تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     17-01-2024

ہمارے بچوں کے مستقبل کی اتنی فکر ؟

ہر سیاستدان سمجھدار ہوتا ہے۔ جو بھی انسان دوسرے انسانوں پر حکومت کرنے کا شوقین ہوتا ہے وہ نارمل انسان نہیں کہلا سکتا۔ وہ اپنے جیسے انسانوں سے ہٹ کر سوچتا اور جیتا ہے۔ اُس کی سوچ اور رویے نارمل انسانوں والے نہیں ہوتے‘ لہٰذا اسے نارمل نہیں کہا جاسکتا۔وہ صبح نو بجے سے پانچ بجے تک کی نوکری نہیں کرے گا یا بیوی بچوں کی اسے زیادہ فکر نہیں ہوگی۔ وہ گھر والوں کو کبھی کبھارشکل دکھائے گا اور انہیں بتائے گا کہ وہ کتنی مصروف زندگی گزار رہا ہے اور اُسے دراصل اپنے بچوں سے زیادہ قوم کے بچوں کی فکر ہے۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ اپنے بچوں کی تو‘ بقول آپ کے‘ فکر نہیں ہے تو آپ کو دوسروں کے بچوں کی فکر کب سے لاحق ہونا شروع ہو جاتی ہے؟ دیکھا جائے تو تاریخی طور پر جو لوگ دوسروں کے بچوں کی زندگیاں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے اپنے بچے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اگرچہ سب پر یہ بات لاگو نہیں ہوتی‘ کچھ انقلابیوں کے اپنے بچے بھی ترقی کرتے ہیں جیسا کہ فیض احمد فیض۔ تاہم کچھ بڑے لکھاریوں یا شاعروں کے بچے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ آج کل میں مشہور ڈرامہ نگار اور میرے پسندیدہ ادیب اصغر ندیم سید کے خاکوں کی کتاب کا دوسرا حصہ ''پھرتا ہے فلک برسوں‘‘ پڑھ رہا ہوں۔ بلاشبہ کمال کتاب ہے۔ اس میں انہوں نے منو بھائی کے خاکے میں لکھا ہے کہ کیسے منو بھائی اور حبیب جالب کے بچے اس طرح آگے نہ بڑھ سکے جیسے فیض احمد فیض کے بچوں نے ترقی کی۔ اصغر ندیم سید کے خیال میں وہ دونوں بڑے لوگ شاید اس طرف توجہ نہ دے پائے۔ لیکن فیض احمد فیض تھے‘ وہ بھی انقلابی شاعر تھے جو بقول ہمارے دوست شفیق لغاری ''چائے پیتا ہے‘ شعر کہتا ہے‘ اور شاعر میں کیا برائی ہے‘‘کا چلتا پھرتا ماڈل تھے‘لیکن اُن کی بیگم ایلس فیض نے بچوں پر توجہ دی ہوگی۔
خیر مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ زرداری کو میرے بچوں کی بلاول سے زیادہ فکر کیسے ہوسکتی ہے‘ عمران خان کو لندن میں اپنے بچوں کی فکر نہیں لیکن وہ میرے بچوں کیلئے دن رات پریشان رہتے ہیں‘ نواز شریف بھی کہتے ہیں کہ انہیں مریم نواز ‘ حسین اور حسن نواز سے زیادہ میرے یا آپ کے بچوں کی فکر ہے۔ کیوں ہے؟ آپ کو لگتا ہے کہ یہ فطری طور پر ممکن ہے جب ہمارے سیاستدان ہمیں بتا رہے ہوتے ہیں کہ انہیں ہم سے زیادہ ہمارے بچوں کی فکر ہے؟ مان لیا وہ بہت غیرمعمولی انسان ہیں اور اللہ نے انہیں بڑا دل دیا ہے اور وہ سب کی فکر کرتے ہیں۔ تو کیا ان کے ایکشن سے آپ کو لگتا ہے کہ اُن کو واقعی ہمدردی ہے اور ہمیں ان پر یقین کرنا چاہئے؟ذہن میں رکھیں کہ یہ لوگ کوئی ولی ‘ فقیر یا درویش نہیں ہیں جنہیں دنیا جہاں کی نعمتیں اچھی نہیں لگتیں اور یہ سب کچھ کما کر لوگوں پر لٹا دیتے ہیں۔
مان لیا یہ فکشن ہوگا جب رومن جنرل جولیس سیزرپر لکھے ڈرامے میں شیکسپیئر ایک سین میں لکھتا ہے ‘ جہاں سیزر کو سازشیوں نے قتل کر دیا ہے‘ اُس کی لہولہان لاش پر اب اس کا دوست مارک اینٹنی کھڑا تقریر کررہا ہے تاکہ لوگوں کے جذبات اُبھار سکے۔ وہ کہتا ہے کہ سیزر پر اس کے قاتلوں نے الزام لگایا ہے کہ وہ آمر بننے جارہا تھا‘ لیکن ابھی وہ بنا تو نہیں تھا۔ سازشی کہتے ہیں کہ سیزر بہت لالچی تھا‘ جنگوں سے مال و دولت اکٹھی کررہا تھا۔ اگر وہ ایسا تھا اور لالچی تھا تو پھر اس نے کچھ دن پہلے ہی اپنی وصیت میں اپنی جائیداد کے باغات اور دیگر چیزیں عوام کو عطیہ کیوں کر دی تھیں؟مطلب اُس دور میں بھی سیاستدان یا حکمرانوں سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ لالچی یا مال کمانے والے نہ ہوں بلکہ جو کچھ اُن کے پاس ہے وہ عوام میں بانٹ دیں ۔ حکمران کیلئے اصول تھا کہ سیزر کی تو بیوی پر بھی شک نہیں ہونا چاہئے کہ وہ کوئی غلط کام کرسکتی ہے‘ سیزر کی تو بات ہی نہ کریں کہ وہ کچھ غلط کرسکتا ہے۔ یہ وہ کرائٹیریا تھا جو قدیم زمانوں میں حکمرانوں کیلئے رکھا گیا تھا۔
تو کیا ہمارے زرداری‘ شریف یا خان حکمرانوں کی اس تعریف پر پورے اترے؟ کیا انہوں نے کبھی سوچا کہ خدا نے انہیں لاکھوں کروڑوں لوگوں میں سے چنا اور بادشاہ کا کام لوگوں کی جیبیں کاٹنا نہیں بلکہ دینا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں الٹا ہے کہ اپنی جیب بھر لو‘ اپنے خاندان کو کھلی چھٹی دے دو۔ یہی زرداری جنہیں ہمارے بچوں کی بلاول کی طرح فکر ہے‘ ساٹھ ملین ڈالرز منی لانڈرنگ پر جنیوا میں ضبط کرا بیٹھے تھے۔ وہ پیسے فریز کرانے والے نواز شریف تھے جب وہ دوسری دفعہ وزیراعظم بنے۔ زرداری نے مشرف سے این آر او کر کے اٹارنی جنرل سے خط لکھوایا کہ ساٹھ ملین ڈالرز زرداری کو دے دو۔ افتخار چوہدری نے وزیراعظم گیلانی کو کہا کہ وہ دوبارہ سوئس حکام کو خط لکھیں کہ وہ پاکستان کے پیسے ہیں۔ زرداری نے گیلانی کو برطرف کرا دیا لیکن خط نہ لکھنے دیا۔ یہاں تک کہ بینظیر بھٹو کا وہ نیکلس بھی سوئس حکام سے واپس لے لیا جس پر ان پر مقدمہ قائم ہوا تھا۔ یہی کام نواز شریف نے کیا۔کاروبار جو پاکستان سے شروع ہوا تھا‘ وہ دنیا کے پانچ براعظموں تک پہنچ گیا۔ ایک دن پتہ چلا کہ کاروبار تو اتنا پھیل چکا ہے کہ اب نواز شریف ملک کے وزیراعظم ہو کر بھی اپنے بیٹے کی دبئی میں واقع کمپنی میں نوکری کر رہے تھے۔ مریم نواز نے کہا ‘ ان کے پاس لندن چھوڑیں‘ پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں۔ ان کے کاغذاتِ نامزدگی کے مطابق چوراسی کروڑ روپے کی جائیداد ان کے نام پر ہے۔اس طرح عمران خان کے کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ گوشواروں کو پڑھیں تو آپ کو علم ہوگا کہ دو تین برس پہلے ان کی دولت تقریبا ًدو‘ تین کروڑ تھی۔ اب انکشاف ہوا ہے کہ ان کی دولت میں 27 کروڑ کا اضافہ ہوا ہے۔ بتایا جارہا ہے یہ وہ پیسہ ہے جو انہوں نے سعودی عرب سے ملنے والے تحائف بیچ کر کمایا ۔ یہی عمران خان کہتے تھے کہ ان کے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے‘ انہیں کسی چیز کی کوئی لالچ نہیں۔ وہ دولت کمانے سیاست میں نہیں آئے۔ انہیں اپنے بچوں سے زیادہ ہمارے بچوں کی فکر سیاست میں لے کر آئی ہے۔ اگر انہیں ہمارے بچوں کی فکر تھی جس کیلئے وہ جیل جا پہنچے ہیں تو پھر یہ ستائیس کروڑ بھی خزانے میں جمع کرانے چاہئیں تھے تاکہ ہمارے بچوں پر خرچ ہوسکتے۔ چلیں ہمارے بچوں پر نہ سہی کینسر ہسپتال یا نمل یونیورسٹی کو عطیہ کر دیتے۔ بشریٰ بیگم جو تحائف ساتھ لے گئیں وہ الگ ہیں ‘جن کا بتایا جارہا ہے ‘کوئی حساب کتاب نہیں ہے کیونکہ الزام لگایا گیا ہے کہ پرویز مشرف کی طرح عمران خان کے گھر بھی جہاز سے تحائف سیدھے بنی گالہ جاتے تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے تحائف جہاز سے آرمی ہاؤس جاتے تھے اور ان کا توشہ خانے میں ریکارڈ نہ رکھا جاتا ورنہ پیسے دینے پڑتے۔
سوال یہ ہے کہ اگر ان سب کو میرے اور آپ کے بچوں کی فکر ہے تو ان کے ساٹھ ملین ڈالرز سوئس بینکوں میں جو رکھے ہیں‘ یا جن کی پانچ براعظموں میں جائیداد ہے یا جو گھڑیاں بیچ کر کروڑوں کمائے ہیں‘ ان میں اس قوم کے بچوں کا حصہ کہاں ہے؟ اگر وہ ہمارے بچوں کے مستقبل کی فکر کے نام پر جیل جاسکتے ہیں تو پھر اپنی اندھا دھند ''حلال‘‘ کی کمائی میں سے حصہ دینا کون سا مشکل کام تھا۔ یہ سب بھی تو جولیس سیزر کی طرح اپنی دولت عوام کو عطیہ کرسکتے تھے۔یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ہمارے بچوں کی اپنے بچوں سے زیادہ فکر کرنے کے دعویدار اپنے جیسے انسانوں پر حکمرانی کا ترنت نشہ پورا کرنے کے لیے اپنی جان دے بھی سکتے ہیں اور دوسرے کی جان لے بھی سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved