پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے لیول پلینگ فیلڈ نہ ملنے کے معاملے پر الیکشن کمیشن کے خلاف دائر توہین عدالت کی درخواست واپس لیے جانے کی بنیاد پر نمٹا دی گئی ہے۔ اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ کہنا تھا کہ لیول پلینگ فیلڈ کیلئے آئے تھے لیکن ہم سے تو فیلڈ ہی چھین لی گئی۔ دوسری طرف انتخابات ملتوی کروانے کی تیسری قرار داد سینیٹ میں جمع ہو چکی ہے۔ قرار داد میں انتخابات میں التوا کی وجہ مخصوص علاقوں میں بد امنی اور برفباری کو حقِ رائے دہی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا گیا ہے جبکہ الیکشن کمیشن انتخابات میں مزید التوا سے انکاری ہے۔ بلّے کے انتخابی نشان سے محروم ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے امیدوار اب آزاد امیدواروں کی حیثیت سے مختلف انتخابی نشانوں کے ساتھ الیکشن لڑیں گے۔ اس بار آزاد امیدواروں کو ملنے والے بعض انتخابی نشان مضحکہ خیز دکھائی دیتے ہیں۔ ان پر تبصرے سے الفاط قاصر ہیں اور اگر اس پر قلم آرائی شروع کی تو خدشہ ہے کہ بات کہیں اور نکل جائے گی‘ اس لیے احتیاط اور اختصار ہی بہتر ہے۔ چشمِ تصور متوقع منظر نامے سے خائف اور تشویش کا شکار ہے کہ موجودہ حالات میں ہونے والے انتخابات اور ان کے نتائج کی کریڈیبلٹی کا اندازہ لگانے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ انتخابی امیدواروں کی حتمی فہرست دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انتخابی دنگل کا معرکہ کون اور کیسے سر کرے گا۔ دور کی کوڑی لانے والے تو حتمی فہرست کو ہی کم و بیش انتخابی نتیجہ بتلا رہے ہیں۔
اب تو اسرار و رموز سے لے کر بھید بھاؤ سمیت نیت اور ارادے بھی کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ اس تناظر میں متوقع انتخابات پر 59ارب سے زائد کے اخراجات داؤ پہ لگنے کے علاوہ بھاری مالی صدمے کا باعث بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ سیاسی پنڈت اور بیشتر ہنرمندوں کا خیال ہے کہ آئندہ انتخابات سے مطلوبہ نتائج کا حصول نہ صرف محال ہے بلکہ ڈیزائن کردہ منظرنامہ بھی دور رَس اثرات کا حامل ہرگز نہ ہو سکے گا۔ منظرنامہ جو بھی ہو‘ یہ قطعی عارضی ہوگا اور اسے من چاہے عرصے تک چلانا بھی آسان مرحلہ نظر نہیں آرہا کیونکہ جن کے ہاتھ میں باگ ڈور اور معاملات جاتے دکھائی دے رہے ہیں‘ وہ صفر مقبولیت پر کھڑے ہیں۔ ان سبھی کے ادوارِ حکمرانی مل کر بھی مستقبل کا کوئی نیا جھانسہ دینے کے قابل نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد بینیفشری سیاسی اشرافیہ کا پھر سے پرانی ڈگر پر چلنے کا خدشہ موجود ہے جس کے نظارے ماضی میں ہنرمندانِ ریاست دیکھتے آئے ہیں‘ تاہم سیاسی بساط پر یکطرفہ چالیں کہیں سارا کھیل ہی غیر متوازن نہ کر ڈالیں۔ 2018ء کا تجربہ دہرانا اُنہی حالات اور نتائج کو دعوت دینے کا باعث بن ہو سکتا ہے جن کا خمیازہ عوام ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ اس بار وہی وزن پی ٹی آئی کے پلڑے سے نکل کر اُن کے پلڑے میں ڈلتا محسوس ہو رہا ہے جو ہر بار حکومت میں آنے کے بعد عوام اور ان کے مسائل سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ کس کس کا نام لوں‘ سب کو سبھی جانتے ہیں۔ اعلیٰ اداروں سے جڑی شخصیات کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلانے سے لے کر ہرزہ سرائی اور کردار کشی سمیت کون سا گل نہیں کھلایا گیا‘ تاہم ماضی کے چند ادوار کو جمع تفریق کریں تو بس یہی حاصل ہوتا ہے کہ مائنس پلس کے کھیل میں پلس ہونے والے منہ زور اور مزید پلس ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ماضی کے تجربات نہیں‘ غلطیاں دہرائی جا رہی ہیں۔ دہائیوں سے شوقِ حکمرانی پورے کرنے والے ہوں یا 2018ء میں برسرِ اقتدار آنے والے‘ سبھی ایک ہی مائنڈ سیٹ کی پیداوار اور بوئے سلطانی کے مارے ثابت ہوئے ہیں۔ ان سبھی نے اقتدار سے نکالے جانے کے بعد جوشِ خطابت میں کون سی شعلہ بیانی نہیں کی۔ اپنی حکومت کے خلاف سازشوں کی کہانی اپنی زبانی ایسے سناتے رہے ہیں جیسے یہ سبھی دودھ کے دھلے ہوں۔
سرکاری وسائل پر کنبہ پروری اور بندہ پروری کے علاوہ اہم وزارتوں اور اداروں کو مصاحبین اور سر چڑھے سرکاری بابوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بدعت کو کس نے اپنے دور میں دوام نہیں بخشا۔ طرزِ حکمرانی گلے کا طوق اور پاؤں کی بیڑیاں بن کر ان سبھی کے لیے اقتدار نکالا کا پروانہ بنتا رہا ہے لیکن یہ سبھی اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرا کر خود بری الذمہ ہوتے رہے ہیں۔ نجی محفلوں اور عوامی اجتماعات میں رو رو کر کوئی پوچھتا ہے کہ مجھے کیوں نکالا اور کوئی بتاتا ہے کہ مجھے اقتدار سے اس طرح نکالا۔ کسی نے آج تک یہ نہیں بتایا کہ وہ اقتدار میں آئے کیسے تھے؟ چاپلوسیاں‘ خوشامدیں‘ ترلے منتیں اور تابعداریاں کرنے والے برسرِ اقتدار آنے کے بعد کس طرح آنکھیں اور رنگ بدلتے رہے ہیں۔ پہلے ہی مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے پانچ وزرائے اعظم مملکتِ خداداد پر اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پر آٹھ وزرائے اعلیٰ شوقِ حکمرانی پورا کر چکے ہیں اور افتادِ طبع کا عالم یہ ہے کہ ان سبھی ادوار میں اداروں اور شخصیات سے ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کی جاتی رہی۔ غلام اسحاق خان سے شروع ہونے والی محاذ آرائی جنرل عبدالوحید کاکڑ‘ جنرل آصف نواز جنجوعہ‘ جنرل جہانگیر کرامت‘ چیف جسٹس سجاد علی شاہ‘ صدر فاروق لغاری‘ جنرل پرویز مشرف سے ہوتی ہوئی جنرل قمر جاوید باجوہ اور چیف جسٹس ثاقب نثار تک جاری رہی ‘یعنی تین ادھورے ادوار میں اداروں سے مسلسل ٹکراؤ جاری رہا۔ نہ کبھی ماضی سے سیکھا اور نہ حال کو سدھارنے کی کوشش کی گئی۔ طرزِ حکمرانی اور من مانی کی یہ تاریخ دہرانے کے بجائے سدھارنے کی ضرورت ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ عادت بدلی جا سکتی ہے لیکن فطرت انسان کے ساتھ ہی جاتی ہے‘ لیکن جب عادتیں ہی فطرت کا روپ دھار لیں تو ان پر قابو پانا کسی کے بس میں نہیں رہتا۔
جھرلو اور جگاڑ کے علاوہ انتخابی عمل میں نقب لگانے کے الزامات کی پنڈ اٹھائے کئی بار اقتدار میں آنے والے ہوں یا 2018ء میں نئے پاکستان کا نعرہ لگا کر آنے والے سبھی ایک سکے کے دو رخ اور نہلے پہ دہلے ثابت ہوئے ہیں۔ وطنِ عزیز پر پے در پے ہونے والے تجربات کے سبھی نتائج صفرہی نکلتے رہے ہیں۔ نہ حقیقی جمہوریت نصیب ہوئی اور نہ اصلی آمریت‘ جمہوریت کے علمبردار برسرِ اقتدار آنے کے بعد آمر بنتے چلے آئے اور برسرِ اقتدار رہنے والے آمروں کو جمہوریت کا بخار اس طرح چڑھتا رہا ہے کہ وہ شیروانی زیبِ تن کرکے سیاسی بازیگروں پر انحصار کرتے رہے ہیں۔ قومی اور غیر متنازع ایجنڈوں کے بجائے نظریۂ ضرورت کو نصب العین بنانے والے آمر بھی ضرورتمند ثابت ہوتے رہے ہیں۔ سیاسی حکومتوں کو حصولِ اقتدار اور طولِ اقتدار کی کشمکش سے فرصت ملتی تو وہ آئین‘ حلف اور منشور کی طرف کوئی توجہ کرتیں۔ بدقسمتی سے بلاشرکت غیرے اور مطلق العنان حکمران بھی مصلحتوں اور مجبوریوں کی دلدل میں دھنسنے کے ساتھ ساتھ مائنس پلس اور ضرب تقسیم کے کھیل میں اُلجھتے چلے گئے۔ آئینی اور جمہوری حکمرانوں سے نہ ملک و قوم کو کوئی فیض ملا ہے اور نہ ہی ماورائے آئین شوقِ حکمرانی پورے کرنے والوں سے کچھ مل رہا ہے۔ جہاں آئین قانون ضابطے اور حلف دستاویزات تک محدود غیرمؤثر ہوں تو وہاں اصلی‘ سچی‘ حقیقی اور ملاوٹ سے پاک آمریت کا آپشن ہی بچتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved