گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ آف پاکستان کے دو جج صاحبان اپنے عہدوں سے اس لیے مستعفی ہو گئے کیونکہ ان کے خلاف کچھ ایسے الزامات تھے جن کا وہ دفاع نہیں کر سکتے تھے۔ پاکستان میں نظامِ انصاف کے اعلیٰ ترین عہدوں پر پہنچنے کے لیے امیدواروں کو اُن سخت مراحل سے نہیں گزرنا پڑتا جن مراحل سے دیگر جمہوری ممالک میں گزرنا پڑتا ہے۔ امریکہ میں سپریم کورٹ میں تقرری کیلئے امیدوار کو سینیٹ کی پانچ رکنی جوڈیشل کمیٹی کے سامنے سوال وجواب کے کڑے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے جو ٹیلی ویژن پر براہ ِراست ٹیلی کاسٹ ہوتا ہے۔ اس دوران کوئی بھی شہری امیدوار کے خلاف ثبوتوں کے ساتھ شکایت درج کروا سکتا ہے۔ صدر بُش کے ذاتی حمایت یافتہ امیدوار کو اسی وجہ سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح انگلینڈ میں آزاد اور غیر جانبدار جوڈیشل اپائنٹمنٹ کمیشن سخت امتحانات اورانٹرویوزکے بعد امیدوار کی قابلیت کے حوالے سے تسلی کر کے حکومت کو ججوں کی تقرری کی اجازت دیتا ہے۔ پاکستان میں رائج نظام اتنا سخت نہیں ہے جس کی وجہ سے کہیں نہ کہیں میرٹ پر سو فیصد عملدرآمد نہیں ہو پاتا۔جس کا خمیازہ بعد میں ملک اور عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ آئین کی 19ویں ترمیم کے مطابق جوڈیشل کمیشن مکمل طور پر خودمختار اور آزاد حیثیت کا حامل ہے اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اس کے چیئرمین ہیں اور صوبوں کے سینئر موسٹ جج صاحبان اس کے ارکان ہیں۔ 1997ء میں چیف جسٹس آف پاکستان سید سجاد علی شاہ نے ایک اہم ترین فیصلہ دیتے ہوئے ججز کی تقرری کا ایک فارمولہ طے کر دیا تھا لیکن بعد ازاں 19ویں ترمیم کے ذریعے تمام اختیاات جوڈیشل کمیشن کو تفویض کر دیے گئے۔ملک میں جج صاحبان کی تقرری کیلئے امریکی ماڈل اپنانے کے حوالے سے حکومت آئین میں ترمیم کرنی چاہیے؛ اسی طرح چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کے تقرر کے لیے بھی آئین کے آرٹیکل 213 میں ترمیم کر کے امریکی طرز پر تمام اختیارات سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی کو تویض کردینے چاہئیں۔ سینیٹ کے ذریعے تقرر کی ساری کارروائی براہِ راست ٹیلی کاسٹ کی جائے۔ اہلیت کی بنیاد اور غیر جانبداری سے کی جانی والی تقرری پر کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہوگا۔
اس وقت کئی ریاستی ادارے اصلاحات کے متقاضی ہیں اور منتخب حکومت آئین کو مزید پروگریسو بنانے کیلئے پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کے ذریعے اس میں ترامیم کر سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن کو لاء آف کورٹ کے اختیارات تفویض کرنے چاہئیں جبکہ سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 202‘ 203 اور 209 میں مزید ترامیم کی جانی چاہئیں۔ انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق شق 208 میں ترمیم کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو انٹرا پارٹی الیکشن‘ الیکشن کمیشن کے مبصر کی نگرانی میں کروانے کا پابند بنانا چاہیے۔پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن اپنے منشور اور الیکشن ایکٹ کی دفعہ 209 کے مطابق نہ کروانے سے اپنے انتخابی نشان سے محروم ہوئی ہے۔ بادی النظر میں تحریک انصاف کی رجسٹریشن بھی منسوخ ہو چکی ہے‘ تاہم الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر رجسٹرڈ سیاسی جماعت کی حیثیت سے موجود ہے‘ جبکہ تحریک انصاف سے وابستہ امیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ الیکشن میں کامیابی کے بعد ان کے پاس کسی بھی پارلیمانی جماعت میں شامل ہونے کا دروازہ کھلا ہے۔ سابق اٹارنی جنرل اور سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج انور منصور علی خان کا موقف ہے کہ پارٹی امیدوار آزادانہ حیثیت سے الیکشن لڑ سکتے ہیں اور جیتنے کے بعد باضابطہ طور پر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔ اُن کے مطابق تحریک انصاف بحیثیت سیاسی جماعت الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتی لیکن اس کی رجسٹریشن ختم نہیں ہوئی ہے۔ لیکن میری رائے میں جو سیاسی جماعت انتخابی نشان سے محروم ہو جائے‘ وہ اپنی پارٹی رجسٹریشن سے بھی محروم ہو جاتی ہے۔الیکشن ایکٹ کی دفعہ 209کے مطابق انتخابی نشان واپس لیے جانے کے بعد سیاسی جماعت کی رجسٹریشن بھی واپس تصور ہو گی۔لہٰذا جو امیدوار آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے کے بعد قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں آتے ہیں وہ اسمبلیوں میں تحریک انصاف کے پلیٹ فارم پر اکٹھے نہیں ہو سکتے۔تاہم الیکشن ایکٹ کی دفعات 215‘ 216 اور 217 کو مدنظر رکھا جائے تو اس حوالے سے ایک قانونی سقم موجود ہے جس کا سہارا لے کر آزاد امیدوار کامیابی کی صورت میں تحریک انصاف میں شمولیت کے لیے الیکشن کمیشن سے رجوع کریں گے اور الیکشن کمیشن اس حوالے سے فیصلہ کرتے ہوئے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 4 کو مد نظر رکھے گا۔22 دسمبر کوالیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 215 کے تحت پی ٹی آئی سے انتخابی نشان واپس لیا۔ اس دفعہ کے مطابق اگر کوئی سیاسی جماعت الیکشن ایکٹ کی دفعہ 209 یادفعہ 210 کی تعمیل میں ناکام رہتی ہے تو الیکشن کمیشن اسے سماعت کا ایک اور موقع دینے کے بعد اس کا انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے۔
آٹھ فروری کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد میں کامیابی کے بعد سیاسی‘ آئینی اور قانونی بحران اس وقت پیدا ہو سکتا ہے جب کوئی بھی سیاسی جماعت لیڈر آف ہاؤس کو منتخب کرانے کیلئے 166 سے زائد نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے اور آزاد ارکان بھی اس موقع پر اپنا جھکاؤ کسی سیاسی جماعت کی طر ف نہیں ڈالتے تو پھر آزاد امیدوار اپنا علیحدہ گروپ بنا کر قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں متاثر کن کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔میں مارچ 1985ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات کے نتائج کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا چشم دید گواہ ہوں۔ 22 مارچ 1985ء کو محمد خان جونیجو کو جب وزیراعظم پاکستان منتخب کیا گیا تو انہوں نے 70کے لگ بھگ قومی اسمبلی کے اراکین کو پاکستان مسلم لیگ میں شامل کروا دیا۔ اس اقدام پر اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی فخر امام نے چیف الیکشن کمشنر ایس اے نصرت کوایک ریفرنس بھجوایا کہ چونکہ غیر جماعتی ارکان قومی اسمبلی آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہو کر قومی اسمبلی میں آئے ہیں اور ان کے پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت سے غیر جماعتی انتخاب غیر موثر ہو گئے ہیں لہٰذا ان کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل کرتے ہوئے وزیراعظم محمد خان جونیجو کو بھی نااہل قرار دیا جائے۔ میں ان دنوں الیکشن کمیشن کا ترجمان تھا اور چیف الیکشن کمشنر ایس اے نصرت کی ایما پر میں نے ہی جولائی 1986ء میں یہ خبر بریک کی تھی۔ جسٹس ایس اے نصرت نے سپیکر قومی اسمبلی کے ریفرنس کی روشنی میں 70سے زائد ارکانِ قومی اسمبلی بمع وزیراعظم محمد خان جونیجو کو نوٹس جاری کر کے آئینی و قانونی بحران پیدا کر دیا جس پر محمد خان جونیجو نے صدرِ مملکت ضیاء الحق سے تعاون حاصل کرنے کیلئے ایک آرڈی ننس جاری کر دیا جس کے مطابق ان ارکان کو پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت کی اجازت مل گئی اور صدر ضیاء الحق نے اپنے مقرر کردہ وزیراعظم کو بیل آوٹ کر دیا۔ اس کھیل کا مقصد یہی تھا کہ محمد خان جونیجو صدرِ پاکستان کے اختیارات کے تابع رہیں۔
آٹھ فروری کو انتخابات کے انعقاد کی صورت میں انتخابات کے 14روز بعد گزٹ نوٹیفیکیشن کے اجرا اور قانون ضوابط مکمل ہونے کے بعد فروری کے آخر میں نئی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس کا انعقاد ہو سکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved