوٹس لیا جا چکا ہوتا۔ میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ خطرات بڑھ رہے ہیں اور ویسے بھی اس وقت جس قسم کے حالات کا سامنا ہے‘ سکیورٹی کے بغیر نکلنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا؛ البتہ یہ درست ہے کہ اس سارے پروٹوکول میں سراسر نقصان عوام کا ہو رہا ہے جو عملاً چوروں‘ ڈکیتوں اور رہزنوں کے رحم و کرم پر ہیں۔
چند دن قبل شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق صرف کراچی شہر میں 2023ء کے دوران جرائم کی 90 ہزار سے زائد وارداتیں رپورٹ ہوئیں، جبکہ 100 سے زائد افراد کو قتل کیا گیا۔ لاکھوں شہری اپنی گاڑیوں، موٹرسائیکلوں، موبائل فونز اور عمر بھر کی پونجی سے محروم ہو گئے۔صرف کراچی شہر میں 28 ہزار سے زائد شہریوں سے موبائل فون اور 59 ہزار 305 افراد کی موٹر سائیکلیں چھین لی گئیں۔ اس کے علاوہ 12 ماہ میں 2 ہزار 336 کاریں چوری ہوئیں یا گن پوائنٹ پر چھینی گئیں۔بینک ڈکیتی‘ اغوا برائے تاوان‘ بھتہ خوری اور قبضہ وغیرہ کی خبریں ان سب کے علاوہ ہیں۔اگر اوسط نکالی جائے تو ملک کے معاشی حب میں ہر روز‘ بلاناغہ 76 موبائل فون چھینے جا رہے ہیں‘ 162 موٹر سائیکلیں چوری ہو رہی ہیں‘ چھ سے زائد گاڑیاں چھینی جا رہی ہیں اورہر روز جرائم کی 250 کے قریب وارداتیں ریکارڈ کی جا رہی ہیں۔ صرف کراچی کیا‘ لاہور اور اسلام آباد بھی سٹریٹ کرائمز میں اب کراچی سے پیچھے نہیں ہیں۔
پنجاب‘ جو سیف سٹی منصوبے کا کریڈٹ لیتا ہے اور جہاں چودہ لاکھ سے زائد کیمرے شہر کی سکیورٹی اور نگرانی کر رہے ہیں‘ وہاں عملی صورتحال کیا ہے‘ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اگر اپنے آبائی ضلع قصور کی بات کروں تو بلاناغہ سو سے زائد وارداتیں پولیس ریکارڈ کا حصہ بنتی ہیں۔ سرشام ہی لوگ گھروں میں دبک کر بیٹھنے لگ جاتے ہیں کیونکہ جو بھی اس کے بعد کسی ضروری کام سے‘ کوئی دوائی لینے کے لیے گھر سے نکلا‘ اس کے بارے میں غالب حد تک یقین ہوتا ہے کہ وہ اب موٹر سائیکل لُٹا کر ہی گھر واپس آئے گا۔ اب عوام خود کو مکمل غیر محفوظ سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان واقعات میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ بیروزگاری اور معاشی حالات سے تنگ افراد کے لیے پیسہ کمانے کا یہ سب سے آسان نسخہ ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ 60 سے 70 فیصد تک متاثرین پولیس رپورٹ ہی نہیں لکھواتے۔ کچھ افراد اپنے نقصان پر رو دھو کر اور اسے مقدر کا لکھا سمجھ کر چپ ہو جاتے ہیں اور باقی پولیس اور تھانے‘ کچہری کے بے مقصد چکروں سے گھبرا کر خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو ہر بڑے شہر سے لے کر چھوٹے چھوٹے قصبات اور دیہات تک‘ مخصوص علاقے یا شاہراہیں ہی سٹریٹ کرمنلز کے نشانے پر ہوتی ہیں۔ چھوٹے شہروں اور قصبات کا المیہ یہ ہے کہ وہاں پر عمومی طور پر ایک ہی بڑی شاہراہ ہوتی ہے جو اس قصبے یا گائوں کو شہر سے جوڑتی ہے اور وہی ڈکیتوں اور رہزنوں کا سب سے آسان ہدف ہوتی ہے۔ لیکن اگر اس حوالے سے حکام اور پولیس والے کچھ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تو بہت جلد سٹریٹ کرائمز کا نوے فیصد تک خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی طرز کے جرم کی رفتار جب بڑھنا شروع ہو تو سب سے پہلے چشم دید گواہوں اور واردات کا نشانہ بننے والے متاثرین سے مجرموں کے حلیے‘ ان کے اندازِ گفتگو اور طریقۂ واردات کے حوالے سے معلومات اکٹھی کر کے اس معلومات کا تجزیہ کرنا چاہیے۔ یہ جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ یہ مجرم انفرادی طور پر کام کر رہے ہیں یا ان کا کوئی گینگ ہے۔ اس کیلئے ہر شہر‘ ہر قصبے اور ہر گائوں میں سب سے متاثرہ علاقوں کو پرائمری ٹارگٹ بنانا ہو گا۔ اگر ایک ہفتے میں ہونے والی تمام وارداتوں کا ڈیٹا مرتب کیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ ان وارداتوں میں کس طرح کا اسلحہ استعمال ہوا‘ ان میں اوسطاً فی واردات کتنے مجرم شامل رہے تو بہت سے ایسی باتیں سامنے آ سکتی ہیں جو تفتیش کاروں کی مدد کر سکتی ہیں۔ مثلاً اگر ایک ہفتے میں پچاس وارداتیں ہوئی ہوں تو متاثرین کی مدد سے ان وارداتوں میں ملوث لوگوں کے حلیے تیار کر کے عبوری اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں کس طرح کے لوگ شامل تھے‘ ان کے پاس کس قسم کا اسلحہ تھا اور ٹرانسپورٹ کون سی تھی۔ اس سے یہ علم ہو جائے گا کہ یہ سب ایک ہی طرح کے لوگ ہیں یا مختلف گروہ ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے لباس وغیرہ پر اگر دھیان دیا جائے تو اس سے ان کی شناخت مزید آسان ہو جاتی ہے۔ اس وقت پورے ملک میں سب سے زیادہ شلوار قمیص پہنی جاتی ہے لیکن ہر علاقے میں اس کا ڈیزائن کچھ مختلف ہوتا ہے۔ اسی طرح مختلف علاقوں میں بولی جانے والی زبانوں کا لہجہ بھی مختلف ہوتا ہے مثلاً لاہور‘ فیصل آباد اور راولپنڈی‘ ان تمام علاقوں میں پنجابی بولی جاتی ہے مگر ہر علاقے کے لوگوں کا پنجابی بولنے کا انداز مختلف ہوتا ہے‘ اس طرح سی سی ٹی وی فوٹیجز کا تجزیہ کرنے سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مجرم مقامی ہیں یا کہیں باہر سے آئے ہوئے ہیں‘ وہ پروفیشنل ہیں یا اناڑی ہیں۔ پولیس ریکارڈ اس ضمن میں مزید مدد فراہم کر سکتا ہے جس سے علم ہو جائے گا کہ یہ کوئی نیا گروہ ہے یا پرانے پاپی ہیں۔ پچھلے چھ ماہ کے دوران جیلوں سے رہائی پانے والے یا ضمانتوں پر باہر آنے والوں کا ریکارڈ اور سابقہ طریقۂ واردات کا مطالعہ اور مشاہدہ بھی اس ضمن میں مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ سٹریٹ کرائمز کے حوالے سے ایک اہم بات یہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ان میں طلبہ کی ایک معقول تعداد بھی ملوث پائی گئی ہے۔ اس حوالے سے مختلف کالجوں میں موجود طلبہ تنظیموں پر گہری نظر رکھنا ہو گی۔ ان تنظیموں کے مخصوص افراد کی معاشی حالت‘ ان کے انفرادی رہن سہن‘ ان کے موبائل فون کے برانڈز اور ماہانہ خرچے کا اگر جائزہ لیا جائے تو سب کچھ کھل کر سامنے آ جائے گا کہ آمدن اور اخراجات میں کتنا فرق ہے اور کیا ''اوپر کی کمائی‘‘ اس میں کارفرما ہے یا نہیں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ پولیس کے اعلیٰ حکام تو جرائم کی بیخ کنی کے لیے سنجیدہ ہوتے ہیں اور دن رات کوشاں بھی رہتے ہیں مگر چراغ تلے اندھیرا ہونے کے سبب وہ مات کھا جاتے ہیں۔ ان کی تمام مثبت کوششیں اپنی جگہ لیکن تھانوں کی پوسٹنگ میں وہ ایسی فاش غلطیاں کر جاتے ہیں کہ ساری کاوشیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو قصور سمیت کئی علاقے ہیں جہاں پولیس سے متعلق سب سے زیادہ شکایات پائی جاتی ہیں۔ پولیس ریکارڈ سے اگر پولیس اہلکاروں کے خلاف شکایات کا ڈیٹا نکالا جائے اور علاقوں کی بنیاد پر پولیس کی کارکردگی اور جرائم کے تناسب کا جائزہ لیا جائے تو محکمے کی کالی بھیڑوں کی نشاندہی نہایت آرام سے ہو سکتی ہے۔ اگر اربابِ اختیار جرائم کا واقعی خاتمہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے انہیں سائنسی اور جنگی بنیادوں پر کام کرنا پڑے گا اور سب سے زیادہ ضروری ہے کہ پولیس کی مختلف فورسز کے اہلکاروں کو جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن پر لگایا جائے۔ اگر پولیس سیاسی ڈیوٹیاں ہی کرتی رہے تو پھر وہی کچھ ہو گا جو اس وقت ہو رہا ہے بلکہ جرائم کی شرح میں مزید اضافہ ہو گا۔ سٹریٹ کرائمز پر قابو پانے کیلئے سب سے پہلے اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہو گا۔ گو کہ راستہ کٹھن اور محنت طلب ہے لیکن آج کیا ہوا یہ کام پاکستان کی آئندہ آنے والی نسلوں کے کام آئے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved