دنیا بھر میں ترکِ وطن کا رجحان ایک بار پھر زور پکڑ رہا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ترقی یافتہ اور پسماندہ دنیا کے درمیان فرق بہت بڑھ گیا ہے اور یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں۔ جو ممالک زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہی ان کے باصلاحیت نوجوانوں میں رجائیت برائے نام ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ کمانے کی دُھن میں بیرونِ ملک جاکر کام کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ وہ جب اپنے ملک کے حالات دیکھتے ہیں تو صرف مایوسی کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ کہیں بھی کچھ بھی اچھا دکھائی نہیں دے رہا ہوتا۔ ایسے میں مایوسی کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ کورونا وائرس کی وبا کے بعد معیشتوں کی بحالی کیلئے جو وسیع البنیاد کوششیں شروع ہوئی تھیں‘ وہ اب تیزی سے زور پکڑ رہی ہیں۔ کم و بیش دو سال تک معیشتیں انتہائی نوعیت کی مشکلات کا شکار رہی تھیں۔ کئی ممالک لاک ڈاؤن کے مرحلے سے گزرے۔ جب سبھی کچھ بند تھا تو زندگی تھم گئی تھی۔ اس کے نتیجے میں معاشی اور معاشرتی دونوں سطحوں پر انتہائی درجے کی اُلجھنوں کے پیدا ہونے پر کسی کو حیرت نہیں ہوئی تھی مگر ہاں‘ ذہنی اُلجھنیں ضرور بڑھ گئی تھیں۔ ترقی یافتہ‘ ترقی پذیر اور پس ماندہ تینوں ہی طرح کے ملکوں میں لوگ عمومی سطح پر شدید ذہنی اُلجھن میں مبتلا ہونے کے باعث وہ اعتماد بہت حد تک کھوچکے تھے جو ڈھنگ سے جینے اور کچھ کر دکھانے کیلئے ناگزیر ہوا کرتا ہے۔
ترقی یافتہ دنیا اب شدت سے محسوس کر رہی ہے کہ دنیا بھر میں معیشتیں تیزی سے پنپ کر اُن کیلئے مشکلات پیدا کر رہی ہیں۔ ٹیکنالوجی کا پھیلاؤ پوری دنیا پر محیط ہے۔ ذہانت بھی اب کسی خاص خطے تک محدود نہیں رہی۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کے جو نوجوان ترقی یافتہ دنیا میں پڑھتے اور کام کرتے ہیں‘ وہ اپنے اپنے ملک میں تیز رفتار ترقی کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ ایسے میں ترقی یافتہ دنیا کی حکومتیں پالیسیاں اور حکمت ہائے عملی دونوں کو بدل رہی ہیں۔ ان ملکوں کی گھٹتی ہوئی آبادی متعلقہ حکومتوں کو مجبور کر رہی ہیں کہ کم ترقی یافتہ یا بالکل پسماندہ ملکوں سے زیادہ سے زیادہ معیاری افرادی قوت درآمد کریں۔ کمزور ممالک کے ذہین ترین نوجوانوں کو ترقی یافتہ دنیا تیزی سے دبوچ رہی ہے۔ یہ نوجوان جو کچھ کماتے ہیں وہ اپنے ملکوں کو بھیجتے ہیں۔ زرِ مبادلہ کے بڑھتے ہوئے ذخائر ان ملکوں کی خوش حالی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کو ذہین اور قابل ترین نوجوانوں کے ملک سے نکل جانے کے مسئلے (برین ڈرین) کا ایک مدت سے سامنا ہے۔ اس کے نتیجے میں متعلقہ ممالک میں معیاری افرادی قوت کی کمی بڑھتی جارہی ہے۔ یہ کمی ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔ ترکِ وطن کے ذریعے بہت کچھ کماکر وطن بھیجنا اچھی بات سہی تاہم وطن کی ضرورت کا بھی تو خیال رکھنا چاہیے۔ ایک بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ کیا ترقی یافتہ دنیا میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔ کیاں وہاں ہر طرف دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے بھی اپنے مسائل ہیں اور یہ مسائل بھی کم نہیں۔ رہائش اور خوراک سمیت اہم اشیا کی بڑھتی لاگت لوگوں کو ترقی یافتہ ممالک سے بھی منتقل ہونے پر مجبور کر رہی ہے۔آئیے صرف ایک ملک کے معاملات کا جائزہ لیتے ہیں۔ کینیڈا میں مکانات کے کرایوں اور دوسری بہت سی چیزوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث بڑی تعداد میں لوگ ایسے ممالک کو ترجیح دے رہے ہیں جہاں گزارا آسان ہو۔ اپنے دوستوں کو ٹورونٹو سے رخصت ہوتا دیکھ کر 49 سالہ سلاکو واشک اور 45 سالہ پیڈرو ہوزے مارسیلینو قدرے مایوس ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ وہ کینیڈا میں کبھی اپنے مکان کے مالک نہیں بن سکیں گے۔ ان دونوں نے بہتر زندگی بسر کرنے کیلئے آبائی ملک وسط پرتگال منتقل ہونے کا فیصلہ کیا ہے!
''لٹل اٹلی‘‘ میں اپنے 2200 ڈالر کرائے کے اپارٹمنٹ کو وہ آسانی سے افورڈ کرسکتے ہیں تاہم ذاتی مکان یا اپارٹمنٹ کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنا ان کیلئے شاید ممکن نہ ہو پائے گا۔ کینیڈا میں آباد بہت سے لوگ اب وہاں کے شکستہ حال مکانات کی قیمت کا موازنہ جب یورپ میں مکانات کی قیمت سے کرتے ہیں تو انہیں یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوتی ہے کہ برطانیہ کے بیشتر شہروں میں مکانات خاصے کم قیمت ہیں۔ کینیڈا میں اُجرتیں معقول ہیں تاہم حکومت لوگوں کو اپنا مکان خریدنے میں مدد دینے کے حوالے سے کچھ خاص نہیں کر رہی۔ پراپرٹی سیکٹر بلندی پر ہے۔ مکانات اور اپارٹمنٹس کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔ کینیڈا میں بہت سے لوگ اور بالخصوص غیر ملکی باشندے سستے مکانوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور یوں انہیں بار بار رہائش تبدیل کرنا پڑتی ہے۔ جو لوگ یہ سوچ کر خوش ہولیتے تھے کہ ذاتی مکان خریدنے کے بعد اس کا کوئی حصہ کرائے پر دیکر اضافی آمدنی کا اہتمام کرسکیں گے‘ وہ اب شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ واضح رہے کہ کینیڈا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بسے ہوئے بہت سے غیر ملکیوں کو ان کی حکومتیں واپسی کیلئے پُرکشش پیکیج پیش کر رہی ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں اپنے مکانات اور دکانوں وغیرہ کے مالک اگر وطن لوٹیں گے تو اپنی پراپرٹی بیچ کر زرِ مبادلہ بھی وطن ہی لے جائیں گے۔ حکومتیں بڑے پیمانے پر زرِ مبادلہ کے حصول کیلئے اپنے شہریوں کو ٹیکس میں رعایت اور ایسی ہی دیگر پُرکشش پیشکشیں کر رہی ہیں۔ یہ بات بھی حیرت انگیز ہے کہ کینیڈا کی حکومت افرادی قوت درآمد کرنے کے معاملے میں بڑھ چڑھ کر اقدامات کر رہی ہے اور دنیا بھر کے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک سے اعلیٰ تربیت یافتہ افراد کینیڈا کا رُخ کر رہے ہیں۔ اس وقت وہاں ریکارڈ امیگریشن ہو رہی ہے۔ ایسے میں کینیڈا سے رختِ سفر باندھنا بہت عجیب لگتا ہے۔ 2022ء کے وسط سے 2023ء کے وسط تک کینیڈا میں امیگرینٹس کی تعداد 33 ہزار 337 رہی ہے۔ 2017ء کے بعد سے یہ بلند ترین اعداد و شمار ہیں۔ برٹش کولمبیا بزنس کاؤنسل کے تجزیہ کاروں کے جمع کیے ہوئے ڈیٹا کے مطابق بہت سوں کا کہنا ہے کہ کینیڈا میں صرف ہائوسنگ اور کھانا پینا ہی مہنگا نہیں بلکہ اور بھی بہت سے معاملات میں زیادہ ادائیگی کرنا پڑ رہی ہے۔ ایسے میں وہ وہاں جانا چاہتے ہیں جہاں اپنی کمائی کا بہترین متبادل پاسکیں۔
یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ کینیڈا میں فی کس خام قومی پیدوار میں کورونا کی وبا سے پہلے کے اعداد و شمار کے مقابلے میں کمی آئی ہے۔ کورونا کی وبا کے ختم ہونے کے بعد معیشت کو بحال کرنے میں کینیڈا کی حکومت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائی۔ معاشی تعاون و ترقی کی تنظیم کے 38 ممالک میں کینیڈا اس حوالے سے پانچواں بدترین ملک ہے۔ آٹھ ترقی یافتہ ممالک میں کینیڈا واحد ملک ہے جہاں حقیقی اوسط آمدنی کورونا کی وبا سے پہلے کی سطح کے مقابلے میں نیچے رہی ہے۔ افراطِ زر کی شرح خاصی بلند رہی ہے جبکہ انفرادی سطح پر آمدنی نہیں بڑھی۔ اس کے نتیجے میں وہاں آباد لوگوں اور بالخصوص تارکینِ وطن کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ شمالی افریقہ‘ جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے بیشتر ممالک سے لوگ اب بھی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دنیا کا رُخ کر رہے ہیں۔ یہ رجحان کمزور نہیں پڑ رہا۔ پاکستان جیسے ممالک ایک معاملے میں نمایاں ہیں‘ افراطِ زر کی بلند شرح کے باعث یہاں بھی زیادہ کمانا کچھ خاص مشکل نہیں۔ بیشتر انتہائی قابل پاکستانی نوجوان جتنا کچھ باہر کماتے ہیں اُتنا ہی ملک میں بھی کماسکتے ہیں۔ ہاں‘ اپنی لیاقت سے مطابقت رکھنے والی ملازمت تلاش کرنے میں کچھ وقت ضرور لگتا ہے۔
پھر ہم یہ بھی بھولتے ہیں کہ کینیڈا‘ امریکہ اور یورپ میں آباد ہونا کوئی مفت کا معاملہ نہیں۔ اچھی خاصی رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔ ابتدائی مرحلے میں تو وہاں بھی تارکینِ وطن پریشان ہی رہتے ہیں۔ وہاں بھی پیسے پیڑ پر نہیں لگتے کہ ہاتھ بڑھائیے اور توڑ لیجیے۔ ہمارے ہاں سے بیشتر نوجوان اہلِ خانہ سے خاصی وقیع سرمایہ کاری کرواکے بیرونِ ملک جاتے ہیں۔ کہیں بھی جانے سے قبل وہاں کے حالات کے بارے میں اچھی طرح جان لینا لازم ہے۔ کوئی اچھا ہنر سیکھے بغیر یا اعلیٰ درجے کی تعلیم و تربیت حاصل کیے بغیر کینیڈا یا کسی اور ترقی یافتہ ملک کا رُخ کیجیے گا تو مشکلات ہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مشکلات وہاں بھی ہیں۔ اُن کے لیے تیار ہوکر جائیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved