کسی بھی کام میں مہارت کیلئے مشق بنیادی شرط ہے، ایک اچھے کھلاڑی کو چیمپئن بننے کیلئے روزانہ گھنٹوں تک ٹریننگ کرنا پڑتی ہے۔ فٹنس اور پریکٹس کے بغیر محض صلاحیتوں کے بل بوتے پر بڑے سے بڑے ایتھلیٹ کیلئے بھی مقابلہ جیتنا آسان نہیں ہوتا۔ ایک اچھا گلوکار اپنی آواز کو سریلا بنانے کیلئے ہمیشہ ریاضت کرتا رہتا ہے۔ ایک اچھا لکھاری بننے کیلئے مطالعہ بنیادی شرط ہے لیکن موجودہ سائنسی دور میں جہاں مصروفیت اور ذمہ داریوں کے سبب ہماری سماجی زندگی متاثر ہوئی ہے‘ وہیں کتابیں پڑھنے کی عادت بھی ناپید ہوتی جا رہی ہے لیکن اس کے باوجود جہاں بھی کوئی نئی کتاب ہاتھ لگے‘ ہم ورق گردانی کا شوق ضرور پورا کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں شمالی کوریا کے حوالے سے دو اہم کتب ہمارے ہاتھ لگیں؛ ''کیا شمالی کوریا میں انسانی حقوق بہتر ہو رہے ہیں؟‘‘ اور ''کیا شمالی کوریا میں کمزور طبقات کے انسانی حقوق میں بہتری آئی؟‘‘۔ چونکہ راقم الحروف ہمیشہ ایک عام آدمی کے موضوعات، عوامی مسائل اور انسانی حقوق کے ایشوز کو اپنے کالموں کی زینت بناتا ہے لہٰذا انسانی حقوق کے تناظر میں شمالی کوریا کو موضوع بنانے کی وجہ مذکورہ کتابوں کا مطالعہ ہے‘ یقینا یہ معلومات قارئین کیلئے بھی دلچسپ ہوں گی۔
جزیرہ نما کوریا کے دو حصے ہیں بلکہ یہ دو الگ ریاستیں ہیں، ایک جنوبی کوریا اور دوسری شمالی کوریا۔ پاکستان میں استعمال ہونے والی کئی معروف گاڑیاں اور موبائل فونز جنوبی کوریا میں تیار کیے جاتے ہیں۔ جنوبی کوریا کی مصنوعات پاکستان میں ہر جگہ استعمال ہو رہی ہیں جبکہ کوریا کے شمالی خطے کے حوالے سے صرف جوہری تجربات اور اشتعال انگیزی کی خبریں ہی سننے کو ملتی ہیں۔ ہمارے یہاں پر لوگ شمالی کوریا کے حوالے سے بہت کم معلومات رکھتے ہیں بالخصوص وہاں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کی عدم موجودگی کی وجہ سے خواتین، بچوں اور معذور افراد جیسے کمزور طبقات کے مسائل اور ان کے بنیادی حقوق کے حوالے سے شمالی کوریا سے بہت کم معلومات سامنے آ پاتی ہیں۔ خوش قسمتی سے مذکورہ بالا کتب کوریا انسٹیٹیوٹ فار نیشنل یونی فکیشن کی شمالی کوریا کے انسانی حقوق کے حوالے سے جاری کردہ دو مختلف رپورٹس کے تراجم پر مبنی ہیں۔ ان کتب میں کم جونگ اُن (Kim Jong Un) کے دور میں شمالی کوریا میں انسانی حقوق میں ہونے والی تبدیلیوں کو صراحت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ شمالی کوریا میں خواتین، بچوں اور معذور افراد سمیت کمزور گروہوں کی بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ اسی تاثر کو جانچنے کے لیے مذکورہ کتب کا مطالعہ کیا اور پھر جب شمالی کوریا میں انسانی حقوق کو کالم کا موضوع بنانے کا خیال آیا تو اگلے ہی روز اسلام آباد میں منعقدہ ایک بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہو گیا جو 23 جنوری کو اقوام متحدہ کی نمائندہ خواتین، جمہوریہ کوریا کے سفارتخانے اور شمالی کوریا کی خواتین کی ڈیفیکٹرز آرگنائزیشن صنفی تفریق کم کرنے کے موضوع پر منعقد کرنے جا رہی ہیں۔ اس انٹرنیشنل سیمینار کے موضوع سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ افغانستان اور شمالی کوریا جیسے ممالک میں کمزور طبقات کے بنیادی انسانی حقوق کے جائزے سے متعلق ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو انسانی حقوق خصوصاً حقوقِ نسواں اور صنفی مساوات ایک مشترکہ عالمی تشویش بن چکی ہے۔ افغانستان سمیت متعدد ممالک میں خواتین اور بچوں سمیت کمزور طبقات کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سامنے آتی رہتی ہیں۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو ہمارا آئین و قانون خواتین، بچوں، معذور افراد اور اقلیتوں سمیت تمام کمزور طبقات کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے، پاکستانی خواتین تجارت اور سیاست سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں اور حالیہ عام انتخابات میں بھی خواتین اور نوجوانوں کی بڑی تعداد حصہ لے رہی ہے۔
اگر شمالی کوریا میں انسانی حقوق کا جائزہ لیا جائے تو صورتحال خاصی تشویشناک نظر آتی ہے۔مغربی دنیا کی جانب سے شمالی کوریا پر بار بار اشتعال انگیزی اور جوہری تجربات کے باعث پابندیاں عائد کی گئیں جبکہ کم جونگ کے برسرِاقتدار آنے کے بعد‘ خصوصاً 2016ء سے شمالی کوریا کو تاریخ کی سخت ترین پابندیوں کا سامنا ہے۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ کورونا وائرس نے شمالی کوریا کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا، حالانکہ کووڈ 19 نے دنیا بھر میں معاشی تباہی پھیلائی؛ تاہم شمالی کوریا اس لیے بھی اس وائرس سے زیادہ متاثرہ ہوا کہ شمالی کورین حکام نے عالمی وبا کے دوران بھی اپنی سرحدیں بند رکھیں اور بیرونی امداد لینے سے صاف انکار کر دیا۔ حتیٰ کہ کووڈ ویکسین کی پیشکش بھی مسترد کر دی گئی جس سے حالات مزید سنگین ہو گئے۔ ایسے اقدامات نے شمالی کوریا میں خواتین، بچوں اور معذور افراد جیسے کمزور طبقات کی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا ہے۔ اگرچہ شمالی کوریا کی معیشت گزشتہ 30 برسوں سے مسلسل اوپر جا رہی ہے اور کم جونگ کے اقتدار میں آنے کے بعد ریاست نے خواتین، نوجوانوں اور معذور افراد کے حقوق کو قانونی اور ادارہ جاتی تحفظ دینے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں جبکہ عالمی برادری کو مثبت تاثر دینے کے لیے بات چیت کے ذریعے ان کاوشوں کو اجاگر کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے مگر اب بھی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔
1946ء میں آزادی کے بعد شمالی کوریا میں صنفی مساوات کا قانون نافذ کیا گیا اور ان کا دعویٰ ہے کہ صنفی مساوات اور حقوقِ نسواں کو قانونی و ادارہ جاتی تحفظ حاصل ہے، مرد و خواتین کے سیاست، معاشرتی اور خاندانی زندگی میں مساوی حقوق ہیں، لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ وہاں دیہی علاقوں میں آج بھی خواتین بہت کٹھن زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، صنفی امتیاز برقرار ہے اور خواتین پر جبر و تشدد ایک بڑا معاشرتی مسئلہ ہے جبکہ طلاق کا طریقہ کار پیچیدہ ہونے کی وجہ سے وہاں ایسے جوڑوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو شادی کا اندراج کرائے بغیر ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں؛ تاہم اب خواتین کے بڑھتے ہوئے معاشی اثر و رسوخ کی بدولت وہاں گھریلو تشدد میں کچھ کمی آ رہی ہے۔ شمالی کوریا میں بچوں کے حقوق کی صورتحال بھی تشویشناک ہے۔ بچوں کی خرید و فروخت، جسم فروشی اور چائلڈ پورنو گرافی کے واقعات آج بھی وہاں رپورٹ ہوتے رہتے ہیں؛ تاہم اب حکومت اس جانب کچھ متوجہ نظر آ رہی ہے۔
راقم الحروف نے مذکورہ رپورٹس کے ذرائع کا بھی جائزہ لیا کہ کس طرح اور کن بنیادوں پر ڈیٹا جمع کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے چار ذرائع استعمال کیے گئے، جن میں سرفہرست شمالی کوریا میں 2012ء سے کمزور طبقات کو درپیش انسانی حقوق سے متعلقہ قوانین اور اداروں میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ ہے۔ اس کے بعد شمالی کوریا سے جان بچا کر نکلنے والے افراد کے تفصیلی انٹرویوز کر کے نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ یہ نقطہ نظر ملک میں سرکاری اداروں اور زمینی حقائق کے درمیان پائے جانے والے تفاوت کے تعین میں بھی مدد دیتا ہے۔ یہ انٹرویوز بنیادی طور پر ایسے منحرفین کے ساتھ کیے گئے جو 2019ء تک کوریا سے نکل گئے تھے کیونکہ 2020ء کے بعد سے کووڈ کی وجہ سے سرحدیں بند ہونے کے باعث براہ راست سروے یا یہ جاننا ممکن نہیں رہا کہ لوگوں کو وبائی امراض بالخصوص کورونا سے بچانے کیلئے شمالی کوریا کا حقیقی ردعمل کیسا تھا۔ تیسرے نمبر پر تجارتی اعداد و شمار اور ایسے چینی تاجروں کے اکائونٹس کا جائزہ لیا گیا جنہوں نے کووڈ 19کے اثرات کا جائزہ لینے کیلئے شمالی کوریا کا دورہ کیا تھا۔ چوتھے نمبر پر سیٹلائٹ تصاویر سے مدد لی گئی تاکہ سکولوں اور کنڈرگارٹنز سمیت بچوں کے لیے بیرونی ماحول کا تعین کیا جا سکے۔
آج کے جدید سائنسی دور میں شمالی کوریا جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں تو شامل ہے لیکن اپنے کمزور طبقات کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور عوامی فلاح کے اقدامات میں یکسر ناکام دکھائی دیتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved