ایران نے 'برادر اسلامی‘ ملک پاکستان پر حملہ کر دیا۔ساتھ ہی دیگر برادرانِ اسلام‘عراق اور شام پر بھی میزائل داغے گئے۔مقدمہ یہ ہے کہ ایران کوبحیثیت ریاست خطرات لاحق تھے اور ایران کے مفادات ہر شے پر مقدم ہیں۔ایک دن کے بعد‘پاکستان نے بھی 'برادر اسلامی‘ ملک ایران پر میزائل گرا دیے۔مقدمہ یہاں بھی یہی ہے کہ یہ بطور ریاست‘پاکستان کے مفاد کا تقاضا تھا اور اس باب میں کوئی مصلحت روا نہیں رکھی جا ئے گی۔
ایران ان دنوں مشرقِ وسطیٰ میں گرم ایک معرکے میں فریق ہے۔اس کا کہنا ہے کہ اس کی اصل دشمنی اسرائیل کے ساتھ ہے۔بظاہر گھمسان کا رن پڑا ہے مگراسرائیل پر ایران کا کوئی ایک میزائل نہیں گرا۔ہم نے بار ہا جوش و جذبے سے سرشار بیانات سنے مگر یہ بیان کبھی امرِ واقعہ نہیں بن سکے۔ایران کے پڑوس میں کشمیری مسلمان اُسی طرح کے ظلم سے دوچار ہیں جن سے فلسطینی گزر رہے ہیں۔بھارتی ریاست ایک منصوبہ بندی کے ساتھ ان کی نسل کشی کر رہی ہے۔ان کی سرزمین سے انہیں بے دخل کر رہی ہے ا ورفلسطینیوں کی طرح‘کشمیریوں کا وطن ان کے لیے اجنبی بنتا جا رہا ہے۔ایران نے ان کے بارے میں کبھی جذبۂ ایمانی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔یہاں امتِ مسلمہ کے درد نے ایران کوکبھی پریشان نہیں کیا۔جب توجہ دلائی گئی‘تو اسے پاکستان اور بھارت کا دوطرفہ معاملہ قرار دیا گیا۔
کشمیر پر عرب برادرانِ اسلام نے بھی کبھی کسی گرم جوشی کا اظہار نہیں کیا۔بھارتی مظالم کے باوجود ‘مودی صاحب کو قومی اعزازات سے نوازا گیا۔کسی نے بھار ت سے سفارتی تعلقات منقطع نہیں کئے۔ترکیہ نے اسرائیل کے اس ظلم کے باوصف‘اُس سے اپنے سفارتی تعلقات قائم رکھے۔یہاں شکایت نہیں‘صرف امرِ واقعہ کا بیان مقصود ہے۔ اس کے ساتھ غور وفکر کی دعوت بھی۔
یہ قومی ریاست اور امتِ مسلمہ کے مروجہ تصورات کا تصادم ہے۔ہم ان کے بارے میں لاعلمی اور رومان کا شکار ہیں۔ اس سے تضادات جنم لیتے اورہمیں مضطرب کرتے ہیں۔اس کے نتیجے میں ہم مسلمان حکمرانوں کو برُا بھلا کہتے اور کبھی عالمی سامراج کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔یوں ایک غیر حقیقی مقدمہ قائم کرتے اور اس خواب میں جیتے ہیں کہ کوئی آئے گا جو ہمیں اس غلامی سے نجات دلا دے گا۔سوال یہ ہے کہ ایران اور پاکستان کو کیا کسی سامراج نے ابھارا تھا کہ وہ ایک دوسرے پر حملہ آور ہوں؟
آج دنیا کی سیاسی تجسیم قومی ریاست کے اصول پرہے۔اسی اصول پر مسلمانوں کی قومی ریاستیں بھی وجود میں آئیں۔ ایران ایک قومی ریاست ہے اور اس کی یہ شناخت مذہب سمیت ہر شناخت پر مقدم ہے۔پاکستان اس اصول سے انحراف کے نتیجے میں وجود میں آیا لیکن اسے اپنی بقا کے لیے اسی اصول کا سہارا لینا پڑا۔پاکستانی مروجہ معنوں میں کوئی قوم نہیں۔کہا جاتا ہے کہ یہ ایک نظریے کی بنیادپروجود میں آیا اور یہ نظریہ اسلام ہے۔قیامِ پاکستان سے پہلے نظریہ قومیت کی اساس تھا۔پاکستان بننے کے بعد ہمیں یہ نیا بیانیہ تشکیل دینا پڑا کہ پاکستان میں رہنے والے‘ مذہب سے قطع نظر‘پاکستانی ہیں۔ان کی قومیت کی اساس جغرافیہ ہے۔اس کے بغیر قومی ریاست قائم نہیں ہو سکتی تھی۔آج ہر مسلمان ریاست کے لیے اپنی جغرافیائی وحدت کے مفادات مقدم ہیں۔یہی معاملہ ایران کا ہے اور یہی پاکستان کا۔یہی سارے عالمِ اسلام کا ہے۔
سوال یہ ہے کہ پھر امتِ مسلمہ کیا ہے؟امتِ مسلمہ ایک غیر سیاسی اور روحانی وحدت کا نام ہے۔یہ ایک اللہ‘ایک پیغمبر اور ایک کتاب کو ماننے والے ہیں۔ا ن کے درمیان ایک روحانی وحدت اور اخوت کا تعلق ہے۔یہ تعلق زمان و مکان سے ماورا ہے۔ نبیﷺ نے ایک امت بنائی۔آپؐ نے چونکہ ایک ریاست بھی قائم کی‘اس لیے ابتدائی عہد میں اس امت میں سیاسی وحدت بھی قائم رہی۔یہ سیاسی وحدت تیس برس بعد اس سیاسی اختلاف کا شکار بن گئی جو عرب قبائل میں موجود تھی۔بنو امیہ‘بنو عباس اور عثمانیوں کے اختلافات اس کی مکمل کہانی سنا رہے ہیں۔اختلاف کے باوجودیہ سب مسلمان تھے۔یہ سیاسی مفادات کیلئے ایک دوسرے سے برسرِ پیکار رہے‘ لیکن اسلام کے بارے میں کسی تردد یا تشکیک کا شکار نہیں ہوئے۔مسلمانوں میں فرقہ واریت کی بنیاد یہی سیاسی اختلافات تھے۔مذہبی اختلافات سے کوئی سیاسی گروہ وجود میں نہیں آیا۔اس سے مسلک بنے اور ان سے مسلمانوں کا علمی ورثہ توانا ہوا۔سیاسی فرقوں نے بعد میں اپنا مقدمہ مضبوط بنانے کیلئے مذہبی دلائل بھی تراش لیے۔
سیاست اور مذہب کا یہ فرق ہے جس کو جانے بغیر ہم موجودہ مسلمان ریاستوں کی حکمت عملی کو نہیں سمجھ سکتے۔آج پاکستان کے تعلقات افغانستان اور ایران دونوں سے ‘بھارت کی نسبت زیادہ کشیدہ ہیں۔مشرقِ وسطیٰ میں مسلمان ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہیں۔اگر ہم قومی ریاست اور امت کے فرق سے واقف ہوں تو ہمیں اس صورتِ حال کو سمجھ سکتے ہیں۔سادہ بات یہ ہے کہ پاکستان اورایران سمیت مسلمان ممالک ‘اہلِ اسلام کی قومی ریاستیں ہیں۔جدید سیاسی نظریات کے مطابق انہیں اپنے قومی مفادات عزیز ہیں۔ اسی اصول پر ان کے عسکری ادارے بنتے اور ان کی ذہنی تشکیل ہو تی ہے۔یہ ایران ہو یا طالبان ‘سب اسی طرح سوچتے ہیں۔بعض مسلمان حکمران اور سیاسی گروہ اپنے اپنے مفادات کی خاطر‘جب ضرورت پڑتی ہے تو امتِ مسلمہ کے تصور کو استعمال کرتے ہیں۔جب قومی مفادات ان کی راہ میں حائل ہوتے ہیں تو پھر یہ تصور پس منظر میں چلا جا تا ہے۔اگر ہم اس بات کو سمجھ جائیں تو ہمیں ایران کے اقدامات پرحیرت ہواور نہ پاکستان کے جواب پر۔اس کے بعد جو گفتگو ہوگی وہ عقلی اور سفارتی سطح پر ہوگی۔
سیاسی بنیادوں پر وجود میں آ نے والے فرقے چونکہ سیاسی بنیاد رکھتے ہیں‘ اس لیے ان سے وابستہ لوگوں کی وفاداریاں بھی فرقہ وارانہ اور قومی شناخت میں منقسم ہو جا تی ہیں۔فرقہ وارانہ وابستگی کچھ اور تقاضا کرتی ہے اور قومی وابستگی کچھ اور۔اگر وہ امت اور قومی ریاست کے فرق کو سمجھنے کی کوشش کریں تو اس کشمکش سے نکل سکتے ہیں۔ایران میں غیر معمولی اکثریت ایک فرقے سے تعلق رکھتی ہے‘ ان کیلئے قومی مفادات اور فرقہ وارانہ مفادات میں کوئی تضاد نہیں ہو تا۔پاکستان میں چونکہ فرقہ وارانہ تنوع ہے‘ اس لیے یہاں لوگوں کو اس توازن کو قائم رکھنے میں مشکل پیش آتی ہے۔
ایک مسلمان کے لیے قومی ریاست اگر کوئی مسئلہ پیدا کرتی ہے تو وہ اخلاقی ہے۔بعض اوقات وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی ریاست کسی معاملے میں اخلاقی اعتبار سے غلط ہے تو وہ اسے غلط نہیں کہہ سکتا۔اگر وہ ایسا کرے توقومی ریاست کی صورت میں وجود میں آنے والی سیاسی وحدت ‘اسے غدار قرار دیتی ہے ۔بھارت کے مسلمانوں کی اکثریت اہلِ کشمیر کے ساتھ بھارتی ریاست کے رویے کو درست نہیں سمجھتی۔وہ اگر اس کا اظہار کرے تو ریاست کے ساتھ اس کا تعلق‘مشکوک بنا دیا جا تا ہے۔اسی طرح پاکستان کے مسلمان اس غیر مسلم ریاست کے مسلمان شہریوں کے لیے آواز نہیں اٹھا سکتے جس کے ساتھ پاکستان کے دوستانہ تعلقات ہیں۔ہماری مذہبی جماعتیں اور ریاست اسے دوسرے ملک کا 'داخلی معاملہ‘ قرار دے کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔
جدید جمہوری نظام اگر چہ اپنے شہریوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی ریاست کو غلط کہہ سکتے ہیں اورمغرب میں اس کے مظاہر بھی سامنے آتے ہیں‘تاہم انسانیت کو ابھی اس سمت میں طویل سفر طے کرنا ہے۔ ہمارا مسئلہ تو دوسرا ہے۔ہمیں تو ابھی امتِ مسلمہ اور قومی ریاست کا فرق سمجھنا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved