تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     15-10-2013

حج کا بیان ۔یوم النحر (4)

10 ذی الحجہ کا دن حاجیوں کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے ۔اس دن حاجی میدان منیٰ میںاور دنیا بھر کے مسلمان اپنے اپنے علاقوں میں قربانی کرتے ہیں۔ قربانی کا آغاز انسان کی زمین پر آمد سے ہی ہو گیا تھا۔ حضرت آدم ں کے دو بیٹوں کے درمیان اصل تنازع بھی مسئلہ قربانی پر پیدا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر امت پر قربانی کو لازم کیا تھا اور اس قربانی کے واجب ہونے کا سبب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے نام کو حلال جانوروں کو ذبح کرتے ہوئے لیا جائے۔ مومن ہرآن اور ہر لحظہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے سرشار ہوتا ہے اور سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ وہ اٹھتے اور بیٹھتے ہوئے اللہ کو یاد کرتے ہیں۔چنانچہ ایمان با اللہ کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کے نام کو قربان گاہوں میں ذبح ہونے والے جانوروں کے گلوں پر چھری چلاتے ہوئے بھی لیا جائے۔ قربانی کی تاریخ اگرچہ بہت قدیم ہے لیکن قربانی کی اس تاریخ کو اپنے کردار اور افعال سے جس قدر روشن حضرت ابراہیم ں نے فرمایااس کی مثال ان سے پیشتر نہیں ملتی۔ حضرت ابراہیم ں نے اللہ تعالیٰ کی توحید کے لیے بے مثال قربانیاں دیں۔بت کدے میں داخل ہوکر کلہاڑے کو چلادیا ،دربار نمرود میں صدائے توحیدکو بلندفرمادیااور باپ اور بستی کی مخالفت کو سہہ لیا لیکن ابھی ایمان کے راستے پر چلتے ہوئے آزمائشوں کا سفر باقی تھا ۔ آپ نے بڑھاپے کے عالم میں اللہ تعالیٰ سے ایک صالح بیٹے کے لیے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمٰعیلں جیسا حلیم بیٹا عطا فرما دیا۔ بیٹا ابھی گود میں ہی تھا کہ اللہ کے حکم پر جناب ہاجرہ اور اسمٰعیلں کو وادی بے آب وگیاہ میں تنہا چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ہاجرہ اور جناب اسمٰعیلں کے لیے زمزم کے چشمے کو رواں فرمادیااور اچھے رفقا اور ساتھی بھی عطا فرما دیے۔ حضرت ابراہیمںگاہے بگاہے جناب ہاجرہ اور اسمٰعیلں کی خبر گیری کے لیے حجاز کے سفر پر تشریف لاتے۔ جب اسمٰعیلںچلنے پھرنے کے قابل ہو گئے تو سیّدنا ابراہیمں نے خواب میں دیکھا کہ وہ جناب اسمٰعیلں کے گلے پر چھری چلا رہے چنانچہ انہوں نے اپنے بیٹے اسمٰعیلںکو اپنے خواب سے آگاہ کیا ور پوچھا تمہاری اس معاملے میںکیا رائے ہے ؟حضرت اسمٰعیلںنے جواب میں پورے خلوص اور احترام سے کہا اے میرے بابا آپ وہ کریں جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے۔ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ حضرت ابراہیمںاور جناب اسمٰعیلںنے جب کامل تابعداری کا ذہن بنا لیا تو جناب ابراہیمں نے اسمٰعیلںکو پیشانی کے بل لٹایا جب آپ چھری کو چلانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو آواز دی کہ آپ نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جناب اسمٰعیلںکی جگہ جنت سے آنے والے جانوروں کو ذبح کروا دیا۔ یوم النحر حضرت ابراہیمںکی عظیم قربانی کی یاد گار ہے حضرت رسول اللہﷺخود بھی قربانی کرتے رہے اور آپ نے اپنی امت کو بھی قربانی کرنے کی تلقین کی۔ اگر ایک مسلمان خلوص سے ایک بکری کی قربانی بھی کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی قربانی کو قبول کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس امر کو واضح فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کو جانوروں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ اللہ تعالیٰ کو قربانی کرنے والے کا تقوی پہنچتا ہے۔ اس لیے جب بھی کوئی شخص قربانی کرنے کے لیے جانور کو لٹائے تو اس کو چھری صرف جانور کے گلے پر نہیں چلانی چاہیے بلکہ یہ چھری اس کو جھوٹی امنگوں، غلط آرزوؤں اور سرکش خواہشات پر بھی چلانی چاہیے جو شخص قربانی توکرتا ہے لیکن اپنے آپ کو احکام الٰہی کا پابند نہیں بناتا یا اپنے آپ کو اس تقویٰ کا خوگر نہیں بناتا تو اس شخص نے صحیح معنوں میں قربانی کا حق ادا نہیں کیا۔ حضرت ابراہیمں کی اس سنت کو زندہ کرنے کے ساتھ ساتھ یوم النحرمیں اور بھی بہت سے کام کیے جاتے ہیں جن میں جمرات کو کنکریاں مارنا،اپنے سرکے بالوں کو مونڈنا اور طواف زیارت کرنا شامل ہے جن کی مسنون ترتیب یہ ہے کہ پہلے جمرہ عقبہ کو کنکریاں ماری جائیں، اس کے بعد قربانی کی جائے اس کے بعد حجامت کی جائے اور اس کے بعد طواف زیارت کیا جائے۔ مسلم شریف میں حضرت انس بن مالک ر ضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے مزدلفہ سے منیٰ آنے کے بعد پہلے جمرہ عقبہ کو کنکریاں ماریں پھر اونٹوں کی طرف تشریف لائے اور انہیں ذبح کیا۔ قریب ہی حجام بیٹھا تھا۔ آپ نے اسے ہاتھ کے اشارے سے سر مونڈنے کا حکم دیا۔ اس نے سرکا دایاں حصہ مونڈ دیا۔ آپ نے بال نزدیک بیٹھے لوگوں میں تقسیم کر دیے۔ پھر آپ نے حجام کو سرکا بایاں حصہ مونڈنے کا حکم دیا۔ پھر پوچھا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کہاں ہے؟ وہ حاضر ہوئے تو آپﷺنے وہ بال ان کو عنایت فرما دیے۔ اسی طرح مسلم شریف میں ہی طواف زیارت یا طواف افاضہ کے بارے میں حدیث آتی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے قربانی کے دن ہی طواف افاضہ کیا پھر منی واپس آکر نماز ظہر ادا کی۔ اگرچہ یوم النحر کو جمرہ عقبہ پر رمی کرنا، اس کے بعد قربانی، اس کے بعد حجامت اور طواف زیارت کرنا افضل ہے لیکن اگر کوئی غیر ارادی طور پر اس ترتیب کا اہتمام نہ کر سکے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اس لیے کہ رسول اللہﷺ نے اس ترتیب پر سختی نہیں برتی۔ مسلم شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر منیٰ میں کھڑے ہوئے تاکہ لوگ آپ سے مسائل دریافت کر سکیں۔ ایک آدمی حاضر ہوا اور عرض کیا میں نے لاعلمی میں قربانی سے پہلے حجامت کر لی آپ نے ارشاد فرمایا اب قربانی کر لو کوئی حرج نہیں۔ دوسرا شخص حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺمیں نے کنکریاں مارنے سے قبل لاعلمی میں قربانی کر لی۔ آپ نے فرمایا: اب کنکریاں مار لو کوئی حرج نہیں ،غرض رسول اللہﷺسے تقدیم وتاخیر کے معاملے میں جو بھی سوال کیا گیااس کے جواب میں آپ نے یہی جواب ارشاد فرمایا: اب کر لو کوئی حرج نہیں۔ قربانی، سر مونڈنے اور طواف کرنا کا طریقہ چونکہ واضح ہے اس لیے قارئین کی سہولت کے لیے یوم النحر کو ماری جانے والی کنکریوں کی تھوڑی سی وضاحت کچھ یوں ہے کہ جب حاجی مزدلفہ میں ۹ ذی الحجہ کی رات وقوف کرتا ہے تو اس کو وہاں سے چنے کے حجم کے برابر کی سات کنکریاں چن لینی چاہییں ۔سنن نسائی میں حدیث ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے آپﷺکے لیے سات کنکریاں اکٹھی کیں جنہیں دو انگلیوں کے درمیان رکھ کر پھینکا جا سکے۔ جب وہ کنکریاں آپ کے ہاتھ میں رکھ دیں تو آپ نے فرمایا: ہاں ایسی ہی کنکریاں ٹھیک ہیں اور آپ نے یہ بھی کہا کہ دین میں غلو کرنے سے بچو ،تم سے پہلے لوگوں کو دین میں غلو نے ہی ہلاک کیاتھا۔ بیمار بوڑھوں اور بچوں کی طرف سے صحت مند نوجوان کنکریاں مار سکتے ہیں۔ کنکری کو جمرہ عقبہ کو نشانہ بنا کر مارنا چاہیے۔ جب تک رسول اللہﷺ نے جمرہ عقبہ کو کنکریاں نہیں مارنا شروع کیں اس وقت تک آپ تلبیہ کہتے رہے اور جب کنکریاں مارنے کی باری آئی تو آپ نے ہر کنکری مارتے وقت اللہ اکبر کہا۔ اس رمی کا بنیادی مقصد بھی اللہ کا ذکر کرنا ہی ہے۔ حج کے باقی ماندہ مسائل کا ذکر اگلے کالموں میں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ارکان اسلام کو سمجھنے اور ان پر عمل پیدا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved