برصغیر پاک و ہند‘ بنگلہ دیش میں تقسیم در تقسیم در تقسیم کی ناقابلِ تردید تاریخ موجود ہے۔ تقسیم کے اسباب پیدا کرنے والے اسے بڑی لذیذ ڈِش سمجھتے ہیں۔ کون نہیں جانتا ڈِش بڑے پیمانے کے کھابے کو کہتے ہیں۔ تقسیم کی یہ تاریخ بیرونی بھی ہے اور اندرونی بھی۔ مثال کے طور پر تقسیمِ بنگال 16اکتوبر 1905ء کا واقعہ ہے۔ اس تقسیم کے نقصانات مشرقی بنگال اور مغربی بنگال دونوں ہی 119سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ تقسیم کا داغ اس قدر گہرا ہے کہ شرق و غرب بنگال دونوں کے عوام اسے بھولنے پر تیار نہیں۔ وقتاً فوقتاً اس تقسیم کے معاشی نتائج بھی سامنے آتے رہتے ہیں جبکہ معاشرتی طور پر انڈین بنگال کے عوام کیلئے تقسیم زیادہ تباہ کُن ثابت ہوئی۔ جس میں سے خوراک کی قلت اور ہولناک قحط نے بھی جنم لیا۔ 1943-44ء کے اُس المیے نے لاہور میں پلنے بڑھنے والے انقلابی شاعر ساحر لدھیانوی کو بھی تڑپا کر رکھ دیا۔
جہانِ کہنہ کے مفلوج فلسفہ دانو
نظامِ نو کے تقاضے سوال کرتے ہیں
یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں کیا
کہ ان پہ دیس کی جنتا سسک سسک کے مرے
زمیں نے کیا اسی کارن اناج اُگلا تھا
کہ نسلِ آدم و حوا بلک بلک کے مرے
ملیں اسی لیے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں
کہ دخترانِ وطن تار تار کو ترسیں
چمن کو اسلئے مالی نے خوں سے سینچا تھا
کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
زمیں کی قوت ِتخلیق کے خداوندو
ملوں کے منتظمو‘ سلطنت کے فرزندو
پچاس لاکھ فُسردہ گلے سڑے ڈھانچے
نظامِ زر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں
خموش ہونٹوں سے دم توڑتی نگاہوں سے
بشر بشر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں
ساحر لدھیانوی بنگال کے تباہ حال عوام کا احوال ہی نہیں بلکہ ہمیں نظامِ سرمایہ داری پر مبنی سیاست اور کاروبارِ ریاست‘ دونوں کو کھل کر بے نقاب کرتا ہوا ملتا ہے۔ پھر 1947ء آ گیا جس میں اسلامیانِ ہند تقسیمِ ہند کے ذریعے پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انتہائی بااصول اور صاحبِ کردار لیڈر حضرت محمد علی جناحؒ صحیح معنوں میں قائداعظم ثابت ہوئے اور ہمیں ہندو بنیے کی غلامی سے بال بال بچا لیا۔ آج جو فلسفی مولانا ابو الکلام آزاد کے ذکر و فکر پر داد کے ڈونگرے برساتے ہیں‘ انہیں بھارت جاکر دیکھنا چاہیے کہ آزادی اور غلامی میں فرق کیا ہوتا ہے۔ یہ فرق حضرتِ علامہ اقبال نے ہمیں آزادی حاصل کرنے سے پہلے ہی بتا دیا تھا۔ جب آپ نے یہ کہا:
مُلا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!
یہ آزادی 14اگست کے دن طلوع ہوئی مگر وہ ریاست جو حضرتِ قائداعظم کے فکر و خیال میں تھی۔ وہ قائم ہونے سے پہلے ہی قائداعظم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلا لیا۔ نئے تخلیق ہونے والے ملک پر سرکاری ملازموں نے قبضہ جما لیا۔ اس قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے جسٹس منیر نے ایک نئی تقسیم در تقسیم کی بنیاد رکھ دی۔ جسٹس منیر کا کہنا تھا کہ اسکندر مرزا کا جاری کردہ صدارتی آرڈر ملک کی پہلی اسمبلی کے بنائے ہوئے دستور پر حاوی ہے۔ اعلیٰ ترین عدالت کے اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستان میں جمہوریت کے بجائے ملوکیت نے جڑ پکڑ لی۔ مقامی کالے انگریزوں نے گورے فرنگیوں سے بڑھ کر اپنوں کو غیر سمجھنا شروع کیا۔ جسٹس منیر نے جس تقسیم کی بنیاد رکھی اس نے پاکستان کی تقسیم کی بنیاد کھود ڈالی۔ مشرقی پاکستان محرومیوں کے سمندر میں غرق ہو گیا۔ دارالخلافہ ساحلِ سمندر کراچی سے جنگل میں منتقل کیا گیا۔ جہاں بنگال کے پاکستانیوں کی رسائی ممکن نہ تھی۔ پین اسلام ازم کا نعرہ لگا کر جو وطن دنیا کے نقشے پر آیا تھا‘ سرکاری بابوؤں نے تقسیم در تقسیم کی پالیسی کے ذریعے وہاں بنگالی نیشنل ازم کا پودا پروان چڑھایا۔اسی تسلسل میں 16دسمبر 1971ء کو قائداعظم کے پاکستان کا مشرقی بازو علیحدہ ہو گیا۔ تقسیم در تقسیم پھر بھی نہ رُکی۔ قائداعظم کے پاکستان کی زیادہ آبادی نے اقلیتی آبادی سے علیحدگی اختیار کر لی تھی مگر ہم نے اپنا رانجھا راضی کرنے کے لیے تاریخ کو جغرافیہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی اور تاریخ سے سبق حاصل کرنے سے انکاری ہوگئے۔
میں سمجھا تھا جسے مجھ سے جدا ہے‘ جو بچھڑاہے تو آدھاکر گیا ہے
میری آواز کومصلوب کردو‘ مرے لہجے میں عیسیٰ بولتا ہے
ہماری گردنوں پر سر نہیں ہیں‘ ہمیں درپیش تازہ کربلاہے
زمیں ہے منقسم جغرافیوں میں‘ بشرتفریق ہوتا جا رہا ہے
برہنہ پیڑ پر بیٹھا پرندہ‘ زمین سے سرخ موسم مانگتا ہے
فصیلِ شہر سے پہرے ہٹا دو‘ کہ دشمن آنگنوں تک آچکا ہے
ایک ہی وطن میں دو دستور بن گئے۔ ملک میں ایک بار پھر غیر جمہوری عناصر کو تقویت ملی۔خاص طور سے 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات نے گملے میں ایسی پنیری لگائی جس نے پاکستان کو دیوالیہ پن کی کھائی کی طرف دوڑا دیا۔ انسانی حقوق‘ انصاف‘ مواقع کی برابری‘ میرٹ پر سرکاری ملازمتوں‘ وسائل کی منصفانہ تقسیم اور غربت کے نیچے جینے والوں کیلئے زندگی کی آسانیاں‘ اس تقسیم در تقسیم در تقسیم کے مالکان اور حکمران اس کو کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھتے۔پتہ نہیں اس پر ہمیں شرم آنی چاہیے‘ ہنسی یا پھر رونا کہ 76سال گزرنے کے بعد بھی پاکستان کو 70ملین ڈالر کا قرض ملنے پر ہمارے حکمران ایک ٹانگ پر دھمال ڈال رہے ہیں۔ نظامِ سرمایہ داری کی آخری بدبو دار ترین سٹریٹجی کسی باعزت قوم کو قرض پر چلانا ہے۔ ہمارے ملک میں مزید قرض مانگنے کے ماہرین ڈھونڈ‘ ڈھونڈ کر بڑے بڑے عہدوں پر بٹھائے جاتے ہیں۔
ان دنوں ایک طرف ایران نے حملہ کرکے ہماری قومی خود مختاری کو چیلنج کیا اور ہم نے حقِ دفاع استعمال کرتے ہوئے اس کا جواب دیا۔ یوں ایران ہمارا تیسرا پڑوسی ہے جس سے جنگ شروع ہو گئی ہے۔ خدا نہ کرے کہ یہ تصادم آگے بڑھے لیکن مشرقِ وسطیٰ میں عربین گلف اور پرشین گلف‘ دونوں جنگ کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسے میں تقسیم در تقسیم در تقسیم اُمتِ مسلمہ کا بھی مقدرکر دی گئی۔ غزہ کے بچے‘ عورتیں اور خالی ہاتھ شہری اپنی چھاتیوں سے آگ روک رہے ہیں۔ ان کے لیے نہ کوئی صلاح الدین ایوبی ہے‘ نہ ارتغرل‘ نہ سلطنتِ عثمانیہ‘ نہ کوئی ایسا شجاع حکمران جو یہ کہہ سکے کہ ظلم بند کرو‘ اب ایسا نہیں چلے گا۔
بقول مجتبیٰ شیرازی:
ربِ توفیق کوئی خیر کی ساعت چاہوں
شبِ گزیدہ ہوں تیرا نورِعنایت چاہوں
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved