احمد بشباش کی داستان رُلاتی بھی ہے اور حوصلہ بھی دیتی ہے۔ احمد بشباش بوڈا پسٹ‘ ہنگری میں آئی ٹی کی تعلیم حاصل کرنے والا فلسطینی ہے۔ وہ غزہ کا رہنے والا ہے اور اس کا خاندان وہیں ہے۔ سات اکتوبر کے بعد اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے بے رحمانہ قتلِ عام میں اس کا بھائی بھی 31اکتوبر کو شہید ہوا۔ اس سے پہلے 2020ء میں اس کی بہن اسرائیلی رکاوٹوں کی وجہ سے بروقت طبی امداد نہ مل پانے کے سبب جاں بحق ہو گئی تھی۔ یہ دونوں گھاؤ احمد بشباش کے دل پر لگے ہوئے تھے۔ وہ خود تو غزہ میں نہیں ہے اس لیے اس نے سوچا کہ میں یہاں بیٹھ کر جو کچھ کر سکتا ہوں‘ وہ کروں۔ اس نے اسرائیلی اور اسرائیل نواز کمپنیوں کے بائیکاٹ کی ایک ایپلی کیشن بنائی اور دنیا کے ہاتھ میں بائیکاٹ کا ایک بڑا ہتھیار دے دیا۔ احمد بشباش کہتے ہیں کہ میں نے یہ ایپلی کیشن اس لیے بنائی کہ جو کچھ میرے ساتھ ہوا‘ وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ نہ ہو۔ اس ایپلی کیشن کا نام No Thanks ہے اور 13نومبر کو لانچ ہونے سے اب تک لاکھوں کی تعداد میں ڈاؤن لوڈ کی جا چکی ہے۔ یہ ایپلی کیشن پلے سٹور پر عام دستیاب ہے اور میرے موبائل میں بھی موجود ہے۔ سنا ہے کچھ ممالک میں اس کی ڈاؤن لوڈنگ بھی بند ہے لیکن یہ براہِ راست یا بالواسطہ ڈاؤن لوڈ ہو سکتی ہے۔ No Thanksبالکل مفت ہے اور یہ استعمال کرنا بھی بہت آسان ہے۔ آپ اس میں کسی برانڈ کا نام ڈالیں‘ فوراً معلوم ہو جائے گا کہ یہ اس بائیکاٹ کی فہرست میں ہے یا نہیں۔ کسی پراڈکٹ کا بار کوڈ سکین کریں تو یہ بتا دے گی کہ یہ کون سی کمپنی کی ہے اور وہ بائیکاٹ لسٹ میں ہے یا نہیں۔ اسی طرح ایک پوری فہرست ان کمپنیوں کی ہے جن کا بائیکاٹ کیا جانا مقصود ہے۔ اس فہرست میں بڑی بڑی کمپنیوں‘ طعام گاہوں‘ فوڈ چینز اور ہر طرح کی مصنوعات کے نام شامل ہیں۔ ان میں ایڈی ڈاس‘ برگر کنگ‘ میکڈونلڈز‘ سٹار بکس‘ نیس کیفے‘ اگوڈا‘ ائر بی این بی جیسی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ بہت سے ناموں کی ایک طویل فہرست ایپلی کیشن میں موجود ہے۔ یہ ایپلی کیشن تنہا نہیں۔ دو ویب سائٹس Boycotzionismاور Ulastempat بھی بائیکاٹ کی اسی مہم کو فروغ دے رہی ہیں۔ اسی کے ساتھ حماس اور فلسطینیوں کی طرف سے مدد کے لیے مسلسل پکار بھی بائیکاٹ کامیاب کرنے میں بڑی معاون ثابت ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا زیادہ تر اسرائیل نوازوں کے قبضے میں ہے؛ چنانچہ حماس یا فلسطین کا نام لکھنا بھی قیامت ہے۔ بے شمار اکاؤنٹس اور پوسٹس یا کمنٹ اسی لیے ختم کر دیے گئے ہیں۔ لیکن کسی نہ کسی طرح وہ وڈیوز اور تصاویر لوگوں تک پہنچ ہی جاتی ہیں جن میں اسرائیلی فوجی نقصان اور فلسطینیوں کی حالت زار اور شہادتوں کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ مظلوم کا ساتھ دینے کا یہ احساس صرف مسلمانوں میں ہی نہیں غیرمسلموں کے دائرے میں بھی پھیلتا گیا ہے۔
لیکن بی ڈی ایس‘ ویب سائٹس‘ ایپلی کیشنز‘ فلسطینیوں کی مسلسل اپیلیں اور محدود وڈیوز مؤثر ہو ہی نہیں سکتی تھیں جب تک پوری دنیا میں علمائے اسلام اور آئمہ نہ کھڑے ہو جاتے۔ آفرین ہے انہیں کہ ہر خطرے‘ ہر پابندی اور ہر مصلحت کو نظر انداز کرکے انہوں نے فلسطینیوں کے حق کے ساتھ ساتھ معاشی بائیکاٹ کی آواز اٹھائی۔ پاکستان بھی اس معاملے میں پیش پیش رہا ہے حالانکہ اعلانیہ سرکاری مؤقف بہت دبا دبا تھا لیکن علما نے اعلانِ حق کا فریضہ بھرپور طور پر انجام دیا۔ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اُمتِ مسلمہ کے ان سرکردہ افراد میں ہیں جن کی طرف نگاہیں بھی اٹھتی ہیں اور نہایت بااثر مسلم شخصیات میں ان کا نام سر فہرست رہتا ہے۔ ان کی بات کا اثر مشرق و مغرب میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے دل سوز بیانات اور تقاریر سے پوری دنیا کے مسلمانوں کو اس طرف متوجہ کیا اور معاشی مقاطعے کی عملی ضرورت اس طرح اجاگر کی کہ ہر دل میں بات اُتر گئی۔ ان کی تقاریر میں وہ تقریر بھی شامل ہے جو کم و بیش ایک ماہ پہلے اسلام آباد کنونشن سنٹر کے اس اجتماع میں کی گئی جس میں عرب ممالک‘ فلسطینی نمائندوں اور پاکستانی عہدے داروں اور رہنماؤں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ یہ اتنی مؤثر تقریر تھی کہ اس کے وڈیو کلپ وائرل ہو گئے۔ کل کراچی کے علما میں ان کی ایک اور تقریر بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ پاکستان میں دینی جماعتوں نے بھی کھل کر اظہارِ حق کیا۔ ایک بڑی قابلِ تعریف مثال ہندوستانی علما کی ہے جو طرح طرح کے مسائل کے باوجود اور سرکاری پالیسی کے بالکل برعکس کھل کر بات کرتے رہے۔ ان میں مولانا سجاد نعمانی اور مولانا ارشد مدنی بھی شامل ہیں۔ دینی رہنماؤں کے اس بے لاگ مؤقف سے بائیکاٹ میں بہت مدد ملی۔ایک اور قابلِ تعریف اقدام پاکستان اور دیگر ممالک میں ان مقامی چین سٹورز‘ ریسٹورنٹس کا ہے جنہوں نے بائیکاٹ میں خود بھی عملی طور پر شریک ہوکر اپنی شیلفوں اور مینوز سے ایسی مصنوعات ہٹا دیں۔ میں انہی دنوں ایک شادی کی دعوت میں شریک ہوا اور وہاں مشروبات میں مشہور عالمی برانڈز کی جگہ مقامی کولا موجود تھا۔
کمال اتا ترک کے زمانے سے سیکولر پالیسیوں کے باوجود عام ترک جو دینی حمیت رکھتا ہے‘ وہ اس زمانے میں اور واضح ہوئی ہے۔ نومبر میں ترک پارلیمنٹ نے عوامی مطالبے کے پیشِ نظر کچھ کولا مصنوعات پرپابندی لگا دی تھی۔ دیگر مصنوعات بھی بائیکاٹ کی زد میں اسی طرح بلکہ زیادہ ہیں جو دیگر مسلم ممالک میں ہیں۔ سب سے الگ مثال ملائیشیا کی ہے جو جنگ کے خطے سے بہت دور لیکن بھاری مسلم اکثریت والا ملک ہے۔ پترا جایا سرکاری انتظامی مرکز ہے۔ وہاں میکڈونلڈز کی ایک برانچ کے ملازم نے رائٹر کو بتایا کہ 20 فیصدگاہک کم ہوئے ہیں۔ ملائیشیا میں بائیکاٹ کا ایک الگ رنگ اس لیے ہے کہ میکڈونلڈز نے بی ڈی ایس تحریک پر قانونی ہرجانے کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ دعویٰ چھ ملین رِنگٹ یعنی 1.3ملین ڈالرز کا ہے۔ Grabملائیشیا میں معروف ٹیکسی رائیڈ کمپنی ہے‘ اس کے چیف ایگزیکٹو کی بیوی نے اسرائیل کی تعریف سوشل میڈیا پر کی تھی۔ اس کا ردِ عمل شدید ہوا حتیٰ کہ اس عورت کو اپنے بیان کی وضاحتیں کرنا پڑیں۔ گریب اور مکڈونلڈز ملائیشیا کو بعد ازاں فلسطینیوں کی امداد کا اعلان بھی کرنا پڑا۔
العربیہ نے نومبر میں یعنی دو ماہ پیشتر ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ عرب ممالک میں بھی یہ بائیکاٹ کس طر ح اثر انداز ہو رہا ہے۔ مصر اور اُردن ان میں سر فہرست ہیں۔ حالانکہ یہ ملک سرکاری طور پر فلسطینیوں کے ساتھ نہیں کھڑے بلکہ وہاں ان کے حق میں جلسے جلوس کی بھی ممانعت ہے۔ مصر میں میکڈونلڈز کے ایک ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کی سیل میں ستر فیصد کمی ہوئی ہے۔ عمان‘ اردن میں بھی دکانداروں کا یہی کہنا تھا کہ بائیکاٹ سے ان مصنوعات کی فروخت پر بہت فرق پڑا ہے۔ اسی طرح اسی رپورٹ کے مطابق کویت میں میکڈونلڈز‘ سٹار بکس اور کے ایف سی کے ریسٹورنٹس خالی پڑے ہیں۔ عام عرب شہری کی سوچ یہی ہے کہ ''چاہے اس سے جنگ کے نتائج پر کوئی فرق پڑے یا نہ پڑے‘ یہ تو کم سے کم میرے بس میں ہے اور کم از کم میرے دل کو یہ تو سکون رہے گا کہ میرے ہاتھ بچوں کے خون سے لتھڑے ہوئے نہیں ہیں‘‘۔
اصل بات یہی ہے۔ اگر انسان یہی سوچتا رہے کہ میرے بائیکاٹ کرنے سے کیا ہوگا۔ پہلے بھی یہی سب کچھ ہوا‘ کچھ فائدہ نہیں ہو سکا۔ فلاں تجزیے میں لکھا ہے کہ اسرائیل اور اسرائیل نوازوں کا کچھ نقصان نہیں ہو گا تو انسان بالکل بھی کچھ نہ کر سکے۔ خبروں کی طرح تجزیے بھی پروپیگنڈوں کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ اب دیکھ لیں۔ یہ فائدہ مند ہوئے کہ نہیں؟ یہ اعداد و شمار کیا بتاتے ہیں؟ یہ اثرات تو پڑ چکے ہیں لیکن اور کچھ فائدہ ہو یا نہ ہو کم از کم آپ کے ہاتھ بچوں اور بے گناہوں کے لہو سے لتھڑے ہوئے تو نہیں ہیں نا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved