کیا ہمارا خاندانی نظام آندھیوں کی زد میں ہے؟ خاندان بکھر جائے تو کیا سماج کو سمیٹنا ممکن ہو گا؟
ہماری تمام تر توجہ سیاست اور ریاست پر ہے۔ اس ملک کا دانشور اور عام آدمی اس طرف بہت کم دھیان دے پایا ہے کہ انٹر نیٹ نے جس عالمگیر طرزِ زندگی کو فروغ دیا ہے‘ ہماری نئی نسل اس کو شعوری یا غیرشعوری طور پر اپناتی جا رہی ہے۔ یہ طرزِ زندگی مسرت اور آسائش کی افزودگی کو انسانی کاوش کی منزل قرار دیتا ہے اور انسان کی نکیل‘ غیرمحسوس انداز میں معاشی وسائل کے ہاتھ میں تھما دیتا ہے۔ آدمی جب اس جانب چل پڑتا ہے تو پھر اخلاق‘ تہذیبی قدریں‘ معاشرتی روایات‘ ہر وہ شے غیر مطلوب ہو جاتی ہے جو اس سفر کی راہ میں حائل ہو یا اسے مشکل بنا دے۔
یہ کوئی نیا چیلنج نہیں۔ جدید تاریخ میں صنعتی انقلاب اس کا پہلا مظہر تھا۔ خاندان کا ادارہ تشکیلِ نو سے گزرا لیکن باقی رہا۔ خاتون اب معاشی عمل میں مرد کے شانہ بشانہ کھڑی تھی۔ اس کا سماجی مقام اب وہ نہیں رہا جو زرعی معاشرت میں تھا۔ وہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکی ہے۔ اسے فیصلہ سازی میں شریک کیے بغیر چارہ نہیں۔ اس تبدیلی کے بعد یہ ممکن نہیں تھا کہ خاندان کا ادارہ سابقہ صورت کے ساتھ باقی رہتا۔ بات یہاں تک محدود نہیں رہی۔ رہ بھی نہیں سکتی تھی۔ اس کے پیچھے سرمایہ دارانہ ذہن کام کر رہا تھا جس نے سرمایے کو اصل اور مقدس بنا دیا تھا۔ مقدس ان معنوں میں کہ اس کی پوجا ہونے لگی تھی۔ یہ انسان کی تفہیمِ نو تھی۔ ایک نیا انسان وجود میں آ رہا تھا۔ وہ ایک اخلاقی وجود سے ایک مکمل مادی وجود میں ڈھل چکا تھا۔ علامہ اقبال جیسے دور اندیش نے لوحِ وقت پر لکھی وہ عبارت پڑھ لی جو اس وقت کم رجال ہی کو دکھائی دے رہی تھی:
عہدِ حاضر ملک الموت ہے تیرا‘ جس نے
قبض کی روح تری دے کر تجھے فکرِ معاش
ہم نے اس تبدیلی کا ادراک نہیں کیا۔ ہم ان آندھیوں کا شور نہ سُن سکے جو خاندان کے ادارے کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ ہم ابھی تک زرعی معاشرت کی نفسیات میں زندہ تھے جو پدر سرانہ تھی۔ ہمارے مذہبی و سماجی تصورات یہی تھے کہ انسان سے مراد مرد ہے۔ عورت تو اس کی تسکین کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ اس کی عقل اس کی ایڑی میں ہوتی ہے۔ ایک ناقص وجود‘ اس لیے اس کو شریکِ مشاورت کیا جا سکتا ہے نہ مرد کے برابر سمجھا جا سکتا ہے۔ ہم نے اس کے عقلی وجود ہی کا انکار نہیں کیا‘ اس کے نفسیاتی وجود کو بھی رَد کر دیا۔ یہ بات کہ اس کی بھی کوئی خواہش ہے۔ مرد کی طرح‘ اس کے جسم کے کچھ مطالبات ہیں۔ وہ بھی یہ چاہتی ہے کہ مرد اس کی تسکین کا سامان بنے۔ عورت نے اسے بادلِ نخواستہ قبول کر لیا مگر سماجی حد تک۔ وہ اپنی فطرت کو بدلنے پر قادر نہ تھی کہ محبت اور توجہ اس کی فطری ضرورت تھی۔ یہاں کا مرد اس برہنہ حقیقت سے بے خبر رہا۔
دنیا مگر صنعتی انقلاب تک رُکی نہیں۔ سرمایے کی پیش قدمی جاری رہی اور ملک الموت اس کے ساتھ ساتھ چلتا رہا‘ انسان کی روح کو قبض کر نے کے لیے۔ یہاں تک کہ انسانیت کا قافلہ کمپیوٹر ایج میں داخل ہو گیا۔ اب مرد و زن کے تعلق کی تشکیلِ نو ہو چکی تھی۔ خاندان اگرچہ باقی تھا مگر رجعت پسندی کی علامت کے طور پر۔ انسان نے صنفی تعلق کی نئی جہتیں تلاش کر لی تھیں۔ وہ خاندان اور نکاح تک محدود نہیں رہا۔ عورت مرد کی طرح اپنی مستقل بالذات حیثیت کو منوا چکی تھی۔ اب وہ اپنی شرائط پر کسی تعلق کا حصہ بنتی تھی۔ اس کی باگ اب مرد کے ہاتھ میں نہیں تھی۔ سرمایہ دارانہ نظام میں پرورش پانے والے مرد نے اس حقیقت کو مان لیا۔ آئی ٹی کے انقلاب نے ایک عالم گیر معاشرت کی بنیاد رکھ دی۔ اس نے ہماری خاتون کی 'خودی‘ کو بھی بیدار کر دیا۔
اس کے باوجود ہم اس کا ادراک نہیں کر پائے۔ ہمارا مرد یہ جان نہیں پایا وہ سوشل میڈیا جو اسے تلذذ کے نئے نئے راستے دکھا رہا ہے‘ وہ اب ہماری خواتین کی دسترس میں بھی ہے۔ وہ عورت کے وجود کی نفی کرتا رہا۔ اس نے بس اتنا جانا کہ اس کو لباس و زیورات کی حد تک آسودہ کر دو۔ اس سے عورت کی نسوانیت کو تسکین مل جائے گی۔ وہ اس کی جذباتی ضروریات کا پوری طرح ادراک نہ کر سکا۔ زرعی معاشرت میں جنم لینے والی مذہبی تعبیر بدستور اس کی حمایت میں کھڑی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس روایت کی نمائندہ جدید پڑھی لکھی خواتین‘ اپنے لیپ ٹاپ کی مدد سے اسے آج بھی یہ سمجھا رہی ہیں کہ وہ مرد کی تسکین کے لیے پیدا ہوئی ہے۔ یہ اس کا مذہبی وظیفہ ہے کہ وہ مرد کے بے قابو جذبات پر بند باندھنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہے۔ اس کے کان اس کی آواز پر لگے رہیں کہ کب بلاوا آتا ہے۔ اس کی صحت اجازت دے یا نہ دے۔ طبیعت مائل ہو یا نہ ہو۔ اسے ہر صورت میں لبیک کہنا ہے۔ بصورت دیگر وہ لعنت کی مستحق ہو گی۔
اس کا ردِ عمل ہونا تھا اور ہوا‘ کہیں اعلانیہ کہیں‘ غیر اعلانیہ۔ جب ہم نے اپنی تہذیبی و مذہبی روایت میں عورت کے نفسیاتی وجود کو تسلیم نہیں کیا تو اس نے اپنے لیے دوسرے راستے تلاش کیے۔ ایک موبائل فون سے وہ دنیا سے جڑ چکی تھی۔ جو آسودگی اسے گھر میں نہیں مل رہی تھی‘ وہ اس نے باہر تلاش کرنی شروع کر دی۔ خاندان کی دیوار بظاہر کھڑی تھی لیکن اس کی بنیادوں میں سرنگ بن چکی تھی۔سماجی مطالعہ بتاتا ہے کہ گھر کی چار دیواری اب بے معنی ہوتی جا رہی ہے۔ اس کو بچانے کی ایک ہی صورت ہے: اپنے خیالات پر نظر ثانی۔ ہمیں اپنے طرزِ عمل سے یہ ثابت کر نا ہوگا کہ نکاح کا ادارہ صرف مرد کے لیے نہیں‘ عورت کے لیے بھی ہے۔ خاندان اسی وقت مضبوط ہوگا جب نکاح کا ادارہ میاں بیوی دونوں کے تمام مادی‘ نفسیاتی اور جذباتی مطالبات کو پورا کرے۔ جب گھر مرد اور عورت کے لیے تسکین اور راحت کا مرکز بنے۔ جب مرد اور عورت دونوں کو گھر میں اتنی عزت‘ احترام اور محبت ملے کہ ان کوکہیں اور نہ دیکھنا پڑے۔
صرف میاں بیوی ہی کے لیے نہیں‘ گھر بچوں کے لیے بھی آسودگی کا سامان فراہم کرے۔ گھر میں ان کی شخصیت کو تسلیم کیا جائے۔ ان کی بات کو سنا جائے۔ ان کے سوالات کے جواب دیے جائیں۔ ان کے فطری مطالبات کو سمجھا جائے۔ اس کے ساتھ اس سوچ کو بدلا جائے کہ محض مادی وسائل سکون دے سکتے ہیں۔ مشاہدہ یہ ہے کہ گھر سے جو چیز دور کرتی ہے‘ وہ معاشی ابتری نہیں‘ محبت اور احترام کا میسر نہ ہونا ہے۔ اگر کسی گھر میں معیشت اور محبت دونوں نہ ہوں تو خاندان کے ٹوٹنے کا عمل تیز تر ہو جاتا ہے۔
خاندان کو بچانے کے لیے دو باتیں ناگزیر ہیں۔ ایک یہ کہ عورت کو مرد کی طرح پورا انسان سمجھا جائے۔ دوسرا یہ کہ آسودگی کو صرف مادی وسائل سے مشروط نہ کیا جائے۔ ان کی اہمیت سے انکار محال ہے لیکن یہ وسائل کسی صورت محبت اور توجہ کا متبادل نہیں بن سکتے۔ اس کے لیے ان کی اخلاقی اقدار کو مضبوط بنایا جائے۔ وہ اقدارجو احترامِ انسانیت اور محبت سے عبارت ہیں۔ ہر ایسا تصور‘ نظریہ اور سوچ غلط ہو گی جو ان دو باتوں کی راہ میں حائل ہو‘ چاہے اس کا انتساب مذہب کے نام ہو‘ اسے جدیدیت کے عنوان سے پیش کیا جائے یا اسے کلچر کا لبادہ اوڑھایا جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved