پاکستان اور ایران کو جغرافیے ہی نے نہیں تاریخ نے بھی ایک دوسرے سے باندھ رکھا ہے۔ دونوں کے درمیان صدیوں کے ثقافتی‘ لسانی‘سماجی اور مذہبی روابط ہیں۔ برصغیر کے مسلمان حکمرانوں کی زبان فارسی رہی‘اور انگریزی سے پہلے فارسی ہی نے سرکاری زبان کے طور پر اپنا سکہّ چلائے رکھا۔ یہاں تک کہ پنجاب کے سکھ حکمرانوں کی زبان بھی فارسی تھی‘اور کاروبارِ دربار اسی زبان میں چلایا جاتا تھا۔دونوں ممالک اسلام کے بندھن میں اس طرح بندھے ہوئے ہیں کہ اس وقت دنیا کے نقشے پر اسلامی جمہوریہ کہلانے والی صرف دو مملکتیں اپنا وجود رکھتی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اسلامی جمہوریہ ایران۔دونوں کے دستور میں اللہ کی حاکمیت کا اعلان ہے‘اور اسے عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے بروئے کار لانے کا عہد۔عالم ِ اسلام کے دوسرے ممالک اسلام اور جمہور کے ساتھ مختلف انداز میں تعلق کا اظہار کرتے ہیں‘ لیکن اسلام اور جمہور کے ساتھ ان دو ممالک کے اجتماعی نظم کا جوہری رشتہ ہے۔ پاکستان قائم ہوا تو ایران اسے تسلیم کرنے والا پہلا ملک تھا‘ پاکستان کے دورے پر آنے والے پہلے غیر ملکی سربراہِ مملکت شاہِ ایران تھے۔ دونوں ملک ایک عرصے تک امریکہ کے اتحادی رہے‘ معاہدۂ بغداد نے (جو بعد میں سینٹو کہلایا) ان کی خارجہ پالیسی کو بھی ایک سانچے میں ڈھال دیا۔
بھارت کے ساتھ دو جنگوں(1965ء‘71ء) کے دوران ایران پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا‘ اور اس کی طاقت بن گیا۔ بادشاہت کے خاتمے کے بعد ایران میں بہت کچھ بدلا لیکن پاکستان کے ساتھ تعلقات (بڑی حد تک) نہیں بدلے۔ عراق کے ساتھ جنگ کے دوران پاکستان نے ایران کو ہر ممکن سہولت فراہم کی۔سعودی عرب سے ایران کے تعلقات میں الجھائو بڑھا تو بھی پاکستان اس میں نہیں اُلجھا۔سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کی وارداتیں ہوتی رہیں‘ ایک دوسرے ملک میں کارروائیاں کرنے والے ایک دوسرے ملک میں چھپے رہے لیکن دوستی کا بھرم قائم رہا۔ایران کا اسلامی انقلاب فقہ جعفریہ سے نمو پاتا ہے تو پاکستان کی اکثریت اہل ِ سنت سے تعلق رکھتی ہے‘لیکن مسلکی اختلافات حد سے آگے نہیں بڑھے۔ تحریک پاکستان میں سنی اور شیعہ مسلمان شانہ بشانہ رہے‘ اور قیامِ پاکستان کے بعد بھی اجتماعی زندگی میں کبھی فرقہ وارانہ آہنگ کو غالب آنے کا موقع نہیں دیا گیا۔
پاکستان کے علمائے دین کے ایک بڑے حصے کے ایرانی علماء اور حکومت سے اعتماد کے رشتے قائم ہیں۔ایرانی مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی طلبہ کی تعداد سینکڑوں کیا ہزاروں میں ہو گی‘ زیارتوں کے لیے بھی ہزاروں پاکستانی ہر سال ایران جاتے اور وہاں سے محبت اور اخوت کا پیغام لے کر آتے ہیں۔ انقلابی ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو ابھی تک سنبھالا نہیں جا سکا۔ایران مسلسل امریکہ کے نشانے پر ہے‘ اور ایران بھی امریکی چنگل سے آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیموں کا سرپرست و مدد گار ہے۔پاکستان نے ایران کی سفارتی تنہائی میں اُس کی رفاقت کا دم بھرا ہے‘ اور اس کا ہم جلیس رہا ہے۔پاکستان اور ایران کی خارجہ پالیسیوں میں جو بھی فاصلہ ہو‘ پاکستان نے اسے دونوں ممالک کے درمیان دوری میں تبدیل نہیں ہونے دیا۔ چین اور ایران اب بہت قریب آ چکے ہیں‘سعودی عرب سے بھی اختلافات سمٹ گئے ہیں‘اس پیش رفت نے پاکستان کو سکون کا سانس لینے میں مدد کی ہے۔حماس کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں پر بھی دونوں ملک سراپا احتجاج ہیں‘اور غزہ میں جاری نسل کشی کی اسرائیلی مہم کے خلاف یک زبان ہیں۔ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں خرابی کا کوئی جواز ہے نہ بنیاد۔ایران کے ساتھ پاکستان کا کوئی (علاقائی) تنازع نہیں ہے۔ دونوں ممالک کی سرحدیں واضح ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے جغرافیے کو تسلیم کرتے اور اس کا احترام کرتے ہیں۔سرحدی علاقوں میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کے حوالے سے ایک دوسرے سے جو بھی شکایات رہی ہوں‘نہ ہی کوئی پاکستانی اسے دشمن سمجھتا ہے‘ اور نہ ہی کوئی ذی ہوش ایرانی پاکستان کو اپنا دشمن قرار دے سکتا ہے۔
چند روز پہلے جب یہ خبر آئی کہ ایران نے پاکستان کی سرحدوں کے اندر موجود ایک دہشت گرد تنظیم کے مبینہ ٹھکانے پر میزائل حملے کیے ہیں تو اس پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ایرانی سرکاری خبر رساں ادارے نے اس کا اعتراف کیا‘ تو پورا پاکستان سکتے میں آ گیا۔ یہ پاکستان کی جغرافیائی حدود کی سنگین خلاف ورزی تھی۔حکومت ِ پاکستان نے اس پر فوراً احتجاج کیا‘ اپنے سفیر کو تہران سے واپس بُلا لیا‘ اور ایرانی سفیر کو جو ایران گئے ہوئے تھے‘ وہیں رکنے کے لیے کہا‘ صدمے کی کیفیت سے دوچار پاکستان نے چوبیس گھنٹے کے اندر جواب دے دیا۔ایران کے اندر ایک دہشت گرد تنظیم کے ٹھکانے کو نشانہ بنا ڈالا‘ جو پاکستان میں کارروائیاں کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ جوابی حملے نے پاکستانی عوام کو حوصلہ دیا‘ اور وہ دیوانہ وار مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ چین اور ترکی جیسے دوست ممالک آگے بڑھے‘ تو دونوں ممالک کی رائے عامہ نے بھی دبائو بڑھایا۔وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اپنا غیر ملکی دورہ مختصر کر کے واپس اسلام آباد پہنچے‘ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا‘ کابینہ سر جوڑ کر بیٹھی۔ ایران سے رابطہ ہوا‘ اور آگ پر پانی چھڑک دیا گیا۔ دونوں ممالک نے کشیدگی کم کرنے‘ اور سفارتی تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ایک دوسرے کا ہاتھ از سرِ نو تھاما‘اور مل جل کر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کا عزم باندھ لیا۔ایرانی بھائیوں کو یاد آ گیا کہ پاکستان عراق یا شام نہیں ہے کہ حملہ کرنے والوں کا ہاتھ پکڑا نہ جا سکے‘ اور اہل ِ پاکستان نے اس کا ادراک کر لیا کہ ایران‘ بھارت نہیں ہے کہ نیت پر شک کیا جائے‘ یا تنائو کو بڑھنے دیا جائے۔فیصلہ کیا گیاہے کہ مشترکہ دشمن کے خلاف کارروائی مشترکہ ہو گی‘ایک دوسرے کو اعتماد میں لے کر‘ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر‘ایک دوسرے کی طاقت بن کر ہی دونوں کو امن اور سکون مل سکے گا۔ دونوں کو یہ فیصلہ‘ یہ ارادہ مبارک۔دونوں زندہ باد
احباب ہی نہیں...
برادرِ عزیز اسلم کمال کے بعد وحید رضا بھٹی بھی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اول الذکر بین الاقوامی شہرت کے مصور تھے‘تو ثانی الذکر پاکستانی ادبی حلقوں میں پہچانے جاتے تھے۔گورنمنٹ کالج لاہور کے مجلہ راوی کے مدیر رہے‘ مقابلے کے امتحان کے ذریعے سول سروس کا حصہ بنے‘دیانتداری اور فرض شناسی کے جھنڈے گاڑ کر ریٹائر ہوئے۔بڑے پائے کے قلم کار اور مترجم تھے۔ جناب اسلم کمال نے علامہ اقبالؒ کے کلام کو مصور کیا‘ قرآنی آیات کو اپنے انداز سے لکھا۔ خط ِ کمال کے موجد مانے گئے۔نوجوانوں کو علامہ اقبال ؒ کا درس دیتے رہے‘دونوں مرحومین سے دِلی تعلق برسوں کو محیط ہے‘ دونوں کے رخصت ہونے سے پاکستان ہی اپنے جانثاروں سے محروم نہیں ہوا‘ دِل کی دنیا کی ویرانی بھی بڑھ گئی۔ تفصیلی تذکرہ پھر کبھی ہو گا‘ اِس وقت دُعائے مغفرت اور صبر ؎
احباب ہی نہیں تو کیا زندگی حفیظ
دنیا چلی گئی میری دنیا لئے ہوئے
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved