تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     17-01-2024

بحیرۂ احمرکی اہمیت: تاریخ کے تناظر میں … (2)

دنیا بھر کیلئے بحیرۂ احمر کی اہمیت عام طور پر اس وجہ سے ہے کہ نہر سویز کی تعمیر کے بعد یہ یورپ اور ایشیا کے درمیان کم فاصلے کی مصروف ترین تجارتی گزرگاہ ہے۔ دنیا کے سمندروں میں تجارتی مال سے لدے کنٹینرز کی کل تعداد کا 30فیصد بحیرۂ احمر سے گزرتا ہے۔ ان میں بیشتر خلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ کے دیگر تیل پیدا کرنے والے ممالک کا خام تیل یورپ اور کینیڈا‘ امریکہ اور لاطینی امریکہ کی منڈیوں میں سپلائی کرنے والے ٹینکرز شامل ہیں۔ یورپ اور ایشیا کے درمیان تجارتی مال کی بہم رسانی میں مصروف بڑی بڑی تجارتی کمپنیاں اس وجہ سے بحیرۂ احمر کا آبی راستہ استعمال کرنے پر مجبور ہیں کہ یہ افریقہ کے گرد گھوم کر جانے والے راستے کے مقابلے میں کم وقت میں تجارتی سامان منزل مقصود پر پہنچانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے ماہ جب یمن کے حوثیوں نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف ردِ عمل کے طور پر باب المندب اور خلیج عمان میں چند بحری جہازوں کو ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا تو ان کمپنیوں نے اپنے جہاز بحیرۂ احمر کے راستے بھیجنا بند کر دیے‘ مگر جلد ہی اس راستے کو دوبارہ استعمال کرنا شروع کر دیا کیونکہ افریقہ کے گرد گھوم کر سامان پہنچانے پر نہ صرف لاگت زیادہ آ رہی تھی بلکہ تجارتی سامان کی بہم رسانی میں تاخیر بھی ہو رہی تھی۔
اسرائیل کیلئے بحیرۂ احمر میں محفوظ اور آزاد جہاز رانی بقا کا مسئلہ ہے کیونکہ مصر نے نہر سویز کے راستے اسرائیلی یا ایسے جہاز جو بحیرۂ روم پر واقع اسرائیلی بندرگاہ کیلئے سامان لاد کر لے جاتے تھے‘ کے گزرنے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ یہ پابندی دونوں ملکوں میں امن معاہدے کے بعد اٹھا دی گئی تھی۔ اس صورتحال میں بحیرۂ احمر باب المندب کے راستے اسرائیل کیلئے باہر کی دنیا کے ساتھ تجارتی روابط کا واحد راستہ تھا۔ اس مقصد کی خاطر اسرائیل نے مارچ 1949ء میں بحیرۂ احمر کے ساحل پر واقع اُردن کے ایک گاؤں پر حملہ کرکے قبضہ کر لیا تھا حالانکہ عربوں اور اسرائیل کے درمیان پہلی جنگ (1948-49ء) بند ہو چکی تھی اور فریقین کے درمیان فائر بندی کے معاہدے پر دستخط ہو چکے تھے۔ اسرائیل کی طرف سے عربوں کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کی یہ پہلی خلاف ورزی تھی‘ اور یہ یک طرفہ خلافِ قانون اقدام بحیرۂ احمر کے راستے کو اسرائیل کیلئے کارآمد اور محفوظ بنانے کیلئے کیا گیا تھا۔ اردن کے اس ساحلی گاؤں کو اسرائیل نے اپنی بندرگاہ ''ایلات‘‘ میں تبدیل کر رکھا ہے جو بحیرۂ احمر کے راستے نہ صرف شمال مشرقی افریقہ (ہارن آف افریقہ) اور مشرقی افریقہ کے ساحل پر واقع افریقی ممالک کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ روابط برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوئی بلکہ بحر ہند اور اس کے پار جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کے ساتھ اسرائیلی تجارتی تعلقات کا واحد ذریعہ ہے۔
بحیرۂ احمر کے ساحل پر اسرائیلی بندرگاہ کی اسرائیل کیلئے اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مئی 1967ء میں جب مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے اسرائیل کے ساتھ ملنے والی سرحدوں پر اپنی فوجیں تعینات کی تھیں تو شاید صرف اس اقدام سے دونوں ملکوں میں جنگ نہ چھڑتی مگر جب مصر نے بحر ہند میں خلیج تہران کی ناکہ بندی کرکے ایلات کی بندرگاہ کا بحیرۂ احمر کے ساتھ اسرائیلی رابطہ منقطع کر دیا تو اسرائیل نے ہمسایہ عرب ممالک مصر‘ شام اور اردن پر فوری حملہ کر دیا کیونکہ اس کے علاوہ اسرائیل کیلئے اپنے آپ کو بچانے کا کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ عرب ممالک کی طرف سے اسرائیل کے مکمل سفارتی‘ معاشی اور تجارتی بائیکاٹ کی وجہ سے یہودی ریاست کو عالمِ عرب سے باہر افریقی ممالک کے ساتھ تجارتی اور معاشی تعلقات قائم کرنے کی پالیسی اختیار کرنا پڑی اور اس مقصد کیلئے اس نے بحیرۂ احمر کے ذریعے ہارن آف افریقہ کے ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کیے۔ ان ممالک میں اسرائیل نے ترقیاتی منصوبوں میں بھی شرکت کی لیکن 1970ء کی دہائی میں جب تیل کی پیداوار اور برآمدات سے بعض عرب ممالک مثلاً سعودی عرب اور عراق‘ کویت اور متحدہ عرب امارات کی آمدنی میں اضافہ ہوا تو افریقی ممالک میں اسرائیل کے اثر و رسوخ میں کمی واقع ہونا شروع ہو گئی۔ 1973-74ء کی جنگ کے بعد متعدد افریقی ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے اور ان کی طرف سے تحریک آزادیٔ فلسطین کیلئے کھلم کھلا حمایت کا اظہار کیا جا رہا تھا‘ لیکن اگر ایک طرف اپنے ارد گرد کے خطوں مثلاً جزیرہ نما عرب‘ خلیج فارس بحیرۂ احمر اور شمال مشرقی افریقہ میں اسرائیل اپنے آپ کو الگ تھلگ بلکہ غیرمحفوظ محسوس کر رہا تھا تو دوسری طرف ان علاقوں میں امریکہ کی عسکری قوت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اس اضافے کے پیچھے برطانیہ کے اس فیصلے کو بھی بڑا دخل حاصل ہے جس کے تحت اس نے 1960ء کی دہائی کے آخر میں نہر سویز کے مشرق میں واقع خصوصاً بحر ہند کے خطے میں اپنے تمام فوجی اڈوں کو بتدریج ختم کرنے اور فوجوں کو واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔ امریکہ کے نزدیک برطانیہ کے اس فیصلے پر عمل درآمد سے بحر ہند اور اس سے ملحقہ سمندروں‘ جن میں خلیج فارس اور بحیرۂ احمر بھی شامل ہیں‘ میں طاقت کا خلا پیدا ہو گیا اور پیشتر اس کے کہ کوئی اور حریف ملک طاقت کے اس خلا کو پُر کرتا‘ امریکہ نے مشرقِ بعید اور جنوب مشرقی ایشیا میں مقیم اپنے ساتویں بحری بیڑے کے جہازوں کو دسمبر1964ء میں پہلی دفعہ بحر ہند میں گشت پر مامور کر دیا۔ اسی طرح آبنائے ملاکا سے لے کر باب المندب تک بحر ہند اور بحیرۂ احمر کا جنوبی حصہ بھی امریکہ کے ساتویں بحری بیڑے کی رینج میں شامل ہو گیا۔ ان دونوں امریکی بحری بیڑوں میں جنگی جہازوں کے علاوہ طیارہ بردار جہاز اور آبدوزیں بھی شامل ہیں۔ ان بحری بیڑوں میں امریکہ کی بحری فوج کے دستے اور ہیلی کاپٹر بھی موجود ہیں۔ بحرین میں امریکہ کا ایک اہم بحری اور قطر میں ایک فضائی اڈہ موجود ہے۔
پانچویں اور ساتویں بحری بیڑے کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ میں ضرورت پڑنے پر کارروائی کے لیے بحیرۂ روم میں تعینات امریکہ کے چھٹے بحری بیڑے کے تباہ کن جہاز‘ طیارہ بردار جہاز اور آبدوزیں بھی بلائی جا سکتی ہیں۔ ان سب انتظامات کے علاوہ بحر جنوبی اوقیانوس میں امریکہ کا ایک اور بحری بیڑا مقیم ہے جس کے جہاز جبرالٹر سے گزر کر بحیرۂ روم میں داخل ہو سکتے ہیں اور وہاں سے انہیں بحیرۂ احمر میں باب المندب‘ خلیج عمان حتیٰ کہ خلیج فارس کے قریب سمندروں میں تعینات کیا جا سکتا ہے۔
عربوں اور اسرائیل کے درمیان چوتھی جنگ 1973-74ء کے بعد سے اب تک بحیرۂ احمر کے جنوبی اور بحر ہند کے شمال مغربی حصے اور بحیرۂ عرب میں امریکہ کی بحری‘ بری اور فضائی افواج کی ایک کثیر تعداد تعینات ہے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی حصہ ایسا ہوگا جہاں امریکہ اور نیٹو کی بحری‘ فضائی اور بری افواج کی اتنی بڑی تعداد جنگی جہازوں آبدوزوں اور طیارہ بردار جہازوں کی شکل میں موجود ہو گی۔ امریکہ نے اس علاقے میں اپنے اڈوں اور سمندر میں موجود افواج کیلئے ایک سینٹرل کمانڈ سنٹر قائم کر رکھا ہے جس کی ذمہ داری میں بحیرۂ عرب‘ خلیج فارس اور بحیرۂ احمر کے علاقے شامل ہیں۔ غزہ کے موجودہ بحران کے نتیجے میں بحیرۂ احمر میں یمن کے حوثی قبائل کی طرف سے اسرائیلی اور مغربی ممالک کے تجارتی جہازوں اور آئل ٹینکرز پر مبینہ حملوں کے بعد 12جنوری کو امریکہ اور برطانیہ نے جو ہوائی حملے کیے ہیں‘ وہ سینٹرل کمانڈ کی نگرانی میں ہی کیے گئے ہیں۔ امریکی اور برطانوی حکومتوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان حملوں کا مقصد یمن کے حوثی قبائل کی طرف سے باب المندب سے گزرنے والے تجارتی جہازوں پر حملوں کو روکنا ہے‘ لیکن حوثی قبائل اور ایران نے الزام عائد کیا ہے کہ یمن کے طول و عرض میں درجنوں امریکی فضائی حملوں کا اصل مقصد غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں سے عالمی توجہ ہٹانا ہے۔ حوثی قبائل نے اپنے اس عزم کا اعلان کیا ہے کہ وہ امریکی اور برطانوی حملوں کے باوجود فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیل اور اس کے حامی ممالک کے جہازوں کو نشانہ بنانا جاری رکھیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved