پیشرفت کب ممکن ہے؟ صرف اُس وقت جب انسان کو راہ ہموار ملے۔ راہ میں گڑھے ہوں تو سفر یا تو ممکن نہیں رہتا یا پھر بہت دشوار ثابت ہوتا ہے۔ اِسی طور اگر راہ ہموار نہ ہو تو منزل تک دیر سے پہنچنے کی صورت میں منزل کام کی نہیں رہتی۔ یہ سب کا معاملہ ہے۔ سفر اچھی طرح کرنے کے لیے معیاری راہ کا ہونا لازم ہے۔ معیاری راہ ہر ایک کو تیار نہیں ملتی۔ کبھی کبھی تو اچھی یا بُری کسی بھی طرح کی راہ میسر نہیں ہوتی‘ خود بنانا پڑتی ہے۔ یہ بھی زندگی کا ایک دلچسپ رُخ اور پہلو ہے۔ ہر انسان کو کسی نہ کسی مرحلے پر اِس مرحلے سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔
مسائل کس کی زندگی میں نہیں ہوتے؟ اس گمان میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں کہ کسی کو بہت کچھ یونہی مل جاتا ہے اور کسی کو بہت کوشش کرنے پر بھی کچھ زیادہ حاصل نہیں ہو پاتا۔ اگر کسی کو بیٹھے بٹھائے بہت کچھ مل جائے تو لوگ اُسے رشک کی نظر سے دیکھتے ہیں مگر اِتنا نہیں سوچتے کہ محنت اور تگ و دَو کے بغیر بہت کچھ مل جانا آزمائش ہی کی ایک شکل ہے۔ دینے والا دے کر بھی آزماتا ہے اور لے کر بھی۔ بہت محنت کرنے پر بھی کچھ نہ مل پانا بظاہر عدل کا فقدان معلوم ہوتا ہے۔ یہ تصور ہی کفریہ ہے کہ قدرت نے کسی کو یونہی بہت کچھ دے دیا اور کسی کو محنت کرنے پر بھی کچھ خاص نہیں دیا۔ قدرت کے ہر کام میں مصلحت ہے جو ہمیں تلاش کرنا پڑتی ہے، محسوس کرنا پڑتی ہے۔
کسی بھی راہ پر ڈھنگ سے چل پانا اُسی وقت ممکن ہو پاتا ہے جب وہ ہمارے مطلب اور مزاج کی ہو۔ ہم جس منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں اُس کے لیے موزوں ترین راہ کا انتخاب انتہائی بنیادی شرط ہے۔ اگر بہت کوشش کرنے پر بھی ایسی راہ نہ مل پارہی ہو تو راہ بنانا پڑتی ہے یا اور اگر کوئی راہ ہمارے حساب کتاب کی نہ ہو تو اُسے اپنے مزاج سے ہم آہنگ کرنا پڑتا ہے۔ یہ عمل محنت بھی مانگتا ہے اور انہماک بھی۔ اس معاملے میں بھی کسی کے لیے کوئی رعایت نہیں۔ ہر انسان کو زندگی بھر اِس مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ کیا ہم زندگی بھر یہی کرتے رہنے کے لیے خلق کیے گئے ہیں؟ جی ہاں! بہت حد تک ایسا ہی ہے۔ زندگی تگ و دَو سے عبارت ہے۔ یہ تگ و دَو ہی تو ہے جو ہمیں بلند کرتی ہے۔ انسان کے کردار اور مزاج کی بلندی صرف اِس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ وہ سخت ناموافق حالات کو کس طور اپنے بس میں کرتا ہے اور کس طور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ کسی بھی راستے کو سفر کے لیے آسان بنانے کے بہت سے راستے ہیں۔ پُرسکون اور یکساں، معیاری رفتار کا سفر ممکن بنانے کے لیے ناگزیر ہے کہ انسان راہ میں حائل ہونے والی تمام دیواریں اور رکاوٹیں گراتا رہے۔ رکاوٹیں ایک بار پیدا نہیں ہوتیں، یہ پیدا ہوتی رہتی ہیں اور ہمیں اِن سے نجات پانے کے لیے متحرک رہنا پڑتا ہے۔ زندگی کا حسن اِسی میں مضمر ہے۔ ہم جن باتوں کو اپنے لیے پریشان کُن اور سوہانِ روح سمجھتے ہیں اُنہی میں کہیں ہمارے لیے دیرپا راحت کا سامان بھی ہوتا ہے۔ محض آسانی کی تلاش میں رہنے والے زیادہ پریشان رہتے ہیں۔ پیہم تگ و دَو کے مراحل سے گزرتے رہنے والوں کو آپ ہمیشہ شادمانی سے ہم کنار پائیں گے۔
ہم زندگی بھر غیر معیاری انداز سے سفر کرتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں ہماری ہر منزل، یکسر غیر منطقی طور پر، ہم سے دور ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ چونکہ ہمارے اپنے ہاتھوں ہوتا ہے اِس لیے تاسّف دُگنا ہو جاتا ہے۔ اپنی ہی راہ میں دیواریں کھڑی کرنے کی صورت میں پچھتاوا بڑھتے بڑھتے سفر پر اثر انداز ہونے لگتا ہے۔ معیاری انداز سے سفر ممکن بنانے کے لیے انسان کو صرف منزل پر نظر نہیں رکھنی چاہیے، سفر کی سمت اور رفتار‘ دونوں کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اور سارا لُطف ہی اس بات کا ہے کہ انسان ایک خاص معقول رفتار سے سفر کرتا ہوا اپنی ہی طے کردہ ڈیڈ لائن کے مطابق منزل تک پہنچے۔
رشتوں اور تعلقات کے معاملے میں بھی قدرت نے کسی کے لیے کوئی رعایت نہیں رکھی۔ یہ بھی زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ ہم مرتے دم تک رشتوں اور تعلقات کے اُلٹ پھیر سے دوچار رہتے ہیں۔ یہ مستقل نوعیت کا کام ہے۔ رشتوں اور تعلقات کو نبھاتے رہنے ہی میں ہمارے لیے راحت ہے اور کامیابی بھی۔ کسی بھی شعبے میں قدم رکھنے کے بعد متعلقہ تگ و دَو معیاری انداز سے اُسی وقت ممکن ہو پاتی ہے جب ہم وقت کی تقسیم و تطبیق کے مرحلے سے کامیاب گزریں۔ وقت کم ہے اور کام بہت سے پڑے ہیں۔ ایک طرف معاشی تگ و دَو ہے اور دوسری طرف معاشرتی پیچیدگیاں۔ کام بھی لازم ہے اور معاملت یعنی ملنا ملانا بھی۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ اِس حوالے سے ہمیں اصلاحِ احوال کی خاطر بہت کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔
ہر انسان کے لیے ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اِدھر اُدھر کی باتوں سے بچتے ہوئے کسی طور اپنے آپ کو معیاری سفر کے لیے ہر وقت تیاری کی حالت میں رکھے۔ دل چاہے یا نہ چاہے‘ اس مرحلے سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ زندگی ہمیں بار بار آزماتی ہے، بلکہ آزماتی رہتی ہے۔ یہ آزمائش بیشتر کو سوہانِ روح لگتی ہے۔ کسی بھی ناموافق معاملے میں ابتدائی ردِ عمل ناگواری کا ہوتا ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ ہر پریشانی کو عذاب اور بحران سمجھ لیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ ایسا سوچنا قدرت کی صفتِ عدل پر شک کرنے یا اُسے مسترد کرنے جیسا ہے۔
ہمارے تمام معاملات معاشی اور معاشرتی پہلو لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ کہیں ہم رشتوں کے حوالے سے الجھن کا شکار ہوتے ہیں اور کہیں تعلقات ہمیں پریشان کرتے ہیں۔ ان دونوں کو ایک خاص حد تک رکھنا زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ ہماری راہ میں بچھنے والے کانٹے دراصل رشتوں اور تعلقات کی خرابیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی ہم خود کو یکسر بے بس پاتے ہیں کیونکہ ہماری راہ میں جتنے بھی کانٹے بچھے ہوئے ہوتے ہیں وہ سب کے سب ہماری اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں کا نتیجہ نہیں ہوتے۔ اس نکتے کو سمجھنا لازم ہے کہ ہماری راہ کے بہت سے کانٹے حالات کے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔ تمام حالات پر ہمارا اختیار لازم نہیں۔ بہت کچھ ہے جو ہمارے بس میں نہیں۔ دل چاہے یا نہ چاہے‘ بہت کچھ جھیلنا ہی پڑتا ہے۔
ہر انسان کو اپنا سفر آسان بنانے کے لیے راستے سے کانٹے ہٹانا ہی پڑتے ہیں۔ یہ کام مستقل نوعیت کا ہے اِس لیے دل پر زیادہ بوجھ لینے کی ضرورت نہیں۔ اپنے حصے کی تگ و دَو کرتے رہیے اور نتیجہ خدا کی رحمت پر چھوڑ دیجیے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر ایک طرف بہت سے پیچیدہ معاملات ہمارے پیدا کردہ نہیں ہوتے مگر جھیلنا پڑتے ہیں تو دوسری طرف بہت سی آسانیاں بھی ہماری کاوشوں کا نتیجہ نہیں ہوتیں مگر ہمیں ملتی ہیں، ہمارا سفر آسان بناتی ہیں۔ قدرت نے قدم قدم پر ہماری راہ نمائی کا اہتمام بھی کیا ہوتا ہے اور آسانیاں بھی رکھی ہوتی ہیں۔ مشکلات سے گھبراکر خدا کی رحمت سے مایوس ہو جانا کسی بھی حال میں پسندیدہ اور قابلِ قبول فعل یا طرزِ فکر و عمل نہیں۔ قدرت نے ہمارے لیے لازم کر رکھا ہے کہ ہم ہر وقت منزل پر نظر رکھیں، سفر کو آسان سے آسان تر بنانے کے لیے جو کچھ بھی کیا جانا چاہیے وہ کرتے رہیں۔ راہ میں کانٹے بچھتے رہیں گے اور ہمیں وہ کانٹے ہٹاتے رہنا پڑے گا۔ یہی زندگی ہے اور یقین جانیے کہ اِسی میں جینے کا حقیقی لُطف بھی مضمر ہے۔ راحت و سکون کا سامان تگ و دَو میں ہے، محض آسانیاں تلاش کرنے میں نہیں۔ ہر پریشانی اِس لیے نہیں ہوتی کہ اُسے بحران کے درجے میں رکھ کر اُس سے خوفزدہ ہوا جائے یا اُس سے بچنے کی کوشش میں وہ سب کچھ بھی نہ کیا جائے جو کیا جاسکتا ہے۔
اگر ڈھنگ سے جینا ہے تو طے کرنا ہی پڑے گا کہ کسی بھی معاملے میں غیر منطقی ردِعمل سے بچنے پر توجہ دی جاتی رہے گی۔ راہ میں کانٹے بچھتے رہیں گے اور ہمیں وہ کانٹے مستقل بنیاد پر ہٹانا پڑیں گے۔ رشتوں اور تعلقات میں پڑنے والی دراڑیں اور کشیدگی کانٹوں ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ انسان محنت سے اُتنا نہیں تھکتا جتنا رشتوں اور تعلقات کی پیچیدگیوں اور کھنچاؤ سے تھکتا ہے۔ یہ کانٹے ہٹاتے رہیے، سفر جاری رہے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved