معاشرے بہت تیزی سے پیچیدگیوں کو گلے لگاتے جا رہے ہیں۔ انسانوں کا معاملہ دیگر مخلوق سے بہت مختلف ہے۔ ہر مخلوق کو اللہ نے ایک خاص ذہنی ڈھانچے کے ساتھ خلق کیا ہے۔ حیوانات کی دنیا کا جائزہ لیجیے تو کچھ ہی دیر میں اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کیلئے سب کچھ طے کیا ہوا ہے۔ ان کے معمولات محدود اور متعین ہوتے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں ان کا عمل اور ردِ عمل بھی فطری نوعیت کا ہوتا ہے۔ حیوانات کے معمولات کا دائرہ چونکہ محدود ہوتا ہے اس لیے ان کیلئے زیادہ اُلجھنیں بھی نہیں ہوتیں اور وہ زیادہ تھکن بھی محسوس نہیں کرتے۔ انسان کا حال یہ ہے کہ ایک جیسے دو معاملات میں اس کا ردِعمل بالکل مختلف ہوتا ہے۔ انسان کا کوئی بھی ردِعمل پہلے سے طے شدہ نہیں ہوتا اس لیے اس کے بارے میں پورے تیقین اور قطعیت سے پیش گوئی بھی نہیں کی جاسکتی۔ بات اتنی سی ہے کہ دیگر مخلوق محسوسات سے عاری ہے۔ انسان کو اللہ نے محسوس کرنے کی صفت عطا فرمائی ہے۔ یہ صفت نعمت ہے مگر ہم اپنی طرزِ فکر و عمل سے اسے عذاب کی شکل بھی دے بیٹھتے ہیں۔ ہر دور ایسے معاملات سے عبارت رہا ہے‘ جو سب کے سب موافق نہیں ہوتے۔ محسوسات متعین ہیں نہ خیالات۔ ایسے میں ردِعمل کیونکر متعین ہوسکتا ہے؟ کسی بھی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ تمام معاملات میں یکساں طرزِ فکر و عمل کا حامل ہو۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا مگر ہاں‘ محسوسات کو سمجھ کر معقول طرزِ فکر و عمل اختیار کرنے کی تھوڑی بہت کوشش کی جاسکتی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت کا حامل ہونے پر بھی انسان اس طرف کم ہی آتا ہے۔
ماحول کا صرف ایک کام ہے‘ انسان کو راہ سے ہٹانا۔ یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ ماحول میں ایسا بہت کچھ ہو رہا ہوتا ہے جو ہمارے کام کا بھی نہیں ہوتا اور ہم سے کسی طرح کا کوئی خاص تعلق بھی نہیں رکھتا۔ پھر بھی ہم بہت سے غیر متعلق معاملات کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کیلئے تیار اور راضی رہتے ہیں۔ ماحول سے بے ربط نوعیت کے تعلق کے باعث ہمیں قدم قدم پر اُلجھنوں کا سامنا رہتا ہے۔ یہ اُلجھنیں اپنے آپ میں زیادہ پیچیدہ نہیں ہوتیں مگر ہم اپنی طرزِ فکر و عمل سے انہیں زیادہ خطرناک شکل دیتے ہیں۔ کوئی بھی مسئلہ جب ہماری توجہ نہیں پاتا تو پیچیدہ تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ ہم اپنے معاملات کی خرابی کیلئے دوسروں کو ذمہ دار قرار دیتے پھرتے ہیں مگر اتنا سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ وہ تو خود اپنے معاملات میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے معاملات کی پیچیدگی بہت حد تک ہماری اپنی کوتاہیوں اور تغافل کا نتیجہ ہے۔ والدین کی ایک بڑی کوتاہی یہ ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے دوران اُن کی اخلاقی اور حِسّی تربیت کا خاص اہتمام نہیں کرتے۔ ایک طرف تو انہیں بڑوں سے اپنے معاملات درست رکھنے کا طریقہ سکھانا چاہیے اور دوسری طرف انہیں یہ بھی بتانا چاہیے کہ کسی بھی معاملے میں غیر معمولی حِسّیت محض خرابیاں پیدا کرتی ہے۔ معاملات کی شدت کو محسوس کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اپنے پورے وجود کو ان کے حوالے کردیا جائے۔
اب یہی دیکھیے کہ بچوں کی معقول تربیت نہ کیے جانے کے نتیجے میں وہ عملی زندگی تقاضوں کو نبھانے کے معاملے میں بُودے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ بُودا پن مختلف معاملات میں اور مختلف سطحوں پر ہوتا ہے۔ آپ نے امتحان کی تیاری کے دوران بہت سے بچوں اور نوجوانوں کو شدید بدحواسی کا شکار دیکھا ہوگا۔ ایسا اس لیے ہے کہ ان کے ذہنوں میں صرف یہ نکتۂ جاں فزا ٹھونک دیا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ مارکس لانا ہی ذہانت کی نشانی اور کامیابی کی ضمانت ہے۔ عملی زندگی میں اس کی اہمیت ہو نہ ہو‘ دوسروں کو دکھانے کی حد تک تو ہے ہی۔ والدین صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان کے بچے کے اچھے مارکس آئے ہیں۔ کیا اچھے مارکس لانا ذہانت کی نشانی اور ثبوت ہے؟ اس سوال پر چاہے جتنی بھی دیر بحث کیجیے‘ نتیجہ یہی برآمد ہونا ہے کہ امتحانی نتیجہ کسی بھی حال میں ذہانت کا ثبوت ہے نہ کامیابی کی ضمانت۔ زیادہ مارکس لانے سے کوئی بھی زیادہ ذہین نہیں ٹھہرتا۔ تو پھر کیا سبب ہے کہ والدین اپنی روش ترک نہیں کرتے اور بچوں کو اس حوالے سے اُلجھن میں مبتلا رکھنے سے باز نہیں آتے؟ بات اتنی سی ہے کہ والدین یہ سب کچھ دیکھا دیکھی کر رہے ہیں۔ انہیں یہ بتانے کا شوق ہوتا ہے کہ ان کے بچوں کے اچھے مارکس آئے ہیں۔ تمام بچوں میں یاد رکھنے اور سیکھنے کی صلاحیت یکساں نہیں ہوتی اور رجحان بھی برابری کا نہیں ہوتا۔ ایسے میں سب کے سب بچے اچھے مارکس کیونکر لاسکتے ہیں؟ یہ نکتہ والدین کی سمجھ میں آ جائے تو بچوں کے سروں سے اچھا خاصا بوجھ اُتر جائے۔ افسوس کہ ایسا نہیں ہو رہا اور ابھی دور تک‘ دیر تک اس کے آثار بھی نہیں۔
کیا زندگی جیسی نعمت کو ہم یوں بے ذہنی اور لاپروائی کی نذر کرسکتے ہیں؟ کیا ہمارا وجود شدید بے عقلی کی چوکھٹ پر قربان کردینے کیلئے ہے؟ یقینا نہیں۔ زندگی کو محض بسر نہیں کرنا‘ اس کا حق بھی ادا کرنا ہے۔ زندگی کا حق ادا کرنے کی بہت سی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک اچھی صورت یہ ہے کہ ہم پورے ہوش میں رہتے ہوئے یعنی بیدار مغزی کے ساتھ معاملات کو سلجھانا سیکھیں۔ ہمیں سب کچھ محض دیکھا دیکھی نہیں کرنا۔ اپنے ذہن کو بروئے کار لانا لازم ہے تاکہ زندگی کا حق ادا کرنے کی توفیق نصیب ہو۔ ہمیں بہت کچھ سیکھنا ہے۔ ہم بہت کچھ سیکھتے بھی ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ سیکھنے کے معاملات میں ترجیحات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ فی زمانہ انتخاب انتہائی پیچیدہ اور ناگزیر مرحلہ ہے۔ یہ مرحلہ دن بدن پیچیدہ تر بھی ہوتا جارہا ہے۔ انتخاب کی نوعیت ہی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کوئی اپنے لیے‘ اپنی زندگی کیلئے کس حد تک سنجیدہ اور باشعور ہے۔ تعلیم و تربیت کے مرحلے میں بچوں کو بہتر زندگی کیلئے تیار کرنے کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ تعلیم و تربیت کا بنیادی مقصد اس کے سوا کیا ہے کہ بچے جب بڑے ہوں تو اپنے لیے معقول ترین راہ کے تعین میں دشواری محسوس نہ کریں‘ ان کے ذہن زیادہ اُلجھنوں میں اُلجھ کر‘ پھنس کر نہ رہ جائیں۔ زندگی کے بارے میں سوچتے رہنا زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ اور ہمیں صرف اپنے لیے نہیں سوچنا‘ آنے والوں کیلئے بھی سوچنا ہے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت میں ان کی زندگی کے اخلاقی اور حِسّی پہلو کا خیال رکھنا بھی ناگزیر ہے۔
کیا آپ نے یہ خبر نہیں سنی کہ دنیا بھر کے پچاس سے زائد بڑے کاروباری اداروں نے‘ جن میں ہائی ٹیک جائنٹ بھی شامل ہیں‘ اپنے ہاں ملازمت کے حصول کے خواہش مند افراد کیلئے متعلقہ فارم سے تعلیم کا خانہ نکال دیا ہے۔ گوگل‘ یاہو‘ ایپل‘ مائیکروسوفٹ اور دوسرے بہت سے اداروں کو اپنے ہاں ملازمت کے خواہش مند افراد میں صرف ایک چیز دیکھنے کا شوق ہے‘ بھرپور مہارت اور کام کرنے کی لگن۔ ان تمام بڑے اداروں کو اس بات سے اب کچھ بھی غرض نہیں کہ آپ نے کہاں‘ کس ادارے میں تعلیم پائی ہے اور آپ کس ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی بھی ادارے میں پڑھنے سے ذہن کو ایک خاص حد تک ہی جِلا بخشی جاسکتی ہے۔ باقی سارے کام تو انسان کو خود ہی کرنا پڑتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ یہ ادارے اب ڈگری وِگری نہیں دیکھتے بلکہ ملازمت کے خواہش مند افراد سے کہتے ہیں کہ اگر ہمارے ہاں کام کرنا ہے تو آؤ‘ اپنے آپ کو ثابت کرو۔ یہ ہے زندگی کا سب سے بڑا عملی پہلو۔ آپ نے ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہوں گے جو بڑے اداروں سے پڑھ کر نکلے مگر سوچنے کی صلاحیت اُن میں برائے نام بھی نہیں کیونکہ وہ محض رٹّو طوطے تھے ‘ اور ہیں!
اگر آپ اپنے بچوں کو بہتر مستقبل کیلئے تیار کرنا چاہتے ہیں تو اُن میں عملی زندگی کے تقاضے نبھانے کی صلاحیت و سکت پیدا کرنے پر متوجہ رہیے۔ ماحول سے سیکھنا لازم ہے یعنی بچوں کو چھوٹی عمر سے عملی پہلو کو اُن کی زندگی کا حصہ بنادیا جائے۔ رسمی تعلیم اب کچھ خاص نہیں دے پاتی۔ سیکھنا بہت کچھ ہے مگر رسمی تعلیم سے ہٹ کر عملی زندگی کو برتنے کی تربیت زیادہ اہم ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved