تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     21-01-2024

ٹارزن‘عمروعیار اور سامری جادوگر

بچپن اور لڑکپن میں جوبچوں کی کہانیاں پڑھیں ان میں باقی کرداروں کے علاوہ جو سب سے اہم کردار آج تک دلوں میں بستے ہیں ان میں ٹارزن‘ سندباد جہازی‘ عمرو عیار اورسامری جادوگر اہم ہیں۔ ان میں کچھ وِلن تھے تو کچھ ہیروز ۔ عمروعیار کی زنبیل کے کرشمے کمال کے تھے جو کسی وقت بھی کوئی چیز اپنی زنبیل سے نکال کر سامنے لے آتا۔ ان کرداروں پر کئی کہانیاں لکھی گئیں اور مختلف زاویوں سے ان کرداروں کو پیش کیا گیا۔ کبھی یہ کردار ایسی مشکل میں پڑ جاتے جہاں سے بچوں کو لگتا تھا کہ اب یا تو وہ زندہ نہیں بچیں گے یا ان کی واپسی اب نہیں ہوگی۔ پھر وہی رائٹر اس کردار کی اگلی قسط یا سیریز میں ان کے نام کے ساتھ واپسی ڈال دیتا تھا جو دھڑا دھڑا بکتی تھی۔ جیسے ٹارزن کی واپسی‘ عمرو عیار کی واپسی‘ سامری جادوگر کی واپسی یا سند باد جہازی کی واپسی۔ بچے وہ سیریز فوراً ًلیتے کہ ہمارا ہیرو یا وِلن واپس آگیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل مسقط گیا تھا تو وہاں ہمارے دوست امیر حمزہ ( جن کا اپنا نام بھی فیری ٹیل جیسا ہے) اور دیگر دوستوں نے بتایا کہ سامری جادوگر کی قبر یہیں مسقط سے کچھ فاصلے پر ہے۔ اُس وقت ٹائم کم تھا لہٰذا نہ جا سکے۔ کہنے لگے ‘اگلی دفعہ وقت ہوا تو لے چلیں گے۔ زاہد شکور اور ان کے دوست بٹ صاحب نے تو پورا نقشہ کھینچا کہ سامری جادوگر کی قبر کے اردگرد کیسا پرسرار ماحول ہے کہ بندہ اکیلا جائے تو ڈر جائے۔ وہ بتانے لگے کہ سامری جادوگر تو ایسا کریکٹر تھا کہ وہ خوبصورت لڑکیوں کے پائوں کے نشانات پر پھونک مارتا تو وہ اُس کی اسیر ہوجاتی تھیں۔ اس پر درزی ایسے زنانہ کپڑے تیار کرنے لگے کہ جب لڑکیاں یا خواتین پیدل چلتی تھیں تو وہ لمبی چادر ٹائپ پیچھے سے ان نشانات کو مٹاتی جاتی تھی جسے شاید جھالر کہتے ہیں تاکہ ان کے پائوں کے نشانات دیکھ کر سامری جادوگر ان پر جادو نہ کرسکے۔ وہ بتانے لگے کہ وہ قبر بھی اچھی خاصی بڑی ہے۔اس طرح ٹارزن کی واپسی ہمارے ہیرو کی واپسی ہوتی تھی جو ہم سب کا پسندیدہ کردار تھا۔
اُس وقت ہم ان ناموں کو فرضی نام نہیں سمجھتے تھے بلکہ ہمارے تخلیل میں یہ سب جیتے جاگتے زندہ کردار تھے۔ ان کرداروں کی شکلیں بھی ہم خود اپنے ذہن میں تشکیل دیتے تھے۔ ان کہانیوں کو پڑھتے پڑھتے ان کرداروں کا امیج ہمارے اندر خود بخود بنتا رہتا تھا۔ ٹارزن کا تصور آتے ہی ایک ننگے انسان کا تصور آتا جس نے درختوں کے پتوں سے بنا ہوا کچھا ٹائپ پہنا ہوتا تھا۔ جس پر گرمی سردی اثر نہیں کرتی تھی۔ ٹارزن ایک انسان کا بچہ تھا جسے جنگل میں جانوروں نے پالا پوسا تھا۔ لیجنڈ کے مطابق کبھی کوئی انسانی جوڑا جنگل میں اپنا بچہ بھول گیا تھا یا انہیں کسی جانور نے کھا لیا تھا اور یہ بچہ بچ گیا تھا جسے حساس دل کے مالک جانوروں نے اپنا بچہ سمجھ کر پالا پوسا اور وہ اب جانوروں کے درمیان رہتا تھا۔ کبھی شیر پر سواری کرتا تو کبھی ہاتھی پر‘ یا پھر بندر کی طرح ایک سے دوسرے درخت پر چھلانگیں مارتا کہیں سے کہیں پہنچ جاتا۔ اس نے جنگل کے سب جانوروں کی زبانیں سیکھ لی تھیں اور اب وہ ان میں سے ایک تھا۔ وہ بھی ان کی زبان بولتا اور ان کے درمیان رہتا تھا۔ وہ ہر مظلوم کا ساتھی تھا اور اس کے لیے کھڑا ہونے کو تیار۔ ٹارزن ہم بچوں کو ہمیشہ ایک طاقت اور تحفظ کا احساس دلاتا تھا جو ہمیں اپنے گھر میں باپ یا بڑے بھائی کی شکل میں محسوس ہوتا تھا۔
عمرو عیار ایک ایسا کردار تھا جسے آپ لومڑ سے تشبیہ دے سکتے تھے۔ ایک چالا ک انسان جو انسانی ذہانت کو استعمال کر کے بڑے بڑے جادوگروں کو Dodge کرا دیتا تھا۔ برسوں بعد جب انگریزی کا محاورہ survival of the fittestپڑھا تو وہی عمرو عیار ذہن میں آیا کہ اس دنیا میں وہی زندہ رہتا اورآگے بڑھتا ہے جو ذہنی طور پر فٹ اور چالاک ہو ورنہ کمزور کو دنیا نہیں رہنے دیتی۔ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے۔ اب یہ چھوٹی مچھلی پر ہے کہ وہ دریا میں رہ کر خود کو کیسے بچاتی ہے۔ جنگل کا بھی یہی قانون ہے کہ بڑا جانور چھوٹے کو خوراک بناتا ہے جسے ہم حیوانی جبلت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس لیے انسانوں نے قانون بنا لیے کہ چھوٹی مچھلی کو بھی زندہ رہنے کا حق ہے اور اگر بڑی مچھلی کھائی گی تو اسے سزا ملے گی۔ اگرچہ بڑی مچھلیاں اب مگرمچھ بن چکی ہیں اور وہ چھوٹی بڑی مچھلیاں سب کھا جاتی ہیں‘ لیکن جنگل میں اب بھی وہی قانون رائج ہے کہ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس۔ تاہم عمروعیار ایک ایسے چالاک انسانی ذہن کا نمائندہ تھا جو ہر مشکل صورتحال سے نکلنے کا گُر جانتا تھا۔ سامری جادوگر سے اس کی کئی لڑائیاں عرصے تک چلتی رہیں اور ہم پڑھتے رہے۔ سامری جادوگر ایک ولن تھا جو خوبصورت شہزادیوں اور لڑکیوں کا عاشق تھا اور ان پر جادو منتر کر کے انہیں بہلا پھسلا کر ساتھ لے جاتا۔ اس کے جادو کا مقابلہ بھی ریاستوں کے شہزادوں کو کرنا پڑتا تھا یا کسی ست ماڑ محل پر نہانے کے بعد اپنے گیلے بال سکھاتی شہزادیوں کو کوئی جن اوپر سے گزرتے ہوئے عاشق ہو کر اٹھا کر کوہ قاف لے جاتا ۔ اُس کا باپ بیٹی کے غم میں رو رو کر اندھا ہوجاتا تو پھر اُس کا منگیتر شہزادہ گھوڑے پر سوار ہو کر سات جنگل اور سات دریا عبور کر کے کوہ قاف کے پہاڑوں میں جن کا مقابلہ کر کے غار میں قید شہزادی کو واپس لاتا تھا۔ اس کٹھن سفر میں اُس نے مڑ کر پیچھے نہیں دیکھنا ہوتا تھا چاہے پیچھے سے چڑیلیں یا بلائیں کتنی ہی خوفناک آوازیں دیں‘ورنہ پتھر کا ہوجاتا ۔ مجھے یاد ہے کہ میں پڑھتے ہوئے دعائیں کررہا ہوتا تھا کہ گھوڑے پر سوار شہزادہ کہیں پیچھے مڑ کر ہی نہ دیکھ لے اور پتھر کا ہوگیا تو پھر کوہ قاف کے جن کی قید میں شہزادی کو کون آزاد کرا کر باپ کے پاس واپس لائے گا۔
اس سنسنی خیز کہانی کے دوران ہمارے چہرے کے تاثرات بدلتے رہتے تھے۔ جوں جوں صورتحال بدلتی‘ بے چینی بڑھتی جاتی اور یہی اس ساری کہانی کا مزہ تھا۔سند باد جہازی کے سمندری سفر یا امیر حمزہ کے ایڈونچرز اپنی جگہ دلچسپی کا سامان پیدا کرتے تھے۔ سند باد جہازی کے سمندری سفر میں کئی دفعہ ان کا جہاز سمندری طوفان یا کسی سمندری جہاز سے تباہ ہوتا تو وہ کسی سنسان جزیرے پر جا نکلتے اور پھر وہاں جو انسانی سروائیول کی جنگیں لڑی جاتی تھیں وہ اپنی جگہ ہمارے بدن میں عجیب سی سنسنی پیدا کر دیتی تھیں اور پھر کئی ماہ بعد کوئی کشتی وہاں سے گزرتی تو وہاں آگ کا الائو جلا کر انہیں چیخ چیخ کر اپنی طرف متوجہ کر کے ریسکیو ہوتے اور پھر مشکلوں سے وہ اپنے دیس زندہ سلامت پہنچتے اور رشتہ دار یار دوست انہیں زندہ دیکھ کر خوش ہوتے۔ ہم سب کا خیال ہوتا کہ مشکل سے جان بچی تھی اور اب کی دفعہ تو کسی صورت سند باد جہازی سمندری سفر پر نہیں نکلے گا۔ چند ماہ بعد پتہ چلتا کہ سند باد تو نئی کشتی اور چند ایڈونچر پسند دوست اکٹھے کر کے پھر سے سمندر کو نکل گیا ہے۔
ایسے انسانی کردار انسانی تاریخ میں ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ آج بھی آپ اپنے اردگرد دیکھیں گے تو آپ کو ٹارزن بھی ملیں گے جن سے ہمیں توقع ہے کہ وہ ہمیں مشکلات سے بچائیں گے۔ ایسے کردار جنہیں کبھی کوئی شکست نہیں ہوتی۔ یا پھر عمرو عیار ‘ امیر حمزہ اور سامری جادوگر بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ یہ کردار کبھی مرتے ہیں‘ نہ بوڑھے ہوتے ہیں۔ یہ سب کردار ہمارے اندر رہتے ہیں۔ ہم ہی ٹارزن ہیں‘ ہم ہی عمروعیار‘ امیر حمزہ ‘ سامری جادوگر یا سند باد جہازی ہیں۔انگریز شاعر جان ملٹن نے اپنی طویل نظمParadise Lostمیں لکھا تھا۔ یہ انسانی ذہن ہی کا کمال ہے جو جنت کو دوزخ اور دوزخ کو جنت بنا سکتا ہے۔ اب آپ خود کو ٹارزن سمجھیں‘ سامری جادوگر‘ عمروعیار‘ امیر حمزہ یا سند باد جہازی۔ یہ سب کردار آپ کے اندر موجود ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved