ہمارے دوست شاہد علی خان شاعر تو نہیں ‘باقاعدہ ادیب بھی نہیں لیکن غالب کے بتائے ہوئے نسخے پر شاعروں اور ادیبوں سے زیادہ عمل پیرا ہیں۔ خود غالب بھی اپنے مصرعے ''نہ ستائش کی تمنا‘ نہ صلے کی پروا‘‘ پر اس طرح استقامت کیساتھ کہاں چل سکے جیسے شاہد علی خان نے اسے رہگزر بنالیا۔غالب کو تو ستائش اور صلے کی جتنی تمنا اور پروا تھی وہ ان کے خطوط‘ قصائد اور عرضیوں سے پتہ چل جاتی ہے۔اور کسی شاعر ‘ ادیب کیلئے ان سے بے پروا رہنا ناممکن حد تک مشکل ہے ۔ اور شاعر ادیب ہی کیا ‘ہر کوئی اپنے کام اپنی محنت کا صلہ چاہتا ہے۔یہ اس کا حق بھی ہے۔لیکن یہاں حقدار کو حق کتنے لوگ دیتے ہیں۔
'الحمرا‘ کا موجودہ ضخیم سالنامہ میرے ہاتھوں میں ہے۔ ہر ماہ یہ رسالہ ڈاک سے میری میز پر پہنچتا ہے اور مجھے حیرت اور مسرت کی دو رنگہ چادر میں لپیٹ لیتا ہے۔یہ دو رنگہ چادر پچیس سال سے مسلسل اس رسالے میں لپٹی میرے دفتر پہنچتی ہے ۔ جنوری 2001ء میں جب اس رسالے کا پہلا شمار ہ شائع ہوا تھا تو اس وقت بھی یہی حیرت اور مسرت ہوئی تھی۔ دل نے کہا تھا کہ ارے! یہ رسالہ تو شاہد صاحب نے نکال لیا۔ لیکن ایک بینکر کا ادب سے کیا واسطہ ۔ جلد ہی ذوق و شوق سے دو چار شمارے چھاپنے کے بعد موصوف کا شوق ماند پڑنے لگے گا۔ جب شاعروں ‘ ادیبوں اور حرف کاروں سے براہِ راست واسطہ پڑے گا تو حضرت کے ذوق کو بھی لگ پتہ جائے گا۔لیکن بصد خوشی اعتراف ہے کہ میں شاہد علی خان کو جانتا تھا‘ نہ ان کی طبیعت کو۔ اس اعتراف میں ندامت ہے ہی نہیں ‘ صرف مسر ت ہے ۔ آپ بتائیے اپنا قیاس سراسر غلط ثابت ہونے پر کون خوش ہوسکتا ہے ۔ لیکن میں ہر ماہ اس پر خوش ہوتا ہوں ۔
میں شاہد علی خان صاحب کی طبیعت مزاج اور استقامت کو تو نہیں جانتا تھا لیکن ان کے بڑے علمی ادبی خانوادے کو نہ صرف جانتا تھا بلکہ اس کے خوشہ چینوں میں میرا بھی شمار ہے ۔ مولانا ظفر علی خان ‘ مولانا حامد علی خان ‘ پروفیسر حمید احمد خان۔کیسے کیسے نام ہیں اس خاندان میں۔ پورا گھر ہی جگمگ کرتا ہے۔کسی ایک نام پر بھی بات کی جائے اوراس کے کام کا ذکر کیا جائے تو قلم برسوں نہ رک سکے۔ شاہد علی خان ادبی جریدے 'الحمرا‘کے مدیر ہیں ۔ پیشے کے اعتبار سے بینکرتھے ‘ایک زمانے میں میرے دفتر کے سامنے بینک کی شاخ کے منیجر بھی رہے۔ایک عمر مالیات کی بے گیاہ وادیوں میں گزاری۔ ریٹائر ہوئے تو ایک اور صحرا کا انتخاب کرلیا۔ وہ دشتِ بے آب تھا تو یہ دشتِ پرُ خار۔ اور اس نئے دشت کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ریٹائر منٹ کی اجازت بھی نہیں دیتا۔ انہوں نے کم و بیش پچیس سال پہلے اپنے والد جناب حامد علی خان کے یادگار ادبی رسالے 'الحمرا‘کا ارادہ کیا۔ جناب حامد علی خان کی سالگرہ کے دن اس کا اجرا ہوا۔اور اب چوبیس سال بعد بھی ماشاء اللہ اسی توانائی اور آب و تاب کے ساتھ نکل رہا ہے۔جس شمارے میں میری بھی شمولیت ہوتی ہے اس کی الگ سے خوشی ہوتی تھی۔اور جس میں اپنی بے ڈھنگی مصروفیت یا بے ترتیب مزاج کی وجہ سے شریک نہیں ہوپاتا‘رسالہ دیکھتے ہی ایک کانٹا سا چبھنے لگتا تھا ۔الحمد للہ اس سالنامے میں یہ خلش نہیں تھی۔شرکت نہیں ہوتی تھی توخیال آتا تھا کہ کتنے ادبی رسالے رہ گئے ہیں بھائی !اور ان میں بھی کتنے جو چوبیس سال سے ہر ماہ باقاعدگی سے نکلتے ہوں ‘ پہنچتے ہوں اور ان میں ایسے وقیع لکھنے والے شامل ہوتے ہوں ۔ موجودہ سالنامے ہی کو دیکھ لیجے ۔کیسے مستند حرف کار شامل ہیں ۔ ظفر اقبال ‘ خورشید رضوی ‘ اسلم انصاری ‘ نذیر قیصر‘سحر انصاری ‘ جیل یوسف‘ قیصر نجفی ‘ حسن عسکری کاظمی ‘ اعتبار ساجد‘حامد سعید اختر‘ زاہد منیر عامر‘عباس رضوی ‘ رئیس فاطمہ ‘ غلام حسین ساجد‘ نسیم سحر‘اے بی اشرف‘مختار ظفر‘ حمید شاہد‘ فتح محمد ملک‘ناصر عباس نیر‘پروفیسر حفیظ الرحمٰن خان‘ وحید الرحمن خان‘طالب انصاری‘ بہت سے ناموں میں سے چند نام ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جن پر جناب اسلم انصاری کی نظم کا یہ مصرع صادق آتا ہے:
ریاضتوں پر عبور پائے ہوئے ‘ سکھوں کو تجے ہوئے بے مثال لوگو !
حمد‘ نعت‘ مقالے‘ مضامین‘ خاکے ‘ نظمیں ‘ آپ بیتیاں‘سفرنامے‘ غزلیں‘‘ افسانے ‘مزاح نگاری تو 'الحمرا‘ کے مستقل سلسلے ہیں ہی لیکن ''تبصرے چند ‘‘کے نام سے جو مستقل سلسلہ ہے‘ اس کا خاص طو رپر انتظار رہتا ہے۔ اس میں سابقہ شمارے اور اس کی تخلیقات پر احباب کی رائے شامل ہوتی ہے ۔یہ حصہ اگر چھیڑ خانیوں‘ نوک جھوک اور گوشمالی پر مشتمل نہ ہو تو مزا ہی نہیں آتا۔اس بار شمارے کا ایک گوشۂ استاد ادب اور ہمارے عالم دوست جناب زاہد منیر عامر کے لیے مختص کیا گیا ہے اور ان کی متعدد ادبی اور تخلیقی جہات پر مضامین شامل ہیں ۔زاہد منیر عامر اپنی علمی استعداد کے حوالے سے یقینا اس پذیرائی کے مستحق ہیں ۔
ضخیم سالنامے کو پڑھنا تو یقینا وقت طلب ہے ہی ‘ لیکن صرف ورق گردانی بھی آسان نہیں ۔ جابجا رُکنا اور ٹھٹکنا پڑتا ہے ۔
پھر یوں ہوا بچھڑتے ہوئے دونوں ہنس پڑے/اڑنے لگا گلال بھی رنگ ملال میں/ قیصر طواف میں ہے ہجوم مہ و نجوم /مٹی کا اک چراغ ہے مٹی کے تھال میں (نذیر قیصر)
شمع بجھ کر بھی رہی شمع کہ اس کی پہچان
اسکے کردار میں ہے ‘ جلتی ہوئی لو میں نہیں (خورشید رضوی)
میں جس کے دل میں مکیں ہوں اسے خبر ہی نہیں
وہ بے خبر تو مجھے چار سو تلاش کرے (نسیم سحر)
اسی طرح آپ بیتیوں والے گوشے میں غلام حسین ساجد اور اعتبار ساجد کی آپ بیتیاں سلسلہ وار'الحمرا‘ میں شامل ہورہی ہیں ۔ یہ اپنے آپ کو بھی محفوظ کرنے کا کام ہے ‘ اپنے ادوار کو بھی اور ان مشاہیر اور واقعات کو بھی جو رخصت ہوچکے ۔یہ اہم کام ہے اور اکثر اوقات آپ بیتیاں اور سفرنامے دیگر ٹھوس مضامین سے زیادہ توجہ حاصل کرتے ہیں ۔ اسی طرح غزہ اور فلسطین کے بارے میں کئی تخلیقات اس شمارے میں موجود ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ اہل قلم کے دلوں پراس انسانی سانحے کا اثر کتنا ہے ۔ شیخ محمد اقبال صاحب نے احمد فراز پر تفصیلی مضمون لکھا ہے ۔ فراز کی شاعری بہت بار پڑھی ہے لیکن اچھی شاعری ہر بار نیا لطف مہیا کردیا کرتی ہے ۔
اپنی بانہوں میں سمٹ آئی تھی وہ قوس قزح
لوگ تصویر ہی کھینچا کیے انگڑائی کی
گفتہ ٔیار پر فراز کس طرح حرف گیر ہوں
میں نے بھی اس سے بارہا جھوٹ ضرورتاً ـ کہے (فراز)
مشہور مثل ہے کہ جج اپنے فیصلوں میں بولتے ہیں لیکن کیا کیجیے کہ فی زمانہ جج بہت بولتے ہیں ‘ وکیلوں سے بھی زیادہ اور ان کے فیصلوں پر چپ کی مہر لگی ہوتی ہے۔ یہ مہر فیصلوں پر دوسری مہروں سے الگ ہے ۔ یہ فیصلے جو پڑھ لے یا سمجھ لے اسے بھی چپ سی لگ جاتی ہے ۔یہ بات اس لیے یاد آئی کہ ادبی رسالے کا مدیر اپنے رسالے میں کلام کرتا ہے ۔میں نے شاہد علی خان کو بہت سی محفلوں میں دیکھا۔ وہ سکوت کی قبا اوڑھے بیٹھے رہتے ہیں ۔ وہ مجلس آرائی کی دنیا کے آدمی نہیں لیکن جو محفل وہ اپنے رسالے میں سجاتے ہیں اس میں ہر شریک بولتا ہے ۔محفل کی یہ خوش کلامی ہی دراصل شاہد علی خان کا کلام ہے ۔ شاہد صاحب ! اس کالم پر بہت داد۔اور اس استقامت پر بہت مبارک ۔ پچیس سال ۔ ربع صدی ہوتی ہے بھائی !
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved