ہم زندگی بھر بہت کچھ سمجھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ماحول میں ایسا بہت کچھ ہو رہا ہوتا ہے جسے سمجھنا لازم ہوتا ہے۔ جس نے سمجھنے کی راہ پر گامزن ہونے سے گریز کیا وہ اُلجھنوں سے دوچار ہوا۔ ہمارے تمام معاملات فہم سے شروع ہوکر فہم پر ختم ہوتے ہیں۔ کسی بھی معاملے کا مکمل طور پر سمجھ میں آنا بنیادی شرط ہے۔ اِس شرط کے پورا ہونے ہی پر ہم آگے بڑھ پاتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا سمجھ پانا کافی ہوتا ہے۔ اس سوال کا شرح و بسط سے جواب دیجیے تو یہی کہا جائے گا کہ کسی بھی معاملے کو سمجھنا بنیادی شرط سہی تاہم اتنا کافی نہیں ہوتا اور ہو بھی نہیں سکتا۔ یہ دنیا ہزاروں برس سے صرف اُن کی رہی ہے جو اپنے پورے ماحول کو سمجھنے کی منزل سے گزرنے کو کافی نہیں سمجھتے۔ بیشتر معاملات کو درست کرنے کی راہ اِس سے ایک قدم آگے جاکر شروع ہوتی ہے۔ فلسفے کی بڑی بڑی کتابیں پڑھ دیکھیے‘ تجزیوں کے مجموعے کھنگال دیکھیے۔ بیشتر اہلِ فکر اور تجزیہ کاروں کا معاملہ یہ ہے کہ گھما پھراکر آپ کو بتاتے ہیں کہ دنیا ایسی ہے‘ ویسی ہے۔ اچھی بات ہے کہ اِن کتابوں کے ذریعے آپ کو دنیا کے فہم کے حوالے سے مدد ملتی ہے مگر پھر بھی یہ کتابیں آپ کی پوری تشفی نہیں کر پاتیں‘ پوری تشنگی دور کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ علم کی دنیا ہمیں بہت پُرکشش دکھائی دیتی ہے۔ ہر عہد کے انسان نے اہلِ علم کو رشک کی نظر سے دیکھا ہے۔ اہلِ علم راہ نمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ دنیا کیا ہے‘ کیسی ہے اور جیسی ہے ویسی کیوں ہے۔ اللہ نے جنہیں بالغ نظری عطا فرمائی ہے وہ اِس دنیا کو گہری نظر سے دیکھتے ہیں‘ اِس کی جڑوں کو سمجھتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس دنیا کی ماہیت کیا ہے۔
تمام ہی اہلِ علم و حکمت اِس ڈگر پر نہیں چلتے۔ چند ایک ایسے بھی ہوتے ہیں جو اِس دنیا کو‘ جس میں ہم بستے ہیں‘ سمجھنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی دنیا کے بارے میں سوچنا بھی سکھاتے ہیں جو ہمارے خیالوں میں بستی ہے۔ اُس دنیا کو حقیقت کا روپ دینے کا فن آسان نہیں۔ یہ فن سیکھنے میں عمریں کھپ جاتی ہیں اور سکھانا تو اور بھی جاں گُسل مرحلہ ہے۔ ہر حقیقت ہم سے خراج مانگتی ہے۔ یہ خراج مال و زر کی شکل میں ہو‘ یہ لازم نہیں۔ ہماری ذہانت‘ محنت اور سنجیدگی بھی خراج ہی کی ایک شکل کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہ دنیا ہر اعتبار سے اس قابل ہے کہ اِسے بھرپور ذوق و شوق اور لگن کے ساتھ گلے لگایا جائے۔ امکانات کی کمی کل تھی نہ آج ہے۔ دنیا کی ساری کشش اضافت کی حامل ہے۔ ہر معاملہ کسی نہ کسی دوسرے معاملے سے جُڑا ہوا ہے۔ اللہ کے بخشے ہوئے ذہن کو تربیت کے ذریعے پروان چڑھاکر جو لوگ شعور پیدا کرتے ہیں اور اُسے بروئے کار لاتے ہیں‘ وہ اس دنیا کو سمجھنے میں بھی کامیاب رہتے ہیں اور اِس سے کئی قدم آگے جاکر زندگی کا حق ادا کرنے کی بھرپور کوشش بھی کر گزرتے ہیں۔ زندگی کے دامن میں ہمارے لیے بہت کچھ ہے۔ ہم اُس سے مستفید صرف اُس وقت ہوسکتے ہیں جب ہمیں سوچنے کی توفیق عطا ہو۔ سوچنا ہر انسان کے لیے فریضے کا درجہ رکھتا ہے مگر کم ہی ہیں جو اِس فریضے کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا پورا ڈھانچا انسان کو صرف تفہیم تک رکھتا ہے یعنی یہ سکھاتا رہتا ہے کہ جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے اُسے سمجھ لو ۔ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ جو کچھ بھی ماحول میں ہے اُسے سمجھ لینا کسی بھی درجے میں کافی نہیں۔ سمجھ لینا اچھی بات سہی مگر اس سے ہماری زندگی کا معیار بلند نہیں ہوتا‘ فکر کو بالیدگی نہیں ملتی۔ ذہن کی اصل شان یہ ہے کہ یہ سوچے۔ ذہن سوچنے کے لیے عطا کیا گیا ہے۔ سوچنے کے لیے معاملات کو سمجھنا لازم ہے۔ جب ہم اپنے ماحول اور اُس سے جُڑے ہوئے کسی بھی ماحول کو سمجھنے میں کامیاب ہوتے ہیں تب آگے بڑھنے کی راہ ملتی ہے۔
کسی زمانے میں بھارت میں آرٹ فلمیں بنا کرتی تھیں۔ کم بجٹ کی یہ فلمیں زندگی کو ویسا ہی پیش کرتی تھیں جیسی وہ ہے۔ چند ایک آرٹ فلمیں بہت معیاری بھی تھیں مگر مجموعی طور پر اِن فلموں کو لوگ پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ اِن میں زندگی کو اُسی حالت میں پیش کردیا جاتا تھا جیسی وہ ہے اور جیسی ہم نے قبول کر رکھی ہے۔ کسی بھی فلم کو بنانے کا بنیادی مقصد دیکھنے والوں کو سوچنے کی تحریک دینا ہے۔ کمرشل فلموں کا مرچ مسالا یقینا فلم دیکھنے والوں کو کسی اور خیالی دنیا میں لے جاتا ہے۔ کمرشل فلموں کا مسالا انسان کو کچھ زیادہ نہیں دے پاتا مگر دوسری طرف آرٹ فلمیں بھی کچھ زیادہ نہیں دے پاتی تھیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ آرٹ فلمیں دیکھنے والے ذہن پر اچھا خاصا بوجھ لے کر تھیٹر سے باہر آتے تھے۔ آرٹ فلمیں اُن کے ذہن کو بوجھل کرکے مایوسی کی طرف لے جاتی تھیں۔ زندگی کے بھیانک روپ کو سامنے پاکر وہ مزید اُلجھ جاتے تھے۔ جو زندگی وہ گزارتے ہیں اُسی کو پردے پر دیکھ کر اُن کی ذہنی الجھن مزید بڑھ جاتی تھی۔ اہلِ فکر و نظر کا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے پڑھنے اور سننے والوں کو آگے بڑھنے کے لیے درکار ذہن پروان چڑھانے میں مدد دیں یعنی اُنہیں سوچنا سکھائیں۔ اگر کوئی صاحبِ نظر اس فریضے کی انجام دہی میں کوتاہی برتتا ہے تو اُسے اپنی کوتاہی کا احساس و اندازہ ہو جانا چاہیے۔
کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے کا تجزیہ کیجیے‘ اُس کی نمایاں ترین خصوصیات کا اندازہ لگائیے تو آپ اسی نتیجے تک پہنچیں گے کہ جو کچھ بھی ہے‘ سوچنے سے ہے۔ غور و فکر کی صلاحیت انسان کو ہر اعتبار سے بلند کرکے دم لیتی ہے۔ ہر ترقی یافتہ معاشرہ اس کی زندہ مثال بن کر ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ کسی بھی معاشرے یا ریاست کو بلندی سے ہم کنار کرنے کی صلاحیت اگر کسی صفت میں ہے تو وہ ہے غور و فکر۔ جب انسان اپنے اور اپنے ماحول کے تمام معاملات کا جائزہ لے کر کسی نتیجے تک پہنچتا ہے اور ذہن کو مزید وسعت دینے کے خیال سے سوچتا ہے تب مسائل کو حل کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ پس ماندہ معاشروں کا جائزہ لیجیے تو کچھ ہی دیر میں اندازہ ہو جائے گا کہ وہ غور و فکر کی صلاحیت کے حامل نہ ہونے کے باعث وہاں تک پہنچے ہیں جہاں ہیں۔ پسماندگی اول اول ذہن میں پیدا ہوتی ہے اور پھر پورے وجود پر محیط ہو جاتی ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں عام آدمی کو بھی اِتنی تربیت دی جاتی ہے کہ مسائل کو حل کرنے کی ذہنیت بروئے کار لائے۔ پس ماندہ معاشروں میں ذہن کو تحریک دینے والے کم ہوتے ہیں اور مسائل سے کسی نہ کسی طور جان چُھڑانے پر اُکسانے والے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ کسی بھی مسئلے کا یہ میرٹ ہرگز نہیں کہ اُس سے جان چھڑانے کے بارے میں سوچا جائے۔ کوئی بھی مسئلہ اصلاً اس لیے ہوتا ہے کہ اُسے حل کیا جائے۔ اگر کسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے ذہن کو بروئے لانے کے بجائے کسی نہ کسی طور جان چھڑانے کی ذہنیت پروان چڑھائی جائے تو رفتہ رفتہ یہ ذہنیت ہر معاملے پر محیط ہو جاتی ہے اور پھر ہم ذہن کو بروئے کار لانے کے بجائے صرف اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ معاملات کو دفنادیا جائے‘ اُن پر مٹی ڈالی جائے‘ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبالیا جائے یا جس طور کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرکے مطمئن ہو رہتا ہے‘ اُسی طرح مسائل سے چشم پوشی کرکے سکون کا سانس لیا جائے۔
زندگی کے دامن میں ہمارے لیے جو کچھ بھی ہے‘ اُسے پانے کی انتہائی بنیادی شرط یہ ہے کہ ہم ذہن کی شکل میں عطا کی جانے والی بیش بہا نعمت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانا سیکھیں۔ جب تک ہم یہ ہنر نہیں سیکھتے تب تک ہم زندگی کے بارے میں سنجیدہ بھی نہیں ہوتے۔ زندگی صرف اُن کی ہو رہتی ہے جو اُسے پوری فکری توانائی کے ذریعے اپناتے ہیں۔ ٹیکنالوجیز کی بھرمار نے ہمارے لیے بہت سی الجھنیں پیدا کی ہیں مگر دوسری طرف بہت سی آسانیاں بھی تو پیدا ہوئی ہیں۔ یہ کیا کم ہے کہ ہم اگر سنجیدہ ہوں تو کچھ بھی سیکھ سکتے ہیں۔ ذہن کو متحرک کیجیے تو یہ دنیا خود بخود آپ کے قدموں پر آ گرے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved